• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید ......گلے ملنے، شکوے مٹانے، دکھ درد بانٹنے اورمحبتیں بڑھانے کا دن ہے۔ قرآن حکیم نے کسی قوم کے خوشی کے دن کا ذکر ’’عید‘‘ کے عنوان سے ہی کیا ہے۔عیدالفطر (یکم شوال المکرم)اور عید الاضحی (10ذی الحج)وہ مبارک دن ہیں جن کی نوید، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ؐ کے ذریعے ان کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے کے بعد دی۔ یوں تہواروں کے نام پر کھیل تماشوں، ذاتی و خاندانی شان و شوکت کے مظاہر، لہو و لعب اور بعض اعتبار سے احترام آدمیت کے منافی وہ تمام اعمال و افعال ممنوع ہوگئے جو دور جاہلیت کا خاصہ تھے۔ ان کی جگہ ایسا نصاب عطا فرمایا گیا جو اللہ کی رضا و خوشنودی اور دنیا و آخرت میں کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ عید الفطر رمضان کے روزوں، شب بیداریوں، وسائل سے محروم لوگوں کی زکوٰۃ و صدقہ فطر سمیت مختلف طریقوں سے دلداری کا انعام ہے جبکہ عیدالاضحی ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی کی سنت کی تجدید کا موقع فراہم کرتی ہے جس کا مقصد شیطانی و نفسانی وسوسوں کےخلاف مزاحمت بڑھانا اور احکامات الٰہی کی بجا آوری میں اپنی ذات، اولاد اور خاندان کی بقا سمیت کسی بھی مفاد کو آڑے نہ آنے دینے کی تربیت حاصل کرنا ہے تو دوسری جانب حج و عمرے کی سعادت کی صورت میں سفر سمیت ہر قسم کے مشکل حالات میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے سے شاکی یا دست بگریباں ہونے کی بجائے باہم دست و بازو بن کر رہنے کی عادت اختیار کرنا ہے تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو،جو اولاد آدمؑ ہونے کے ناطے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں، امن ،آشتی اور فلاح کے اس نصاب کی تکمیل کی طرف پورے اخلاص و محبت سے متوجہ کیا جا سکے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے ذریعے مختلف ادوار میں انسانی ذہن کی ارتقائی کیفیات کے مطابق آتا رہا ،اللہ کے آخری نبی ؐ کے ذریعے مکمل کیا گیا اور روز آخرت تک ہر قسم کی تحریف ترمیم سے محفوظ رہنے کی ضمانت والی کتاب کی صورت میں قیامت کے لئے نافذ ہو گیا۔ عید کا دن ہمارے لئے انعامات کی خوشخبریاں بھی لاتا ہے اور اس جائزے کی ضرورت بھی اجاگر کرتا ہے کہ ہم نے اپنی انفرادی زندگی میں ،قومی زندگی میں اور بطور امت بھی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو کتنا یاد رکھا اور کتنا فراموش کر دیا۔آج عیدالفطر ہم اس عالم میں منا رہے ہیں کہ مسلم اکثریت کے حامل، اہم ترین ملک پاکستان میں ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے اسے نان شبینہ سے محروم کرنے والی اشرافیہ اپنی پالیسی سازی کی قوت اس انداز میں بروئے کار لا رہی ہے کہ تمام تر قومی وسائل اس کی اپنی شاہ خرچیوں کے لئے وقف ہونے اور پوری قوم کے کئی نسلوں تک بیرونی قرضوں کا اسیر بنائے جانے کے باوجود اشرافیہ کے لوگ اپنی وسیع املاک اور آمدنیوں پر براہ راست ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں ۔ بطور امت جن ملکوں کی قیادتوں کو پوری دنیا پر پھیلتے جنگ کے سایوں کو روکنے کی کوشش کرنا تھا ان کے باہمی اختلافات خطرات کی حدیں چھوتے محسوس ہورہے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جس سے بچنے کی تلقین اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں ان الفاظ میں کی تھی:’’دیکھو! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ہی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ خطبے میں یہ تنبیہ بھی کی گئی :’’لوگو! تمہارا خون اور تمہارا مال تمہارے لئے حرام ہے یہاں تک کہ قیامت میں خدا کے سامنے پیش ہو‘‘ اس واضح تلقین و تنبیہ اور مسلم ممالک کی اپنی بقا کا تقاضا ہے کہ مسلم قائدین یومیہ پانچ وقت کی نمازوں ، جمعہ کے بڑے اجتماع، عید بقرعید کے زیادہ بڑے اجتماعات اور حج کے عالمی اجتماع کے ذریعے دیئے گئے اجتماعیت کے درس کو ملحوظ رکھیں ۔ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے‘‘ اور ’’اپنے معاملات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے کے‘‘ قرانی احکامات کی تعمیل کے لئے اپنی انائو ںکو پس پشت ڈال کر باہم مل بیٹھنے کا اہتمام کریں۔ ایک دوسرے کو گلے لگائیں اور مسلمانوں کے تحفظ کے مشترک نکتے کو سامنے رکھ کر اجتماعی جدوجہد کریں۔

 

.

تازہ ترین