اسلام آباد (حنیف خالد) وفاقی وزیر خزانہ ‘ ریونیو‘ اقتصادی امور‘ شماریات‘ نجکاری سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ایف بی آر کو حکم دیا ہے کہ وہ مالی سال 2016-17ء میں وصول کئے جانے والے ٹیکسوں کی رقوم کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیسیلی ٹیشن ٹیکنالوجی اور مجاز برانچوں کی وساطت سے موازنہ (Ledger Reconcilement) کر کے چوبیس گھنٹوں کے اندر رپورٹ پیش کریں۔ یہ ہدایات انہوں نے ایف بی آر کی اعلیٰ قیادت کو دی ہیں۔ اعلیٰ قیادت نے 30جون 2017ء تک 3400ارب سے زیادہ ریونیو جمع کرنے کے متعلق وفاقی وزیر خزانہ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا تھا۔ یہ بریفنگ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو ہارون اختر خان نے دی۔ اس موقع پر سبکدوش ہونے والے چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشاد کے علاوہ ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز رحمت اللہ خان وزیر‘ چیف یوسف حیدر‘ چوہدری ذوالفقار اور دوسرے سینئر حکام موجود تھے۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو ہارون اختر خان نے ایف بی آر کے سینئر ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز رحمت اللہ خان وزیر کو یہ ٹاسک سونپ دیا ہے۔ بریفنگ کے دوران ہارون اختر خان نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وفاقی سیکرٹری خزانہ شاہد محمود‘ وفاقی سیکرٹری اقتصادی امور طارق محمود پاشا اور دوسرے عہدیداروں کی موجودگی میں یہ باور کرایا کہ اگرچہ 2016-17ء کے وفاقی بجٹ میں حکومت نے ایف بی آر کا سالانہ ریونیو ٹارگٹ 3621ارب روپے مقرر کیا‘ مگر اسکے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پٹرولیم کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ ملک بھر کے صارفین پر منتقل نہیں ہونے دیا۔ دوسری طرف ٹیکسٹائل‘ کارپٹ‘ لیدر‘ سرجیکل گڈز‘ سپورٹس گڈز کے پانچوں برآمدی سیکٹروں کو زیرو ریٹڈ قرار دیدیا۔ کھاد اور کیڑے مار ادویات‘ ٹیکسٹائل مشینری کی درآمد‘ کاٹن‘ پولیسٹر فائبر اور کاٹن فائبر پر بھی سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی یا تو زیرو کر دی یا اُن پر نمایاں چھوٹ دیدی جس کا ایف بی آر کے سالانہ ریونیو پر Impectدو سے سوا دو سو ارب روپے کا ہوا۔ اگر وزیراعظم کسان پیکیج‘ زیرو ریٹڈ برآمدی سیکٹر نہ قرار دیتے‘ کھاد کی قیمتوں میں چار پانچ سو روپے فی بوری کمی نہ کراتے‘ زرعی ادویات کی قیمتوں میں وزیراعظم کے پیکیج کی وجہ سے ٹیکسوں میں استثنیٰ نہ دیا جاتا تو ایف بی آر بلاشبہ 3621ارب روپے کا سالانہ میزانیاتی ریونیو ٹارگٹ اللہ کے فضل و کرم سے پورا کر دکھاتا۔ اس ریونیو کے Impectکی وجہ سے ایف بی آر نے سخت محنت کر کے 3400ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس جمع کئے ہیں اور پیر کی شام تک 3400کی بجائے چونتیس سو اور سوا چونتیس سو کے درمیان مجموعی ریونیو آنے کا امکان ہے۔ اسکے علاوہ چاروں صوبوں کے اے جی صاحبان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح امسال بھی 7جولائی کو کنٹریکٹروں کو ہونے والی ایک سو سے ڈیڑھ سو ارب روپے کی ادائیگیوں پر کم و بیش 6فیصد کے ریٹ سے جو ٹیکس منہا 30جون 2017ء تک کر لیا گیا ہے‘ اس رقم کو جوکہ دس سے بیس ارب کے لگ بھگ ہو گی 30جون 2017ء کی تاریخ میں ایف بی آر کو ٹرانسفر ہو جائیگی۔