• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم سے جے آئی ٹی کے سوال وجواب آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے متعلق استفسار کے اطراف گردش کریں گے

Todays Print

اسلا م  آباد( رپورٹ:طارق بٹ) وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم سے پاناما کیس پر جے آئی ٹی کے سوال وجواب درحقیقت اس استفسار کے اطراف گردش کریں گے کہ نیلسن انٹرپرائزاور نیسکول آف شور کمپنیوں کے حقیقی مالک کون ہیں۔ یہ استفسار ان 13سوالات میں موجود ہے جو عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کی تفتیش کے لئے مرتب کئے۔

مذکورہ ایک کے دیگر سوالات مریم سے متعلق بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ اس بات کی توقع نہیں کہ ان کا جواب اس سے مختلف ہو جو وہ سپریم کورٹ میں دے چکی ہیں۔ پیشی کیلئے عدالتی حکم نامہ بلاشبہ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں سے متعلق ہے۔ مریم کی طرح عدالتی حکم نامے میں طارق شفیع، جاوید کیانی، سعید احمد اور رحمٰن ملک کی بھی جے آئی ٹی میں پیشیوں کا بھی ذکر نہیں ہے۔ لیکن انہیں طلب کیاگیا۔ مریم کا طلب کیا جانا لگتا ہے۔

5مئی کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عمل درآمد بنچ کے حکم کے آٹھویں نمبر کے مطابق ہے کہ اگر کوئی جے آئی ٹی میں پیش ہونے یا معاونت میں ناکام رہے یا انکار کرے تو اسے کارروائی کیلئے فوری طور پر عدالت کے نوٹس میں لایا جائے۔

ایک اور نکتہ جس کے تحت کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی ہدایت پر کام کر رہی ہے اور پاکستان بھر میں تمام انتظامی  حکام کو اس کی مدد کیلئے کام کرنا چاہئے۔ عدالتی حکم میں  مزید کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کیس کی تحقیقات اور شہادت جمع کرے کہ وزیراعظم یا ان کے لواحقین یا بے نامی مالکان نے اپنے معروف ذرائع آمدن سے عدم مطابقت کے حامل اثاثے حاصل کئے ہوں۔ لیکن اس میں وزیراعظم کے تما م رشتہ داروں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ صرف زیر کفالت یا بے نام دار کا ذکر ہے۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت مریم کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہیں۔ حسین کی ملکیت آف شور کمپنیوں کے بارے میں مریم کا کہنا تھا کہ وہ ان کی مالک نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں۔ سات ہفتوں کی تحقیقات کے بعد بھی لگتا ہے جے آئی ٹی کو معتبر ثبوت اورشہادتوں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے، اسی لئے آخری کوشش کے طور پر مریم کو طلب کیا گیا ہے کبھی کوئی جے آئی ٹی اس قدر متنازع نہیں ہوئی جتنی کہ موجودہ کو ایسی کیفیت کا سامنا ہے۔ 

تازہ ترین