• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے,,,, سعید بدر

گزشتہ دنوں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے آپ کے موٴقر اخبار روزنامہ جنگ میں ”غیرت کہاں ہے تو؟“ کے عنوان کے تحت نہایت عمدہ اور درد و سوز سے معمور کالم لکھا ہے جو درد مند دل رکھنے والے ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے بروقت خواب غفلت میں گرفتار قوم کو وارننگ دے کر خبردار اور بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کالم پڑھ کر مجھے ہمارے معلم اخلاق‘ ترجمان حقیقت ‘ مفکر اسلام اور تخلیق پاکستان کا سچا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال  یاد آئے جنہوں نے ملت اسلامیہ ‘ بالخصوص‘اسلامیان ہند و پاکستان کو بیداری اور خودی و خودداری کا سنہری سبق دیا تھا اور یہ انہی کے درد و سوز پر مشتمل کلام کا نتیجہ تھا کہ سوئی ہوئی قوم یک بیک بیدار ہوکر قائد اعظم کے پرچم تلے جمع ہوگئی ورنہ اس سے قبل قائد اعظم مایوس ہوکر انگلستان جا کر وہاں مقیم ہوگئے تھے اور پھر یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے موقع پر قائد اعظم کو اپنی حمایت کا یقین دلا کر واپس آنے پر قائل و رضامند کیا تھا۔
علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں غیرت اور حمیت پر بہت زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ فرد ہو یا ملت‘ صرف غیرت اور حمیت کو اپنا کر ہی دنیا میں اپنا وجود اور تشخص قائم رکھ سکتی ہے ورنہ بے غیرت قومیں اور افراد صفحہٴ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
اسپین میں طارق بن زیادہ کی فتح کے بعد مسلمانوں نے 700 سال حکومت کی‘ اس کے بعد زوال آیا اور عیسائی غالب آگئے لیکن غرناطہ میں ایک سو سال بعد تک بھی مسلمانوں کی حکومت رہی۔ آخری حکمران شاہ عبدالله تھا۔ اس نے جنرل نیازی کی طرح عیسائی حکمران فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا سے بظاہر ”باوقار“ معاہدہ کیاتھا کہ اگر شاہ عبدالله ہتھیار ڈال دے تو عام مسلمانوں کو کچھ نہیں کہا جائے‘ان کے مال وجان اور یقین وایمان کی حفاظت کی جائے گی لیکن شاہ عبدالله کے ہتھیار ڈالتے ہی غرناطہ میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا اور غرناطہ میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ شہر خالی کرتے ہوئے وہ بچوں کی طرح رونے لگا تو اس کی بہادر ماں نے تاریخی جملہ کہا۔
”عبدالله ! جس شہر اور ملک کا تم بہادروں اور غیرت مندوں کی طرح دفاع نہیں کرسکے‘ اس کو چھوڑتے ہوئے بزدلوں کی طرح روتے کیوں ہو“۔
حکیم الامت علامہ اقبال  ”بیٹے کو بڈھے بلوچ کی نصیحت“ میں کیا خوب فرمایا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیزجہان تگ و دومیں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
تاریخ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ غیرت مند مسلمانوں نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ اس پر تاریخ عالم حیراں و ششدر ہے۔ محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف گورنر بغداد کے حکم پر سندھ کے حکمراں راجہ داہر پر حملہ کرکے اُسے شکست فاش دی اور پھر سندھ اور ملتان میں مسلمان سلطنت کی بنیاد رکھی،کیوں؟ سراندیب سے واپس جانے والے مسلمانوں کے بحری قافلے کو راجہ داہر کے ڈاکوؤں نے لوٹ کرمرد و خواتین کو قیدی بنالیا۔ ان قیدی خواتین میں ایک مسلمان قیدی خاتون نے حجاج بن یوسف سے فریاد کی کہ وہ ان کی مدد کرے ‘ حجاج بڑا ظالم اور سفاک تھا لیکن غیرت مند ضرور تھا‘ اس نے فریاد سنتے ہی لشکر تیار کیا اور 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسم کی قیادت میں اُسے سندھ روانہ کیا۔ اس لشکر میں بغداد کے نواح میں آباد الراعی قبائل ‘ الزبیر الراعی اور سلیم الراعی کے ہزاروں نوجوان بھی شامل تھے۔
علامہ اقبال نے بانگ درا میں ” غلام قادر روہیلہ “ کے نام سے عمدہ نظم لکھی ہے جس میں آل تیمور کے بے غیرتی اور بے حمیتی کو بیان کیا ہی غلام قادر خاں روہیلہ روہیل کھنڈ کا نواب تھا جو مغلوں کے ماتحت تھا لیکن اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل حکمرانوں میں عیش و ہوس درآئی‘ وہ مرد میدان بننے کی بجائے ”ناؤ نوش“ میں غرق رہنے لگے اور ملک میں طوائف الملوکی پھیل گئی۔ ہر علاقے کا گورنر ‘ حکمران بن بیٹھا۔ حکمران شہزادے کبھی ایک کی سر پرستی کرتے ‘ کبھی دوسرے کی‘ حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ایک مغل حکمران نے ‘ مرہٹوں کو دربار میں رسائی دے دی اس سے روہیلے پٹھانوں کی غیرت جوش میں آئی اور انہوں نے دہلی پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں #
روہیلہ کس قدر ظالم ‘ جفا جو کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے
دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھے آثار محشر سے
بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کُش کی ممکن تھی
شہنشائی حرم کی ناز نینان سمن بر سے
نہایا آہ ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر وماہ و اختر سے
لرزتے تھے دل نازک قدم مجبور جنبش تھے
رواں دریائے خوں شہزادیوں کے دیدہ تر سے
ناز نیناں تیموری کے رقص کا ساماں‘ دیکھ کر اور اس سے محظوظ ہونے کے کچھ دیر بعد ‘ غلام قادر کو جانے کیا خیال آیا‘ اس نے اپنے سر کو بار مغفر سے آزاد کیا اور کمر سے تیغ جاں ستان کھولی اُس نے خنجر کو اپنے سامنے رکھا اور لیٹ گیا‘ نیند غالب تھی اور وہ کچھ دیر کے لئے محو خواب ہوگیا لیکن بے بس و مجبور شاہی حرم کی لڑکیاں بدستور ناچتی رہیں۔ کچھ دیر بعد غلام قادر بیدار ہوا تو وہ لڑکیاں مسلسل رقص میں مصروف تھیں۔
علامہ فرماتے ہیں
بجھائے خواب کے پانی نے افگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرماگئی ظالم کی درد انگیز منظر سے
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہئے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرامسند پر سو جانا‘ بناوٹ تھی ‘ تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شان صف آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے نوک خنجر سے
یعنی جب غلام قادر روہیلہ بیدار ہوا تو اس نے کہا کہ اے شہزادیوں ! تمہیں اب اپنے مقدر یا قسمت سے گلہ نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ تم سے میں غیرت اور حمیت کا جذبہ ہی مفقود ہوگیا۔ میرا سونا بناوٹ تھا میرا خیال تھا کہ تم میں کوئی باغیرت میرا ہی خنجر اٹھا کر مجھ پر حملہ کردے گی اور مجھے مار ڈالنے کی کوشش کرے گی ورنہ جنگجو اور بہادر فوجی یا لشکری اس طرح سویا نہیں کرتے اور نہ ہی میں سویا تھا۔ یہ تو تمہارا امتحان لینے کے لئے ایسا کررہا تھا۔ مگر تم میں شاید غیرت ہی نہیں‘ تمہارے مردوں کو شکست اور زوال کی یہی وجہ ہے۔ آخر میں غلام قادر روہیلہ کی زبان میں علامہ اقبال  کہتے ہیں
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ہماری پاکستانی قوم بھی اس موقع پر اسی امتحان سے دوچار ہے‘ حقانی اور زرداری‘ مشرف اور دیگر لوگ صرف 1.5 ارب ڈالر کے لئے ملک و قوم کو امریکہ کے ہاتھ بیچ رہے ہیں۔ یہ امداد مونگ پھلی کے ایک دانی کے بھی برابر نہی‘ بہادر فوج نے ذرا اختلاف کیا ہے تو ایوان صدر کا ترجمان فرحت الله بابر اس پر معترض ہے کہ فوج کو اپنا احتجاج عوام میں نہیں لانا چاہئے۔کوئی ڈھیٹ یہ کہتا ہے کہ کیری لوگر بل کے مخالفین اس بل کی زبان کو سمجھے ہی نہیں حالانکہ امریکیوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ بل کی زبان ناموزوں ہے اور اس کی شرائط امریکی عوام کو خوش کرنے کے لئے رکھی گئی ہیں جو مشرف کے ساتھ امریکی رویہ سے ناراض تھے۔ بل میں جہاں ہماری آزادی کی منافی شرائط ہیں وہیں فوج‘ حکومت اور عوام کے درمیان انتشار پھیلانے اور باہم لڑانے کا خاصا اہتمام کردیا گیا ہے۔ اُدھر سفارت خانے کی وسعت ‘ سیکڑوں گھروں کی تعمیر ‘ 325 مکانوں کی اسلام آباد میں خرید‘ ”زی“ عرف بلیک واٹر کے امریکی دہشت گردوں کی اسلام آباد‘ پشاور‘ کراچی اور لاہور میں دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اور وزیراعظم سمیت اس کی بلاوجہ تردیدیں کررہے ہیں حالانکہ اسلام آباد کے باسی سخت پریشان ہیں۔ حتی کہ محسن پاکستان کے گھر کے قریب بھی امریکیوں نے مکان لے لئے ہیں‘ یہ سب کچھ کیا ہے؟
حالانکہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا
دل کی آزادی شہنشاہی ‘ شکم ساماں موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟
تازہ ترین