• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف اور بھولے سیاستدان....مختار احمد بٹ

پتہ نہیں ہمارے سیاست دان کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ جن باتوں کا علم ملک کے بچے بچے کو ہے وہ اس سے بھی بے خبر ہیں۔ کتنے تعجب کی بات ہے ۔ سابق صدر مشرف کا وردی اتارنا پھر ایک خاص مدت کے بعد صدارت سے استثنیٰ دینا اور گارڈ آف آنر کے ساتھ قصر صدارت سے رخصت ہونا اور پھر سابق صدر کے ناطے سے زیادہ پروٹوکول کا ملنا اگر ڈیل نہیں تو پھر کیا ہے۔
مشرف کے جانے کے بعد امریکا سے ڈکٹیشن لینے میں کمی آئی ہے۔ کیا ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں کیا وار آن ٹیرر سے ہم جان چھڑالی ہے کیا آئی ایم ایف کا طوق اتار دیا ہے کیا حکمرانوں کی عیاشیوں میں کوئی کمی آئی ہے۔ بلیک واٹر کی آمد، کہوٹہ کے نزدیک امریکی سفارت خانہ کی توسیع کیلئے 18ایکڑ زمین کی فروخت یہ باتیں تو ڈیل سے بھی آگے کی ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ صدر آصف علی زرداری ہیں۔ بظاہر انہوں نے ڈکٹیٹروں کی طرح آئین میں من مانی تبدیلیاں نہیں کیں۔ بلکہ ان کے بقول انہیں سب کچھ ورثے میں ملا ہے۔ اور جو چیز ورثے میں ملتی ہے اس کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ یوں صدر محترم اس ورثے کی اچھی طرح حفاظت کررہے ہیں۔
وہ سپریم کمانڈر ہیں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا یعنی وہ مختار کل ہیں۔ بلاشبہ پارلیمینٹ موجود ہے لیکن اس پارلیمینٹ اور سابقہ پارلیمینٹ میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کا تحفہ سابق صدر ہی نے دیا ہے۔ لہٰذا پارلیمینٹ جس طرح ماضی میں نظر انداز ہوتی رہی ہے اسی طرح اب بھی ہو رہی ہے فرق صرف اپوزیشن کا ہے۔ پہلے اپوزیشن فرینڈلی ہوتی تھی آج سرے سے کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ جو کام پارلیمینٹ کو کرنے چاہئیں انہیں عدالتیں کر رہی ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) مشرف کے ٹرائل پر زور دے رہی ہے اس سلسلے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں بات بڑی سیدھی ہے جب تک ہماری آپس کی لڑائیاں ختم نہیں ہوں گی اس وقت تک دوسرے مسائل ان حل رہیں گے۔ملک پہلے بھی قرضوں میں جکڑا ہوا تھا اب ان میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اور ہم بھکاریوں کی طرح کشکول اٹھائے ساری دنیا میں گھوم رہے ہیں۔
موجودہ حکومت نے عوام کو بھکاری بنا دیا ہے۔ مختلف اسکیموں کے بیرون ملک سے قرضے لے کر عوام کو ماہانہ رقم دی جا رہی ہے۔ اگر ہم واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو ماہانہ پیسے بانٹنے کے بجائے شہروں میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائیں تاکہ لوگوں کو مستقل طور پر روزگار مہیا ہو موجودہ طریقہ کار مزید بے روزگاری کو جنم دے گا۔ پہلے بھی یہی ہو رہا تھا اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ آج بھی ہر کام بالا بالا ہو رہے ہیں پارلیمینٹ کو بالادست بنانے کی باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کبھی نہیں ہو رہا۔ ویسے بھی صدر آصف علی زرداری نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سابق صدر کو محفوظ راستہ دینے میں ملکی اور غیرملکی طاقتیں ضامن ہیں اس میں وہ بھی شامل ہیں۔ یہ انہوں نے حقیقت بیان کی ہے اس لئے اس پر شور مچانے کا کوئی مقصد نہیں بنتا۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ڈیل کے نتیجے میں سابق صدر کو جن چیزوں کا پابند کیا گیا تھا وہ اس کا خیال نہیں رکھ رہے تاہم یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ کیونکہ طاقت کا نشہ ٹوٹنے میں وقت تو لگتا ہے ۔ منتخب جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) واحد سیاسی جماعت ہے جو مشرف کے ٹرائل پر زور دے رہی ہے لیکن جب تک تمام فریق اکھٹے نہیں ہوں گے بیل منڈے نہیں چڑھے گی۔
بظاہر غیرملکی ضامن جن میں امریکا، برطانیہ، سعودی عرب شامل ہو سکتے ہیں وہ ایسا ہونے نہیں دیں گے اس لئے کہ پاکستان کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیں اور وہ ہمیں ڈالر بھی تو دے رہے ہیں بہتر تو یہی ہے کہ یہ کھیل تماشہ اب بند ہونا چاہئے اور جو کام کرنے کے ہیں ان پر توجہ دینی چاہئے۔ رہا سوال 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کا سابق دصر نے کہا ہے کہ ان کے اس اقدام کو کور کمانڈرز اور گورنرز کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور ابھی تک کسی نے تردید نہیں کی البتہ ڈپلومیسی کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہاں بھی ہے اور ناں بھی۔ اگر کسی کو اختلاف تھا تو سابق صدر کے اتنے بڑے ماورائے آئین اقدام پر کسی نے احتجاجاً استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ کم از کم وہ اتنا تو کرسکتے تھے۔ 9کور کمانڈرز اگر انہیں منع کرتے سابق صدر کبھی جرات نہیں کر سکتے تھے اصل میں جب لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ملک کے سربراہ کے غلط کام بھی انہیں اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
سابق صدر نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ بات کہی ہے کہ کوئی مائی کا لال مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا اتنا بڑا بول وہی بول سکتا ہے جس کے پیچھے کوئی بڑا ہاتھ ہو سابق صدر کے پیچھے تو کئی بڑے ہاتھ ہیں ویسے انہیں اتنا غرور بھی نہیں کرنا چاہئے۔ اور اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہئے۔ کیا ہوا اگر عوام کے 1170نمائندے انہیں ہاتھ نہیں لگا سکتے 17کروڑ عوام تو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ سابق صدر کو بارہا مخلصانہ مشورے دیئے کہ وہ وردی اپنے مقدس پیشے کا ہی خیال کریں، اپنی برادری کی باتوں پر دھیاں دیں لیکن وہ طاقت کے نشے میں کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں آرام سے زندگی بسر کرے۔ اتنا بڑا فارم ہاؤس کس کام کا۔ دوسری جانب عوام پریشان ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ آٹے کے حصول کیلئے جانیں گنوا رہے ہیں نوکریاں کن لوگوں کو مل رہی ہیں؟ زمینوں پر قبضے کون کر رہا ہے؟ اپنی شاہ خرچیاں کم کریں، سادگی اپنائیں، خواہ مخواہ کے غیرملکی دوروں سے اجتناب برتیں، عوام کی بگڑتی ہوئی حالت پر ترس کھائیں۔
عوام اب نان ایشوز کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ اپنے دوستوں کو نوازنے میں احتیاط برتیں۔ جن کی شہرت اچھی نہیں ہے انہیں قریب نہ بھٹکنے دیں اور میڈیا میں جب کوئی کرپشن اسکینڈل سامنے آتا ہے تو اس پر فوری کارروائی کریں۔ قصر صدارت کو پارٹی آفس میں تبدیل نہ کریں۔

تازہ ترین