• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح اقتدار کے کھیل میں ہیٹرک کرنے والے سیاستدان اِکا دُکا ہیں اسی طرح شوبزمیں بابرہ شریف کا کوئی ثانی نہیں ۔پاکستانی مارکیٹ میں جہاں ہمار ےBUDDY(جگری دوست) چین نے ہر بڑے برانڈکی نقل مہیاکررکھی ہے بابرہ شریف کی خوبی یہ ہے کہ اسکی دونمبر پروڈکٹ تیار نہیں کی جاسکی۔ جونیئر اداکارائیں فیشن،میک اپ ،اسٹائل اور اداکاری میں اس کی نقالی تو کرتی رہیں لیکن ان میں اتنا ہی فرق نمایاں رہا جتنا شیخوپورہ اورلند ن میں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو شانزے لیزے اور انارکلی سے ملحقہ بانوبازار کے ڈیزائن اوراسٹائل سے موسوم بھی کیاجاسکتاہے۔ بابرہ کاNickname(عرفیت) بابو ہے گھر والے اور قریبی دوست اسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔ بابرہ شریف میڈیا فرینڈلی ہرگز نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ’’خبرناک ‘‘ میں مہمان بنیں۔ مذکورہ پروگرام اوراس کے فری اسٹائل کامیڈی فارمیٹ سے گھبراتے ہوئے بڑے بڑے لوگ اس میں شرکت کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس فارمیٹ اور جگتوں کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ سیاسی مزاح کے رابن ہڈ انور مقصود اور جملہ بازی کے ہرکولیس سمجھے جانے والے شیخ رشید بھی اس پروگرام میں شرکت سے انکاری ہیں۔’’خبرناک ‘‘ کو جگتوں ،لطائف اور جملہ بازی کا تورا بوراکہاجائے تو یہ مقام اسم بامسمیٰ ہے ۔ بابرہ شریف اس مقام ِخاص پرتشریف لائیںجسے ہنسی ،ٹھٹھے اور قہقہوںکا Linengrad کہاجائے تو غلط نہ ہوگا ۔لینن گرایڈ سوویت یونین میں وہ مقام ہے جہاں اتحادی فوجوں نے ہٹلر کا محاصرہ کرکے جرمنی کو شکست فاش دی تھی۔بابرہ کا اعزاز ہے کہ اس نے جگتوں اور قہقہوں کے نازیوں کے ساتھ تن تنہا مقابلہ کیااور مزاح کی یہ’’ جنگ عظیم ‘‘ لڑتے ہوئے امریکہ کی طرح کوئی نیٹو فورس بھی نہ بنائی ۔
بابرہ شریف اسپیشل ’’خبرناک ‘‘ عید کے لئے خصوصی طورپرتیارکیاگیاتھاجس میں معروف سیاستدان شیخ رشید کی ڈمی کے ساتھ ان کی لفظی جگل بندی اسی طرح جاری رہی جیسے جی آئی ٹی میں پیشی کے بعد فواد چوہدری اور طلال چوہدری میںجاری رہتی ہے ۔بابرہ نے اداکار میر محمد علی ،سلیم البیلا،حسن مراد، شیری، واجد خان اور خصوصاََ آغا ماجد کی بہت تعریف کی ۔آغا ماجد کی ٹائمنگ کو اعلیٰ قرار دیتے ہوئے بابو نے کہاکہ میں اس آرٹسٹ کی ڈائی ہارٹ فین ہوں۔آغا ماجد نے سوال کیاکہ آپ تو میڈیا بیزار ہیں ہم نے تو آپ کو کبھی ایوارڈ وصول کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ، آپ کا خبرناک میں تشریف لانے کا شکریہ ۔اس پر بابرہ نے بھی ویسا ہی جواب دیا جیسا جاوید ہاشمی عین موقع پر میاں نوازشریف کے حق میں دیا کرتے ہیں ۔بابرہ نے راقم الحروف کو عزت دیتے ہوئے کہاکہ طاہرسرورمیر کو انکار نہیں کیاجاسکتا۔بابرہ سے میرے تعلقات سمندروں سے گہرے ہیں اورنہ ہمالیہ سے بلند ۔اس رشتے میں نہ تو Strategic depthحائل ہے اور نہ ہی کبھی سی پیک بچھائی گئی ۔بابرہ سے میرے تعلقات کی نوعیت ویسی بھی نہیں جیسی نون لیگ کی نہال ہاشمی اور پرویز رشید کیساتھ رہی ہے۔مراد یہ ہے کہ بابرہ نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیااورمیں نے بھی یہ کوشش کبھی نہیں کی کہ اس کے گلیمراوراسٹارڈم سے اپنی صحافت چمکاتارہوں۔ گلوکار تنویر آفریدی نے میری وساطت سے بابرہ کو نیویارک میں ہونے والی ایک تقریب میں لائف ٹائم اچیف منٹ ایوارڈ وصول کرنے کی دعوت دی۔ صرف ایک روزہ دورے کے لئے 20لاکھ روپے ،جہاز کا بزنس کلاس ٹکٹ اور فائیواسٹار ہوٹل کی پیشکش پر بابرہ نے جواب دیا تھاکہ ’’میں اپنے آپ کو اس ایوارڈ کی اہل نہیں سمجھتی ‘‘۔ ممکن ہے کوئی اسے فلمی ڈائیلاگ سمجھے لیکن میں اس واقعہ کا اسی طرح گواہ ہوں جیسے اسحاق ڈار مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کیس میں سلطانی گواہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں کہوں گاکہ ’’سب ایجنسیوں کا کیادھراہے ‘‘۔اسحاق ڈار صاحب نے تو قرضوں کے حجم کی بلند ترین سطح اور مہنگائی کے سونامی کے باوجود ایکسی لینس نامی ایوارڈ وصول کیاتھا۔ اسی طرح میاں محمد نوازشریف کو دی گئی ڈاکٹریٹ کی وہ ڈگری جو انہیں اعزازی طور پر دی گئی تھی۔ یہ بابرہ شریف کا ذاتی کریکٹر ہے کہ اس نے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ 20لاکھ روپے کی رقم وصول کرنے سے بھی انکار کیاوگرنہ ہمارے ہا ں تو بڑے بڑے’’ جمہوری چیمپئنز‘‘محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت ختم کرنے کے لئے مبلغ 20لاکھ روپے بطور بیعانہ وصول کرچکے ہیں۔اصغر خان کیس اسی داستان سے متعلق ہے ۔کہاجارہاہے کہ جے آئی ٹی کے بعد اصغر خان کیس کو بھی اوپن کرنے کی باری آئے گی۔ دیکھا جائے تو بابرہ کے کیرئیر اور ذاتی زندگی میں میرا کردار قطری شہزادے والانہیں ہے ۔ایسا نہیں ہوا کہ زندگی کے کسی مشکل موڑمیں ،میں نے بابرہ شریف کو کوئی خط مہیاکیاہولیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف میری عزت کرتی ہیں بلکہ میری صحت کے حوالے سے بھی فکرمند رہتی ہیں۔بابرہ شریف کے ٹوٹکے ،زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں سے بھی زیادہ اکسیری ثابت ہوئے ہیں۔بابرہ نے اپنے ہاتھوں سے ایک پھانکی بنا کر مجھے بھیجی ہے ۔ہم پنجابی پھانکی کو پھکی کہتے ہیں یہ وہ سفوف ہوتاہے جو دیسی جڑی بوٹیوں کو پیس کر بنائی جاتی ہے۔بقول بابرہ یہ پھانکی جس میں بادام ،کالی مرچ ،چھوٹی الائچی اور نیم کے 100عدد پتے یکساں تعداد میں جبکہ ڈھائی سو گرام چنے پیس کر جو پھانکی تیار ہوگی وہ شوگر ،بلڈ پریشر اوردل کے امراض کے لئے اکسیرہوتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ پھانکی کا اثر اکسیری ہے کیونکہ ہم فنکار نوازوں کے ظاہری اور بہت سے پوشیدہ امراض تو بابرہ کا چہرہ دیکھ کر بھی دور ہوجاتے ہیں
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
صحافت اور صحافیوں کی پیشہ ور دیانتداری سے متعلق بابرہ کا ذاتی تجربہ ایسا ہی ہے جیسے وزیر اعظم نوازشریف اور اہل ِخانہ کا جے آئی ٹی سے متعلق ہے۔بابرہ ایک دلچسپ قصہ سناتی ہیں کہ بہت سال پہلے ایک انگریزی جریدے کی خاتون ایڈیٹر نے اِدھر اُدھر کی سفارشوں کے بعد انٹرویو کے لئے ان سے وقت حاصل کیا۔ایک طویل نشست کے بعد انہوں نے انٹرویو شائع کرنے کی بجائے یہ لکھا کہ بابرہ کی امارت میں انہیں متحدہ عرب امارات دکھائی دیا۔بابرہ کہتی ہیںکہ انٹرویو میں صحافی تبصرہ یا تجزیہ نہیں کرتا ہاں مضمون یا آرٹیکل میںاسے یہ آزادی میسر رہتی ہے۔بابرہ شریف کو سیاست سے دلچسپی نہیں لیکن اسکا کہنا ہے کہ میاں برادران نے چونکہ لاہور کو ایک میٹروپولیٹن شہر بنادیا ہے اسلئے وہ اپناووٹ نوازشریف اور شہباز شریف کو دیں گی ۔اُدھر جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے ساتھ حسن اور حسین کے بعد مریم نواز کو بھی بلایاہے۔مریم نواز کی باری 5جولائی ہے ۔یہ وہی دن ہے جب ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے منتخب وزیر اعظم بھٹو کا تختہ الٹا تھا۔یہ سچائی ریکارڈ پر موجود ہے بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد جس ریڈی میڈ سیاسی کھیپ نے آمر یت کو ’’سیاسی مردانہ قوت ‘‘مہیاکی تھی آج کے یہ جمہوری چیمپئنزاسی آمری شب خون کی اسٹیٹ آف دی آرٹ پروڈکشن ہیں۔ہم غریبوں کو تو طبعی امراض کے لئے بابرہ نے پھکی فراہم کردی ہے دیکھیں حکمرانوں کو جے آئی ٹی اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہضم کرنے کی قانونی ،آئینی اور سیاسی پھکی دستیاب ہوتی ہے یانہیں ؟

تازہ ترین