گردش ِرنگ ِچمن میں اودھ کی سلطنت اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کے حوالے سے قر ۃ العین حیدر لکھتی ہیں اور گفتگو ڈاکٹر منصور، نواب صاحب اور عنبرین بیگ کے درمیان ہے۔ ناول کا مزہ لینے کےلئے ضروری تو ہےکہ اسے خود پڑھا جائے لیکن میں کسی وجہ سے اس کے کچھ پیراگراف درج ذیل کرکے لکھنو کی یاد دلا رہا ہوں۔
’’ہمارے بانکے دنیاکے اولین ہپی تھے، چرسئے، مدکئے ہمارے بادشاہ اور شہزادے‘‘
آپ بھی آخری شاہان مغلیہ اور تاجداران اودھ کے متعلق وہی رویہ رکھتی ہیں۔ عیاش، نکمے، واہیات، زحمت نہ ہو تو ذری ان کی مجبوریوں پر غور کیجئے نواب صاحب نےفرمایا۔ غلام قادر ر وہیلہ.....
’’مسلمانوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔ مسز بیگ بخشنے والی نہیں۔ روہیلوں سے جان بچا کر شہزادہ سلیمان شکوہ مملکت اودھ میں پناہ لیتے ہیں۔ شاہ عالم کے فرزند، اکبر شاہ ثانی کے برادر خورد نواب آصف الدولہ چھ ہزار ان کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔ لکھنو میں وہ اپنا دربار آراستہ..... مچا رکھی ہے، سلاطینوں نےوہ توبہ دھاڑ کوئی تو گھر سے نکل آئے گریبان پھاڑ..... عندلیب بیگ نے سودا کی گواہی دی اور سلیمان شکوہ کے متعلق نواب صاحب کو یاد دلایا ’’لکھنو میں اپنی عیاشیوں کی بدولت رستوگیوں کے مقروض۔ بیگم صاحبہ ایک دیمک لگے شاہ بلوط کو ٹھونگیں مارتی کھٹ کھٹ بڑھیا لگیں۔ منصور نے گمنام بزرگ کو معذرت طلب نگاہوں سے دیکھا۔
سلیمان شکوہ سے پہلے ان کے بڑےبھائی تشریف لائے تھے دلی سے۔ مرزا جہاندار۔ نواب وزیر نے ان کو بڑی تکریم سے مارٹن کوٹھی میں ٹھہرایا۔ انہوں نے لہو و لعب، فسق و فجور، چھوٹتے ہی وزیر ہند میزبان کی منظور نظر رقاصہ بھگیہ پر عاشق، گورنر جنرل وارن ہسٹینگز سے درخواست کی ہمیں بھگیہ دلوا دیجئے۔ اس فرمائش پر ہسٹینگز بھی جھینپ گیا۔ پھر سلیمان شکوہ کے بھتیجے دلّی سے وارد ہوئے۔ مرزا جہانگیر وہ شراب میں دھت لکھنو کی گلیوںمیں گھوڑ دوڑاتے ہلڑ مچاتے چوک کے کوٹھے سے دمڑی بھگا کر لے گئے۔ یہ تو آپ کی حالت تھی انگریز آپ سے آپ کا ملک کیوں نہ چھینتا‘‘
’’جن دنوں طوائف الملوکی چالو تھی طوائفوں سے ملوک کا بہت رابطہ رہا‘‘
اسی لکھنو میں جہاں نوابین کی یہ صورتحال تھی کہ زوال زدہ معاشر ےکے کردار اور پھر اپنی سابقہ عظمت کے گن گاتے نوابین وہاں انگریز ہندوستان میں ایسے گروہ باز مسلمان طبقوں میں گرہ ڈالتا اور ان کی آپس کی گروہ بندی کو اور بھڑکاتا۔
’’ایسا ہی رہا ہوگا بھیا، ہمارے ابا بتلاتے تھے کہ حضور پہلے شیعہ اورسنی جماعت دونوں کے تعزیے ایک ساتھ ٹال کٹورہ پھول کٹورہ کی کربلائو ںمیںجاتے تھے۔ بڑی بہیا سے دس بارہ سال پہلے کی بات ہےکہ یہ الگ ہوگئے۔
’’سراینئنی مکڈونل کی دو کرامات، پہلی اردو ہندی دوسری شیعہ سنی لیکن کیا اس سے پہلے خواہ اس تفرقہ بازی کو انگریزوں نےاپنی حرکتوں سے نہیں بڑھایا تھا۔ اودھ میں ڈیڑھ سوسال سے ان کی حرکتیں ایسی ہی تھیں۔ یہ سلطنت ہی انہوںنےکھڑی کی تھی۔ مغل دہلی کے مقابلے پر اودھ پر دراصل حکومت ریذیڈنسٹی سے کی جارہی تھی۔‘‘
یہ معاملہ تو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ایرانی پارٹی، تو رانی پارٹی، ہم سب ایسے ہی تاراج ہوئے۔
اب بھی ہماری بربادی کے سامان ایسے ہی ہیں۔ ن لیگ، ق لیگ، عمران خان، انقلاب، امریکہ وغیرہ۔ اسکرپٹ لیکن اب انگریز کے ہاتھ میں نہیں نادیدہ قوتوں نے اپنے سرلے لیا ہے۔ سیاستدان وہی اودھ کے نوابین ایسے ہیں روپیہ پیسہ نوابوں کی طرح میٹرو بس وغیرہ پروجیکٹ پرلگ رہا ہے۔ انداز شاہی ہیں جاگیریں وسیع، محلات اور وسیع اور انقلاب کے داعی باہر سےآئے شہزادے یا بیرونی قوتوں کےاشارے پرناچتے لیڈران۔ ایسے میں انسان کس کو زوال کی اور نشانیاں بتائے۔ وہ جو غیرمرئی قوتیں ہیں انہیں شایدزیادہ قوت گروہ بازی میں ہی نظر آتی ہے۔وہ بھی ملک کا نہیں سوچتے، صرف مقصد قوت کا حصول ہے۔ حکومت اسلام آباد میںمگر طاقت کے مرکز کہیں دور، یہ کشمکش جاری ہے۔
ہم ایسے میں جو بھی پڑھیں عبرت کےنشان ہر صورت نظر آتے ہیں۔ اگرگردش رنگ چمن کچھ سبق سکھا سکے تو اسے پڑھ کر آج کی نادیدہ قوتوں کے بارے میں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کےبار ےمیں بھی سوچنا چاہئے اور انہیں بھی جو نادیدہ ہیں کہ تاریخ جہاں نوابین کا رونا روتی ہے وہاں نادیدہ قوتیں بھی باطل ہی ثابت ہوتی ہیں۔
ایسے میں کچھ ذکر شاہد نقوی کا بھی کرلیں۔ لکھتے ہیں۔
میرا خیال ہے احمد پور شرقیہ کے واقعہ میں لالچ سے پہلے وہ بین الاقوامی سچائی کارفرما نظر آتی ہے جو دنیا کی 60اور 70فیصد آبادی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ یعنی مفلسی، مفلسی لالچ کو ہوا دیتی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ اور عید قریب میں پٹرول کا بہتا ہوا دریا۔ ایسے میں اخلاق، کردار، مذہب، قومیت سب اسی دریا میں تنکوں کی طرح بہہ جاتا ہے۔ دوسرا عنصر تعلیم کی کمی جو اس راہ سے گزرتی چمچماتی گاڑی والوں میں بھی نظر آئی جب انہوں نے تیل کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوئے بلکہ لتھیڑ لئےاور اس عاقبت نااندیش میں بھی نظر آئی جس نے سلگتی سگریٹ اچھال کر اس سب کو قہر میں بدل دیا اور یہ قہر چشم زدن میں قہر الٰہی میں تبدیل ہو گیا۔ دنیا میں جہاں جہاں ایسا ہورہا ہےوہ عام انسان کے لالچ کے ساتھ ساتھ اس سسٹم اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کے لالچ اور طمع کو بھی کوسنا چاہئے جن کی خودغرضی اور بے حسی نے جہالت اور مفلسی کو جنم دیا اور جس کے بطن سے بالآخر چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کو پیدا ہونا ہی تھا۔