جنرل (ر) پرویز مشرف خود کو اور پاکستان کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے حالانکہ صورت حال لازم و ملزوم نہیں، ظالم و مظلوم والی تھی۔ موصوف اپنی ذات کے عشق میں کچھ اس بری طرح مبتلا تھے کہ مجھے یقین ہے اپنی سالگرہ پر وہ اپنے اہل خانہ کو مبارک باد کا پیغام بھیجتے ہوں گے۔ جنرل صاحب خود کو عقل کل سمجھتے تھے اور یوں انہیں یقین تھا کہ اس بے عقل قوم کی رہنمائی ان پر فرض ہے۔ وہ اس فرض کو ”فرضِ کفایہ“ بھی نہیں سمجھتے تھے کہ پوری قوم میں سے کوئی اور فرد بھی یہ فرض دا کرے تو گزارا ہو سکتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ فرض صرف اور صرف وہی ادا کر سکتے ہیں۔ ان دنوں موصوف ”جلا وطن“ ہیں مگر ان کے آقاؤں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کے لیکچرز کی صورت میں ان کا مستقل وظیفہ مقرر کیا ہوا ہے اور وظیفے کی یہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ ماضی کے بڑے بڑے مدبروں کا ”ریٹ“ بھی شاید اتنا نہ لگا ہو۔ سوویت یونین کو پارہ پارہ کرنے والے گوربا چوف بھی مغرب کی اسی طرح کی عنایات سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں اور پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی ممکن حد تک کوشش ہمارے جنرل صاحب نے بھی کی تھی، گو وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے لیکن نیت کا ”اجر“ تو بہرحال ملتا ہے اور مغرب یہ اجر اتنی بھاری مقدار میں انہیں ادا کر رہا ہے کہ جنرل صاحب اب لندن میں پہلے سے کہیں زیادہ قیمتی فلیٹ خریدنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کبھی ق لیگ والوں کے قبلہ و کعبہ تھے چنانچہ اس کے رہنما ادب کی وجہ سے ان کی طرف پیٹھ کر کے نہیں بیٹھتے تھے یا یہ ان کی احتیاط کا تقاضا تھا کیونکہ موصوف کا ریکارڈ پیٹھ میں چھری گھونپنے کا رہا تھا جس کا مظاہرہ ایک سرکاری ملازم ہوتے ہوئے پاکستانی عوام کے منتخب وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو گھائل کرنے کی صورت میں سب کے سامنے تھا۔ آج کل موصوف اپنی قوم کی بے قدری اور نامردم شناسی کے رویے پر یقینا شاکی نظر آتے ہوں گے کہ اپنی عقل و دانش کے بل بوتے پر پوری دنیا کو غلام بنانے والے اہل مغرب تو ان کی دانائی سے فیض اٹھانے کے لئے انہیں مختلف فورموں پر بھاری معاوضے ادا کر کے مدعو کرتے ہیں لیکن ان کی قوم جس کی خاطر انہوں نے پورے نو سال ”بادل نخواستہ“ اقتدار میں رہنا قبول کیا نہ صرف یہ کہ انہیں گھاس نہیں ڈالتی بلکہ ان کے نام سے بھی الرجک ہے تاہم یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس کے باوجود وہ دیارِ مغرب میں رہتے ہوئے اس بے وقوف اور احسان فراموش قوم کو اپنے رہنما قسم کے بیانات سے نوازتے رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں ارشاد فرمایا ہے کہ نواز شریف اندر سے طالبان ہیں۔ ممکن ہے یہ بیان پاکستانی قوم کو خبردار کرنے کے لئے نہیں بلکہ امریکہ کو خبردار کرنے کے لئے دیا ہو کیونکہ موصوف کی بیڑیوں میں ”وٹے“ نواز شریف ہی نے ڈالے ہیں۔ اگر میری یہ ”بدگمانی“ صحیح ہے تو پھر یہ بیان ایک پنجابی گانے ۔گھر جا کے شکایت لاواں گی …ہی کی ایک صورت ہے۔ موصوف نے اسی ”حکمت عملی “ کے تحت سرحد کے ”مولویوں“ سے امریکہ کو ڈرا کر اپنے اقتدار کو طول دیا تھا اور اب وہ پاکستانی عوام کے مقبول ترین رہنما نواز شریف کو ہوّ ا بنا کر امریکہ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کا خیال ہے کہ مغرب میں نواز شریف کو ”مولوی نواز شریف“ بنا کر پیش کرنے سے ان پر آنے والا عذاب ٹل سکتا ہے لیکن ”بدقسمتی “ سے ہمارے پاکستان کی مذہبی جماعتیں اس تاثر کو تقویت دینے کی راہ میں حائل ہیں کیونکہ نواز شریف کی بھرپور مخالفت اگر کہیں سے ہو رہی ہے تو وہ انہی مذہبی جماعتوں کی طرف سے ہے۔ اسی طرح طالبان بھی پرویز مشرف کے متذکرہ بیان کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ نواز شریف اور شہباز شریف کی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ طالبان ہی کی طرف سے ہے۔ بہرحال پرویز مشرف صاحب کا کام امریکہ کو ”نیک و بد“ سمجھانا ہے چنانچہ وہ اس عالمی طاقت کو قائل کرنے کے لئے اپنے بیان کی سپورٹ میں یہ دلیل بھی دے سکتے ہیں کہ نواز شریف نے آج تک جام اپنے سر پر رکھ کر مستانہ وار رقص نہیں کیا چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ طالبان ہیں۔ پرویز مشرف صاحب کو اگر اس حوالے سے مزید دلائل درکار ہوں تو وہ اپنی خلوت اور جلوت کے بہت سے گفتہ اور ناگفتہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ کو بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف کی زندگی اس زندہ دلی سے بالکل خالی ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ نوازشریف طالبان ہیں۔
ابھی اس موضوع پر مزید بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا تھا لیکن اس سے اداکارہ میرا کی حق تلفی کا خدشہ تھا کیونکہ موصوفہ بھی جنرل موصوف کی طرح ہماری توجہ کی مستحق ہیں۔ میں پرویز مشرف صاحب اور اداکارہ میرا دونوں سے معذرت خواہ ہوں کہ ایک سانس میں دونوں کا نام لے رہا ہوں۔ اس کی وجہ دونوں شخصیتوں کی باہمی ہم آہنگی نہیں بلکہ اسے محض اتفاق ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل میرا کے اس بیان نے مجھے اپنی طرف اس بری طرح متوجہ کیا ہے کہ میں جنرل صاحب کا تذکرہ درمیان میں چھوڑ کر موصوفہ کی طرف متوجہ ہو گیا ہوں۔ اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ”فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن میرے چاہنے والے جانتے ہیں کہ میں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا“۔ میرا نے یہ بیان اپنے مبینہ شوہر عتیق الرحمن کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے کے حوالے سے دیا ہے۔ میرا کہتی ہیں کہ میں عتیق الرحمن کو جانتی تک نہیں اور عتیق الرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ عرصے تک میرا سے ان کا رومانس چلتا رہا اور پھر اس کی درخواست پر انہوں نے بال بچے دار ہونے کے باوجود اس سے شادی کر لی اور ہنی مون منانے کے لئے بیرون ملک گئے۔ عتیق الرحمن نے نکاح نامہ اور نکاح خواں دونوں میڈیا کے سامنے پیش کر دیئے۔ مزید برآں وہ ویڈیو فلم بھی ٹی وی چینلز کے ذریعے ہم دل جلوں کو دیکھنے کو ملی جس میں میرا اور عتیق الرحمن ہیرو ہیروئن جیسی حرکتیں کرتے نظر آ رہے ہیں بلکہ اب تو تفتیشی افسر نے جو باریش پولیس آفیسر ہیں، میڈیا کو اپنی تفتیش کا نچوڑ یہ بتایا ہے کہ میرا نے واقعی عتیق الرحمن سے شادی کی تھی۔
یہ سب گواہیاں اپنی جگہ لیکن میرا کی گواہی کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ اس کی گواہی کی لپیٹ میں اس کے درجنوں، بیسیوں، لاکھوں یا کروڑوں چاہنے والے بھی آتے ہیں جن کے حوالے سے میرا نے کہا ہے کہ وہ سب جانتے ہیں میرا نے پوری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ میرا کے اس بیان کے بعد سے میں اچھے خاصے پرابلم کا شکار ہوں۔ میں ہر آئے گئے سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم میرا کے چاہنے والوں میں سے ہو؟ اور وہ جواب میں میرا منہ تکنے لگتے ہیں۔ صرف ایک نے کہا کہ ہاں وہ اسے دل و جان سے چاہتا ہے۔ میں نے پوچھا ”کیا واقعی میرا نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا؟“ اس پر اس نے جھنجھلا کر کہا ”میں میرا نہیں، ریما کی بات کر رہا ہوں، ماشاء اللہ خوبصورت ہے، صوم و صلوٰة کی پابند ہے، سلائی کڑھائی بھی جانتی ہے ، میری والدہ کسی ایسی ہی لڑکی کی تلاش میں ہے“۔ ریما کو لڑکی کہنے والے اس شخص کے ارادوں کے علاوہ اس کی بینائی پر بھی مجھے شک گزرا چنانچہ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس دوران ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ البتہ میرا کے چاہنے والے نکلے، میں نے ان سے پوچھا ”کیا واقعی میرا نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا؟“ بولے ”میں کیا کہہ سکتا ہوں کیونکہ میری کبھی اس سے ملاقات ہی نہیں ہوئی“ میں نے کہا ”فلمیں تو دیکھی ہوں گی“ انہوں نے جواب دیا ”ہاں ایک فلم دیکھی ہے جو عتیق الرحمن کے ساتھ ہے۔ اس میں میرا کی اداکاری لاجواب ہے!“ میرا کے اور بہت سے چاہنے والے بھی اسی طرح کی کچی پکی باتیں کرتے رہے لہٰذا میں اس سلسلے میں کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکا ، لہٰذا میں میرا سے متفق ہوں کہ ”فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی“ سینیٹر پرویز رشید نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بیان دیا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے جبکہ اداکارہ میرا نے اپنے بارے میں پورے یقین سے کہا ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ سینیٹر پرویز رشید کی بات تو یقینی طور پر صحیح ہے کیونکہ انہوں نے خود پرویز مشرف کے اعترافی بیان کا حوالہ بھی دیا ہے جبکہ میرا کے دعوے کی تصدیق ابھی باقی ہے اور اس کے لئے مجھے ابھی ان کے مزید چاہنے والوں سے بات کرنا پڑے گی۔