سابق صدر، سابق جرنیل اور سابق کمانڈو، عالی جناب پرویز مشرف ان دنوں امریکہ میں مختلف اداروں، تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دے رہے ہیں۔ اہل پاکستان کو کچھ اندازہ نہیں کہ 9 برس تک ناقوس آمریت بجانے اور جمہوریت کو بھاری بوٹوں تلے کچلنے والے سیاہ رو ڈکٹیٹر امریکہ کے اہلِ فکر و دانش اور وہاں کی نسل نو کو کیا درس حکمت دے رہا ہے۔ تاہم تصور اور تخیل کے زور پر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف اپنی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور مہارتوں کے مطابق ہی درس حکمت و دانش دے رہے ہوں گے۔ ایک نامور امریکی یونیورسٹی کے ہونہار طلبہ و طالبات سے ان کے خطاب کا متن کچھ اس طرح ہے:(تالیاں)
لیڈیز اینڈ جینٹلمین، مائی ینگ فرینڈز!
سب سے پہلے تو میں آپ کا اور یونیورسٹی اتھارٹیز کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس لیکچر کی دعوت دی گئی۔ میں اس امر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر پیشگی میرے اکاؤنٹ میں جمع کرادیئے گئے۔ یونیورسٹی اتھارٹیز یقیناً تعریف کی مستحق ہیں کہ انہوں نے ساری دنیا سے صرف میرا انتخاب کیا کہ میں امریکہ کی نسل نو کی راہنمائی کرسکوں۔ میں اسے ذرہ نوازی ہی کہوں گا کیونکہ دنیا میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمانے والے اور بھی کئی ڈکٹیٹر موجود ہیں لیکن ان کی نگاہ انتخاب مجھ پر پڑی میں کوشش کروں گا کہ آپ کی اس عظیم دانش گاہ کی توقعات پر پورا اتروں اور اپنے لیکچر کے ذریعے کچھ ایسے سنہری اصول اور درخشاں نظریات آپ کے ذہن نشین کراسکوں جو مستقبل میں آپ کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوں اورآپ بھی میری طرح ایک عظیم انقلابی کی حیثیت سے اپنا نام دنیا کے تاریخ سازوں میں لکھواسکیں۔ (تالیاں)
میرے ہونہار بچو !میں پہلے ایک بدگمانی کا ازالہ کردوں۔ وہ یہ کہ اگرچہ میں پاکستانی کہلاتا ہوں لیکن امریکہ میرے دل میں بستا ہے۔ بظاہر میں نے 9 برس پاکستان پر حکومت کی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے ایک ایک دن اور ایک ایک رات کا ایک ایک لمحہ امریکہ کی خدمت کیلئے وقف تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے حکمرانی پاکستانیوں پر کی اور چاکری امریکہ کی (تالیاں) میں نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کے لوگوں کو طالبان کی سوچ کے چنگل سے آزاد کراؤں لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ میرا بس چلتا تو آج وہاں بھی قدم قدم پر شراب خانے اور جوئے خانے کھلے ہوتے۔ راتیں اسی طرح رنگین ہوتیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسی طرح ایک دوسرے کے بغل میں ہاتھ ڈالے یونیورسٹی کی روشوں پر ٹہل رہے ہوتے۔گرل اور بوائے فرینڈز ڈیٹنگ کے منصوبے بنارہے ہوتے (ٹھنڈی آہ بھر کر) افسوس کہ میں پاکستانیوں کو اپنے مذہب اور تہذیب اور نظریے کے شکنجے سے نہ نکال سکا۔ یہ دکھ مرتے دم تک میرے ساتھ رہیگا۔ آپکو یاد ہوگا 12 اکتوبر 1999ء کے انقلاب عظیم کے بعد میں نے کتوں کے دو پلے دو بازوؤں میں تھام کر ایک تصویر بنوائی تھی۔ یہ پاکستانیوں کیلئے ایک واضح پیغام تھا لیکن افسوس وہ جاہل کے جاہل ہی رہے۔
مائی ڈیئر فرینڈز! یونیورسٹی اتھارٹیز نے یقینا مجھے اس لئے دعوت دی ہے کہ میں اپنی زندگی کے تجربات اور اپنی دانش و حکمت آپ سے شیئر کروں۔ اس لئے میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ممکن ہے میری باتیں آپ کو کچھ اجنبی لگیں یا آپ انہیں کتابی علم کے خلاف سمجھیں لیکن کامیابی کی کلید یہی ہیں۔ مجھے امریکہ سے بس یہی گلہ ہے کہ اس نے اپنے نظام کو خواہ مخواہ کے فولادی شکنجوں میں جکڑرکھا ہے ورنہ اس کے اندر یہ پوٹینشل موجود ہے کہ وہ موجودہ سے کئی گنا بڑی سپر پاور بن جائے۔
میرے دوستو! میرا پہلا درس یہ ہے کہ بائبل یا قرآن یا کسی بھی الہامی کتاب پر لئے گئے حلف وغیرہ بالکل فضول اور بیکار ہوتے ہیں۔ (سرگوشیاں) میں جب کسی امریکی کے منہ سے سنتا ہوں کہ میں نے فلاں بات کا حلف اٹھارکھا ہے تو میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ یاد رکھو ! اپنے آپ کو کسی حلف کی ڈور سے باندھ لینے والا شخص کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر میں اپنے فوجی حلف کو اپنا روگ بنالیتا تو 1999ء میں ریٹائر ہو کر گوشہ گمنامی میں چلا جاتا اور آج آپ میرے اس بصیرت افروز خطبے سے محروم رہتے۔ آپ کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ آپ اپنے آئین کو دیوتا بنالیتے اور اس کی پوجا شروع کردیتے ہیں۔ آپ کو یہ روش بدلنا ہوگی۔ لیڈر کو آئینی جھمیلوں میں ڈال دیا جائے تو وہ کبھی اپنے جوہر نہیں دکھا سکتا۔ میں نے اپنے حلف کو پاؤں تلے روندنے کے بعد آئین کے بھی پرخچے اڑادیئے۔ آپ کی تیسری ویک نیس یہ ہے کہ آپ نے اپنی عدالتوں کو سرچڑھارکھا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کا جج مرتے دم تک جج رہتا ہے۔ میرے بچو ! یاد رکھو۔ عدلیہ کو نکیل ڈالے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ میں نے انقلاب کے بعد ایک پی۔ سی۔ او جاری کرکے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ آئین پر تین حرف بھیجتے ہوئے میری شخصی وفاداری کا حلف اٹھائیں۔ انکار کرنیوالوں کو میں نے گھر بھیج دیا۔ اپنی مرضی کی عدالت بنائی اور اپنی مرضی کے فیصلے لینے لگا۔
ایک مرحلہ ایسا آیا جب مجھے شک گزرا کہ کچھ گستاخ جج مجھے وردی سمیت صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ میں نے آئین دیکھا نہ قانون، فوراً 60 کے قریب گستاخ ججوں کو معزول کرکے بال بچوں سمیت قید میں ڈال دیا اور دھڑلے سے ایک بارپھر صد بن گیا (تالیاں) میرے ہونہار بچو ! یہ ہے وہ اسپرٹ جو آپ کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگی۔ اگر تم اپنے بزدل بڑوں کی طرح لکیر کے فقیر بنے رہے تو کبھی نام پیدا نہ کرسکو گے۔ میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ آپ کے جہاندیدہ اور محب وطن جرنیل وسیع تر امریکی مفاد میں خود ملک کی باگ ڈور کیوں نہیں سنبھال لیتے؟ یہی وجہ ہے کہ بیرونی ممالک میں آپ کے سامراجی عزائم کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ کو یہ فرسودہ چلن بدلنا ہوگا۔ اگر آپ میں سے کسی کو امریکی فوج میں شمولیت کا موقع ملے اور وہ ترقی کرتا ہوا اس کا چیف بن جائے تو اسے ضرور یہ روایت توڑدینی چاہئے۔ (مسکراتے ہوئے) اور مائی ڈئیر فرینڈز۔ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ میں کسی دوسرے لیکچر میں آپ کو تفصیلاً یہ تیکنیک بتاؤں گا۔ صرف ایک جیپ اور دو فوجی ٹرکوں کے ذریعے آپ وائٹ ہاؤس پر قبضہ جماسکتے اور پھر برسوں حکمرانی کرسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ”سب سے پہلے امریکہ“ کا نعرہ لگاتے رہیں۔ لیکن آئینی خرخشوں میں پڑیں نہ عدلیہ کو سر اٹھانے دیں۔
میرے بچو! میں آپ کے چہروں پر حیرت کے آثار دیکھ رہا ہوں لیکن میرا لیکچر ختم ہونے سے پہلے ہی آپ کی ساری الجھنیں دور ہوجائیں گی۔ پاکستان کے ایک بڑے شاعر نے کہا تھا (دونوں مکے فضا میں لہراتے ہوئے)
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
(تالیاں)
(کچھ کہنے سے پہلے گلاس اٹھاتے ہیں) (جاری ہے)