• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم اسلام کی عید...تحریر، مولانا محمد حنیف جالندھری

ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
ماہِ رمضان کا مقدس مہینہ آخرہوا اور عید آپہنچی، مسرتوں اور خوشیوں کا دن ، ایک دوسرے سے ملنے ،باہمی رنجشوں کو دور کرنے اور مسرتوں کو بانٹنے کا دن … مسلمان معاشرے کی روایت رہی ہے کہ اس دن لوگ آپس میں ملتے ہیں،رشتے دار ایک دوسرے کے ہاں جاتے ہیں ،چھوٹے بڑوں سے دعائیں لیتے ہیں اور بڑے چھوٹوں کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہیں ،سال بھر کی ناراضگیاں ختم ہوتی ہیں ،بیماروں کو حوصلہ ملتا ہے ،ضعیف العمر بزرگوں کو بڑھاپے کی مایوسی میں ایک ولولہ آس اور ایک نشاطِ تازہ حاصل ہوتا ہے ، مسافر گھروں کو آتے ہیں اور گھروں کی جدائیاں ،رونقوں میں بدل جاتی ہیں ،والدین کا اپنی اولاد کے ساتھ ،بہنوں کا بھائیوں کے ساتھ اور رشتہ داروںکا ایک دوسرے کے ساتھ قربتوں کا احساس تازہ ہوجاتا ہے ،خاندان آپس میں جڑ جاتا ہے اور خاندانی رشتوں میں قدرت نے جو شیرینی اور مٹھاس رکھی ہے ،اسے پانے اور بڑھانے کا ایک موقع میسر آجاتا ہے …خاندان سے نکل کر عام معاشرے کی سطح پر جان پہچان،رکھنے والے مسلمان بھی اس دن ایک دوسرے سے ملتے ہیں ،خوشیاں تقسیم کرتے ہیں اور زندگی کے دکھ درد کو کم کرتے ہیں … مسلمان معاشرے کے لیے عید کا یہ دن ان خوبیوں کے ساتھ آتا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ دن ہماری عید ہے ‘‘… یہ صرف خوشیوں کے اظہار کا ایک تہوار نہیں ،بلکہ مسلم معاشرے میں خاندانی ،ملی اور قومی سطح پر قربتوں کا ایک ذریعہ بھی ہے ۔یہ جو لوگوں نے مشہور کر ررکھا ہے کہ ’’عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے ‘‘یہ ایک خلافِ حقیقت بات ہے ،اسلام کے اندر عید کے دن کی بہت ساری مصلحتیں اور حکمتیں ہیں اور عید کا ایک فلسفہ حیات ہے ، اسلام نے مغربی اقوام کی طرزِ زندگی کی طرح معاشرے میں ضعیف العمر بزرگوں کو زندگی کی خوشیوں کے دھارے سے الگ نہیں کیا ،مغرب کے اندر بڑھاپا عذاب ہے ،اسلامی طرز حیات میں بڑھاپا ادب و احترام کا ایک استعارہ ہے ،چھوٹو ں کو پابند کیا گیا کہ وہ بزرگوں کا احترام کریں ، ان کی خدمت کریں ، ان سے دعائیں لیں اور ان کے دست شفقت کی سرپرستی میں زندگی گزاریں ، چنانچہ اسلامی معاشرے میں آج بھی یہ جھلک دیکھی جاسکتی ہے کہ عید کے دن خاندان کے افراد اپنے بزرگوں کی خدمت میں سب سے پہلے حاضری دیتے ہیں ،بیٹے بیٹیاں ماں باپ کے پاس ، پوتے پوتیاں دادا دادی کے پاس ، نواسے نواسیاں نانانانی کے پاس حاضری دیتے ہیں، چھوٹے بہن بھائی ،بڑے بہن بھائیوں کے ہاں حاضرہوتے ہیں ،خاندان کے یہ بزرگ اپنے ان چھوٹوں کو دیکھ کر ایک خوشی ،ایک اطمینان اور ایک ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور چھوٹے اپنے ان بڑوں کی خدمت میں جاکر اپنے اوپر سرپرستی اور دعاؤں کے سائبان کا احساس پاتے ہیں ،یہ مسلم معاشرے کی خصوصیت ہے اور عید کا یہ دن ،اس خصوصیت کو اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع ہے …رشتہ داروں سے آگے بڑھ کر اپنے مسلمان بھائیوں سے ملنا ،دوستوں اور احباب کی خبر گیری کرنا،اپنے اساتذہ اور محسنوں کو یادکرنا ،بیماروںکی عیادت کرنا ،اور دنیا سے جانے والے کے پس ماندگان سے تعزیت کرنا ، ان کے غم کو بانٹنا …انہیں مسرتوں میں شریک کرنا… یہ عید کے اسلامی آداب اور بڑوں کی اصل عیدی ہیں … عید بچوں سے زیادہ بڑوں کی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے کہ بچپن کا تو ہر دن عید کہلاتا ہے ،بے فکری اور دنیا کے جھمیلوں سے دور بے غمی کا زمانہ عید ہی تو ہے نا، عید کے موقع پر اس میں اور نکھار آجاتا ہے ،نئے کپڑوں ،جوتوں اور کھلونوں سے بچوں کی خوشیاں دیدنی ہوتی ہیں،لیکن بڑوں کی خوشیوں کے احساس کے دائرے بدل جاتے ہیں ،مسلمانوں کی عید چھوٹے اور بڑے دونوں کے دائروں میں ایک نشاطِ تازہ اور ایک رعنائی فراہم کرتی ہے …ہمیں اپنے اسلامی معاشرے کی عید کی ان خوبصورت روایات کو زندہ و تابندہ رکھنا چاہیے کہ ان میں بہت سی معاشرتی الجھنوں کاحل مضمر ہے ،اسلام کے اندر عید دو ہیں ، ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔رمضان ختم ہونے کے بعد یکم شوال کا دن عید الفطر کہلاتا ہے ،اس میں سورج نکلنے کے بعد دور کعت نماز عید ہے جو عید گاہ ،یا علاقے کی کسی جامع مسجد میں عموماً پڑھی جاتی ہے ،نماز عید سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم ہے ،رمضان کے روزوں میں جو کوتاہیاں اور کمزوریاںرہ جاتی ہیں ، صدقۃ الفطر ان کی تلافی کاسبب ہے ، اس دن روزہ رکھنا منع ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانے پینے کا دن ہے ،عید کے لیے عمدہ لباس پہننا سنت ہے اور اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر لباس پہننا افضل ہے لیکن کپڑوں کی خریداری میں حدسے زیادہ تجاوز اسراف کے زمرے میں آتا ہے جو منع ہے … آج ہماری انفرادی ،ملی اور قومی زندگی میں اسراف اور فضول خرچی کی گنجائش نہیں … ہمارا ملک بحران کی زد میں ہے اور عالم اسلام مصائب وآلام کے گھیرے میں ہے ، آج کے اس جدید میڈیا کے دور میں آپ کو شامی مہاجرین کے اجڑے گھر نظر آئیں گے ،برما کے مسلمانوں کی تڑپتی لاشیں دیکھ سکیں گے ،عراق کے مسلمانوں کی کربناک داستان سب کے سامنے ہے ،کشمیر جل رہاہے اوروطن عزیز میں دھماکوں کا المناک سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا … خونِ مسلم کی ارزانی اس سے قبل شاید ہی کبھی اس قدر ہوئی ہو …مسلمان زخمی ہیں اور عالم اسلام زخمی ہے ایسے میں ہمیں عید ضرور منانی چاہیے لیکن سادگی کے ساتھ ، عید کی اسلامی معاشرے میں ذکرکرد ہ تابندہ روایات کے ساتھ …اللہ کی طرف رجوع کے ساتھ … اور دعاؤں کے ساتھ … اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ فرمائے اور عالم اسلام کو بحرانوں سے نکالے … اس دعا کے ساتھ اہل پاکستان کو عید مبارک ؎
خداکرے میری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

 

.

تازہ ترین