میرے تصور اور تخیل کی آنکھیں امریکی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم پر مرکوز تھیں جہاں اکیسویں صدی کا ایک نامور ڈکٹیٹر لیکچر دے رہا تھا۔ اس کے الفاظ میرے کانوں سے ٹکرا رہے تھے۔
مائی ڈیئر فرینڈز! (مسکراتے ہوئے) ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ تمہارے چہروں پر سخت حیرت کے آثار تھے اور تم ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ تمہیں شاید میری یہ بات عجیب لگی کہ محب وطن جرنیلوں کو آگے بڑھ کر سول حکومت پر قبضہ کرنے کی سنہری روایت ڈالنی چاہئے لیکن یقین جانو! امریکہ کو صحیح معنوں میں عالمی چوہدری بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ آپ لوگ پاکستان کی طرف دیکھو! ترقی و خوشحالی کس درجے کو پہنچ چکی ہے؟ سیاسی استحکام کن مثالی بلندیوں کو چھو رہا ہے؟ عوام کس قدر آسودہ حال ہیں؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی باسٹھ سالہ عمر میں جرنیلوں نے 33سال براہ راست اور باقی عرصہ بالواسطہ حکومت کی۔ اگر ہم معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیتے تو کیا ممکن تھا کہ آج اس طرح پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں؟ سو میرے ہونہار بچو! آئین قانون، ضابطوں اور قاعدوں کے چکر سے نکلنا ہوگا۔ مجھے اس دن بڑی خوشی ہوگئی تھی جس دن تمہارے صدر جارج بش نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے انکار کے باوجود عراق پر حملہ کر دیا تھا۔ کیا کر لیا دنیا نے؟ یہ عزم ہر طرح کے داخلی معاملات میں بھی دکھانا ہوگا۔
امریکی نوجوانو! اب میں آپ کی توجہ اس اہم نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سیاسی مخالفین کا ناطقہ کس طرح بند کرنا چاہئے۔ میں نے اس مقصد کے لئے ایک خاص ادارہ بنایا تھا جس کا نام تھا ”نیب“۔ بظاہر اس ادارے کا مقصد یہ تھا کہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کی بدعنوانیوں کا احتساب کیا جائے۔ فوج کو میں نے اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔ نیب کا اصل فریضہ یہ تھا کہ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے سیاستدانوں پر جھوٹے سچے مقدمے بنا کر انہیں ڈرایا جائے اور دوسرا یہ کہ اس ادارے کو ایک سرکاری سیاسی گروہ بنانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ آپ کی طرح ہمارے ہاں بھی کچھ سرکاری خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ میں نے ان ایجنسیوں کو بھی اسی کام پر لگا دیا۔ دیکھتے دیکھتے نیب اور ایجنسیوں نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں نقب لگائی اور اچھا خاصا سیاسی مال جمع کر لیا۔ جس طرح آپ کے ہاں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دو بڑی پارٹیاں ہیں اسی طرح ہمارے ہاں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو بڑی جماعتیں ہیں۔ 1988ء کے بعد سے دونوں باری باری حکومت کر رہی ہیں لیکن میرے عزیزو (مکّا لہراتے ہوئے) میں نے دونوں کو توڑ پھوڑ ڈالا (تالیاں) بے نظیر پہلے ہی باہر تھی۔ نواز شریف کو میں نے وزیراعظم ہاؤس سے نکال کر ایک پرانے قلعے کے تہہ خانے میں ڈال دیا۔ جب کبھی اسے پیشی کے لئے میری ہی بنائی ہوئی عدالت کے سامنے لایا جاتا تو میرا حکم تھا کہ اسے ہتھکڑی ڈال کر جہاز کی سیٹوں سے باندھ دیا جائے۔ آخر کار میں نے اپنی عدالت سے اسے ہائی جیکر قرار دلوا کر عمر قید میں ڈال دیا۔ میرا ارادہ تو اسے بھٹو کی طرح پھانسی چڑھانے کا تھا لیکن آپ کا ایک سابق صدر، کلنٹن بیچ میں آ گیا اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں کسی امریکی کی بات رد نہیں کرتا۔ (زوردار تالیاں)
آپ میرا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے کہ اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد پہلے اپنی عدالت اور پھر اپنی سیاسی جماعت بنا لینی چاہئے۔ پھر اپنا آئین اور اپنا قانون وضع کر لینا چاہئے۔ مخالفوں کو جیلوں میں ڈال دینا چاہئے یا ملک بدر کر دینا چاہئے جو باز نہ آئے اسے قتل کر دینا چاہئے ادھر پاکستان میں اکبر بگٹی نامی ایک شخص تھا۔ میں نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا۔ آخر میں نے فوج کے ذریعے اسے قتل کرا دیا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک مسجد تھی، لال مسجد۔ اس کے ساتھ لڑکیوں کا ایک مدرسہ تھا مجھے ٹھیک طرح سے اس کا نام یاد نہیں۔ یہ لوگ مجھے تنگ کر رہے تھے۔ ایک رات میں نے اپنے کمانڈوز کو حکم دیا۔ انہوں نے مدرسے میں گھس کر انہیں بھون ڈالا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ سیکڑوں یا ہزاروں تھے لیکن میری تحقیق کے مطابق ان کی تعداد صرف 95 تھی۔ سترہ کروڑ میں سے 95 قتل بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ (کچھ لڑکے اور لڑکیاں اکا دکا ہال سے باہر جانے لگے)۔
مائی ینگ فرینڈز! ابھی مجھے ایک چٹ ملی ہے کہ میں اپنا لیکچر سمیٹوں تاکہ سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو سکے۔ میں کوشش کروں گا لیکن چند اہم باتوں کی طرف مختصراً اشارے بے حد ضروری ہیں۔ مثلاً یہ کہ سیاست اور اخلاقیات ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ میری کامیاب حکمرانی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں نے نہ صرف آئین اور قانون کو اپنے سے دور رکھا بلکہ اخلاقیات کے اصولوں کو بھی کبھی قریب نہ پھٹکنے دیا۔ کئی بار میں نے ٹیلی ویژن پر آ کر قوم سے وعدے کئے اور پھر صاف مکر گیا۔ وردی اتارنے کا جھانسہ دیا اور نہ اتاری۔ اپنی مرضی سے آئین میں بے شمار ترامیم کر لیں اور اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ میں نے یہ سارے کام فوج کی طاقت کے زور پر کئے۔ اس سے فوج کی بدنامی تو ضرور ہوئی لیکن میرے اقتدار کا قلعہ مضبوط رہا۔ یاد رکھو! اصل شے اپنی ذات ہوتی ہے۔ نہ قوم، نہ ملک، نہ مذہب، نہ نظریہ، نہ اصول نہ کچھ اور۔ (کمزور سی تالیاں، کچھ اور طلبہ باہر کھسک جاتے ہیں)۔
مائی فرینڈز! میں نے لیکچر کے شروع میں بتایا تھا کہ میرے دل میں امریکہ کی کتنی محبت و عقیدت ہے۔ میں نے کسی سے پوچھے بغیر امریکہ کو پاکستان کی بندرگاہیں دیں، ہوائی اڈے دیئے، اپنی تنصیبات اس کے حوالے کر دیں۔ اپنی انٹیلی جنس دی۔ سیکڑوں افراد بغیر کسی قانونی کارروائی کے اس کے حوالے کر دیئے۔ یہاں عافیہ صدیقی نام کی ایک لڑکی کسی جیل میں گل سڑ رہی ہے (مکّا لہراتے ہوئے) وہ بھی میں نے ہی پکڑوا کر امریکیوں کے حوالے کی تھی۔ پاکستان میں جو لوگ اب تک لاپتہ ہیں وہ بھی میں نے ہی غائب کرا رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں جب تک پاکستان کا حاکم رہا میری ایک ایک سانس کی ڈوری امریکہ کے مفادات سے بندھی رہی۔ مجھے افسوس ہے کہ 2008ء کے پاکستانی انتخابات کے بعد امریکہ نے پوری طرح میرا ساتھ نہ دیا اور مجھے استعفیٰ دینا پڑا لیکن یہ پہلو قابل اطمینان ہے کہ وہ اب بھی میرے ساتھ ہے اور میرے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
قانونی کارروائی سے مجھے یاد آیا سنا ہے پاکستان میں کچھ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ میرے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ (قہقہہ) غداری… ہاہاہا۔ مقدمہ تو جب چلتا کہ میں نے امریکہ سے غداری یا بے وفائی کی ہوتی۔ پاکستان سے غداری کرنے والے کس ڈکٹیٹر کو سزا ملی جو مجھے ملے گی؟ کوئی مائی کا لال میرا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سنا ہے وہاں کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مجھے سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ناقابل معافی کہا ہے۔ (قہقہہ) ناقابل معافی؟ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پاکستان کے حاکموں نے ضمانت دے رکھی ہے اور مجھے کیا ضرورت پڑی ہے پاکستان جیسے بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ملک جانے کی۔ میں لندن میں رہوں گا۔ یورپ اور امریکہ کی نسل نو کو سیاست کے اسرار و رموز سکھاؤں گا۔ لاکھوں میں کھیلوں گا، کروڑوں میں نہاؤں گا… ہاہاہا۔ (آنکھیں بند کر کے خاصی دیر قہقہے لگاتے اور مکّے لہراتے رہتے ہیں۔ ذرا دیر بعد آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں کہ ہال خالی ہو چکا ہے۔ اسٹیج پر بیٹھا بوڑھا پروفیسر لاٹھی کے سہارے اٹھتا اور کہتا ہے ”سر پلیز! چائے تیار ہے“)۔