• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلی پرویز مشرف....صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

خبر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی نئی بات ہو اور جس میں کوئی انکشاف ہو، باقی خبریں محض معمول اور روٹین کی ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے خاص طور پر وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے بیانات کی مثال دی جاسکتی ہے جو تقریباً ہر روز ایک ہی رٹا ہوا سبق سنادیتے ہیں اور بمعہ تصویر اخبارات میں جگہ پاتے ہیں۔ بعض خبریں پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے جیسے”خبری شخصیت“ بیان کی آڑ میں ترغیب دے رہی ہے۔ میرے سابق کرم فرما میاں شہباز شریف برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ آج پچاسویں دفعہ ان کا یہ بیان یا انتباہ پڑھ کر مجھے ایسا ہی احساس ہوا ہے۔ وہ گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلسل فرمارہے ہیں کہ اگر لوگوں کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ موجودہ نظام کو آگ لگا دیں گے۔ میں غریبوں سے ملتا ہوں اور ان کی باتیں بھی سنتا ہوں ظاہر ہے کہ یہ سہولت یا اعزاز وزیر اعلیٰ صاحب کو حاصل نہیں ہے۔ میں اپنے مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ تمام تر مایوسیوں اور بے انصافیوں کے باوجود ابھی تک عوام کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ محلات کو جلادیں یا نظام کو آگ لگادیں اس لئے آج پھرپنجاب کے محبوب وزیر اعلیٰ کا یہ بیان پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے وہ لوگوں کو ایسا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، کیونکہ سچا لیڈر وہ ہوتا ہے جوراستہ دکھائے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آگ لگانے کی” خوشخبری“ وہ آٹے پر ، آٹھ نو ارب روپے کی سبسڈی دینے کے بعد سنارہے ہیں حالانکہ اس سبسڈی کا مقصد ہی اس آگ کو بجھانا تھا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
معذرت ۔ بات دور نکل گئی ، لکھنا کسی اور موضوع پر تھا اور درمیان میں نہ جانے میاں صاحب کہاں سے آگئے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ خبر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی انکشاف ہو، اس لئے میرے لئے یہ خبر کوئی خبر نہیں تھی جو لندن کے ایک اخبار کے حوالے سے کئی پاکستانی اخبارات میں چھپی ہے۔اس خبر کے مطابق تین روز پہلے ہما رے سابق صدر اورمسلم لیگ (ق) کے بانی جنرل پرویز مشرف لندن کے ایک پوش علاقے کنزنگٹن کے ایک مہنگے چینی ریسٹورنٹ میں رمضان مبارک کے آخری عشرے کا ”احترام“ کرتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتے پائے گئے۔اس خبر کے مطابق مہنگے کھانے کو حلق سے ا تارنے کے لئے مہنگی شراب بھی موجود تھی۔ہوسکتا ہے کہ میرے بہت سے سادہ لوح پاکستانی دوستوں کو یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی ہو حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ پرویز مشرف بنیادی طور پر سیکولر اور ترقی پسند واقع ہوئے ہیں۔ مذہبی اصولوں اور دینی پابندیوں کو پامال کرنا اور ہر اس شے سے لطف اندوز ہونا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے ان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔
پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ اکثر اپنے سید ہونے پر فخر کرتے تھے اور عوامی جلسوں میں سینہ تان کر کہا کرتے تھے کہ مجھے دوبار خانہ کعبہ کے اندر جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میں نے اتنے عمرے اور حج کئے ہیں لیکن اس راز سے سبھی واقف تھے کہ جنرل صاحب ناؤ نوش کے رسیا اور شوقیہ جواء کھیلنے کے عادی تھے۔ خواتین سے عشق اور آنکھ مچولی ان کی فطرت ہے جس کا انہوں نے چسکے لے لے کر اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کے جاننے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ انکشاف اصل کا عشر عشیربھی نہیں۔ اسی لئے تو بے چارے قاضی حسین احمد مشرفی دور میں بار بار کہتے تھے کہ ہم حکمرانوں کو یحییٰ خان ثانی نہیں بننے دیں گے لیکن وہ بھلا جنرل صاحب کو کیسے روک سکتے تھے۔یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو ا پنے مدہوش جام میں ڈبو دیا جبکہ پرویز مشرف نے لال مسجد کے معصوموں کا خون اور اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان اور پاکستان کے امن کو اپنے اس رنگین پیالے میں غرق کر دیا جسے وہ سر پر رکھ کر دوستوں کی محفل میں ڈانس کیا کرتے تھے۔تحقیق کرلیجئے کہ ان کے دوستوں اور دست و بازو کی فہرست میں احمدیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے دور میں ان کے احمدی دوستوں نے نہ ہی صرف اپنے فرقے کو نوازا بلکہ نہایت کاریگری سے دولت بھی بنائی جسے بیرون ملک بھجوادیا گیا۔فلاش، شراب اور عورت کے رسیا پرویز مشرف ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہے۔آج اسی لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے پرویز مشرف اور ان کے دوست اندرون و بیرون ملک شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ورنہ حلال کی آمدنی سے تو ریٹائرڈ سرکاری ملازم چند روز بھی لندن کے ہوٹلوں کی مار نہیں کھا سکتا۔ لیکچروں کی بڑھا چڑھا کر آمدنی کا ذکر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب حکمرانوں نے ایسے شخص کو کلین چٹ دے دی ہے اور اس کے قومی جرائم پر مقدمہ چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان پر سنگین غداری کا مقدمہ نہ چلا کر غلطی کی اور پٹاری سے ضیاء الحق نکل آیا۔ ایسی ہی غلطی کا ارتکاب بھٹو صاحب کے جانشین کررہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور پٹاری سے پھر کیا کچھ نہ کچھ نکلے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب31دسمبر1999ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو ساری دنیا میں نیو میلنیم یعنی نئی صدی کے آغاز کا بہت شور و غوغا تھا۔مغربی ممالک نئی صدی کے استقبال کے لئے وسیع پیمانے پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ اتفاق سے دسمبر کے آخر سے لے کر جنوری تک رمضان کا مہینہ تھا تین چار جنوری2000ء کو ایک اہم شخص مجھے ملنے آیا تو گفتگو کرتے کرتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اس نے بتایا کہ جنرل صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ نیو میلینیم کے استقبال کے لئے مری کے فلاں میس میں سحری تک خوب پی اور خوب ہنگامہ برپا کیا۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ وہ ہنگامہ کیا ہوگا۔چند ماہ بعد ایک غیر معروف ملک کے سفیر نے مجھے کھانے پر بتایا کہ تمہارے صدر صاحب سے فلاں مشترکہ دوست کے گھر ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔ وہ ہر بار ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں کہ میں نارمل انسان ہوں۔ان کے نزدیک نماز روزے اور اسلامی اصولوں کے پابند لوگ ابنارمل ہیں۔12اکتوبر کو جب پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو لاہور کا ایک دولت مند اسمگلر لندن بھاگ گیا اسے ڈر تھا کہ نئی حکومت اسے دھر لے گی ۔چھ ماہ بعد وہ واپس آیا تو اس کی اکڑ میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک دن اس نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے جماعت احمدیہ لندن سے پرویز مشرف کے ایک قریبی دوست کو فون کروایا تھا جن کے تسلی دینے پر وہ واپس لوٹ آیا ہے اور اب اسے کوئی خطرہ نہیں۔
آپ بھی حیران ہوں گے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کیونکہ میں اس طرح کے کالم نہیں لکھا کرتا لیکن کیا کروں میرا دل کہتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے افق پر شرابی، زانی اور راشی ڈکیت حکمرانوں کے کارناموں کی نحوست چھاچکی ہے اور جب تک یہ نخوست چھائی رہے گی پاکستان سے غربت ختم ہوسکتی ہے نہ پاکستان مسائل کے چنگل سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔



تازہ ترین