عبدالرحیم خان مندوخیل 81سال کی عمر میں خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ اُنھوں نے عمر بھر پختون قوم پرستی اور عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم اور اُن کے بیٹے اور سیاسی جانشین، محمود خان اچکزئی کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ رحلت کے وقت وہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی (PMAP) کے سینئر نائب چیئرمین تھے ۔ گویا وہ چیئرمین، محمود خان اچکزئی کے بعد پارٹی کے سب سے اہم رہنماتھے ۔ عمر اور تجربے کے لحاظ سے وہ پارٹی اور اس کی نظریاتی تحریک کے سب سے سینئر رکن تھے ۔
مندوخیل NA-260 ، کوئٹہ چاغی کے حلقے سے رکن ِ قومی اسمبلی بھی تھے ۔NA-260 پاکستان کا سب سے بڑا اور مشکل ترین انتخابی حلقہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی سرحد سات سوکلومیٹر تک ایران اور افغانستان سے لگتی ہے اور اس میں دواضلاع آتے ہیں جہاںبلوچ، پشتون ، ہزارہ اور آبادکاروں سمیت ہر رنگ و نسل کے ووٹرز پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں 72 قبائل کے ووٹر زہیں، چنانچہ جغرافیائی اور نسلی تنوع یہاں انتخابی عمل بہت مشکل بنا دیتا ہے ۔
تاہم مندوخیل نے 2013 ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پختونخواملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر آسانی سے سیٹ جیت لی حالانکہ وہ یہاں سے کافی دور، شمالی بلوچستان کے علاقے ، ژوب کے رہنے والے تھے ۔ اُن کو اس حلقے سے تیس ہزار سے زائد ووٹ ملے اور وہ اپنے دیگر حریفوںسے بہت زیادہ مارجن سے کامیاب ہوئے ۔ دراصل اُن کی جماعت چاہتی تھی کہ کوئٹہ چاغی کے معدنیات کی دولت سے مالامال اس علاقے ،جس کی سرحدایران سے ملتی اور جہاں پاکستان نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تھے ، کی نمائندگی مندوخیل جیسی کوئی قدآور شخصیت ہی کرے ۔
توقع کے مطابق مندوخیل کی نماز جنازہ میں عوام کی کثیر تعدادنے شرکت کی ۔ اُن کی نماز ِ جنازہ کے لئے ژو ب کے عرفان اسٹیڈیم کا انتخاب کیاگیا کیونکہ دستیاب دیگر جگہیں بہت چھوٹی تھیں، اوروہاں متوقع طور پر بہت بڑی تعداد میں سوگواران نہیں سما سکتے تھے ۔ لوگ سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہو کر ژوب کے سب سے مشہور فرزند کو الوداع کہہ رہے تھے ۔ مندوخیل کی تدفین اُن کے گائوں، عمزہ (Omza) میں کی گئی ۔ جیسا کہ ملک کی اکثر شخصیات کے ساتھ ہوتا ہے، مندوخیل کو شہرت بھی اُن کے گائوں سے باہر ملی تھی لیکن اُن کی آخری آرام گاہ اُن کا آبائی گائوں ہی بنا۔
PMAP نے اعلان کیا کہ مندوخیل کی وفات پر ملک بھر میں پارٹی پرچم ان کے دفاتر پر تین دن کے لئے سرنگوں رہے گا۔ اس طرح پارٹی نے ملک گیر سطح پر اپنے اُس کارکن کی وفات کا سوگ منایا جس نے اپنی تمام عمر اس کے نام کردی تھی ۔ مندوخیل ہمہ گیر صفات رکھنے والے انسان تھے ۔ اپنی نوعمری میں وہ ایک بنگالی آفسیر کے ’’بال بوائے ‘‘ تھے جو اُن کے والدکا دوست تھااور ژوب شہرکے آفسیر کلب میں ٹینس کھیلا کرتا تھا۔مندوخیل نے تدریس کا شعبہ بھی اپنایا ، اور اُنھوںنے قلعہ سیف اﷲ کے ایک اسکول میںپرنسپل کے طور پر فرائض سرانجام دئیے ۔ اس سے پہلے وہ ریڈیو پاکستان، کوئٹہ سے نیوز کاسٹر کے طور پرکام کرچکے تھے ۔ اُنھوں نے یونیورسٹی آف پشاور سے 1993 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا ۔ اُنھوں نے اپنی پارٹی کے کیسز بھی لڑے ۔ان میں سے ایک کیس ’’ون یونٹ ‘‘ کی تشکیل کے خلاف تھا۔
عبدالرحیم مندوخیل ایک صاحب قلم سیاست دان تھے ۔ اُنھوں نے تاریخ کے علاوہ بہت سے مضامین اور چند ایک کتابیں بھی تحریر کیںجن کا موضوع افغان (پشتون) نسل، افغانستان اور استعماراتی طاقتیں تھیں۔ تاہم ان کی وجہ شہرت بننے والا عنصر اُن کا طویل سیاسی کیرئیر تھا ۔ اُن کا تعلق قوم پرستوں اور آزادی کے لئے جنگ کرنے والوں کے خاندان سے تھا۔ اُن کے دادا ملانور خان ایک مذہبی عالم اور بر ِ صغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف لڑنے والے آزادی کے مجاہد تھے ۔ مندوخیل نے پختون قوم پرست جماعت ’’وروڑ پشتون‘‘ (Wror Pashtun) ، جس کی بنیاد عبدالصمد اچکزئی نے رکھی تھی،میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جب اُنھوں نے یہ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی میں ضم کرلی جس میں پشتون، بلوچ، سندھی اور بنگالی قومی پرستوں کی نمائندگی تھی تو مندوخیل اُن کے ساتھ کھڑے تھے ۔ وہ اس نئی جماعت کے سرگرم کارکن بن گئے ۔ جب عبدالصمد اچکزئی کے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں سے اختلافات پید اہوئے تو اُنھوں نے 1969 ء میں پختونخواملی عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مندوخیل کا شمار اس کے بانی ارکان میں ہوتا ہے ۔
تاہم یہ قیاس کرنا غلط ہوگا کہ مندوخیل عبدالصمد اچکزئی کے اندھے پیروکار تھے ۔ اُن کی اپنی سوچ اور سیاسی بصیرت تھی۔ اُنھوں نے PMAPکے پی پی پی کے ساتھ تعلقات پر عبدالصمد اچکزئی سے اختلاف کیااور کچھ دیر تک اُن سے ناراض بھی رہے ۔ اس کے باوجود اُنھوںنے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار نہ کی ۔ دراصل کوئی اور جماعت اُن کے مزاج کے مطابق تھی ہی نہیں، اور نہ ہی کوئی اُن کی توانااور آزادسوچ کو برداشت کرنے کی روادار تھی۔ مندوخیل ایک مرتبہ کوئٹہ سے بلوچستان اسمبلی کے رکن اور دو مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے ۔ اُن کا آخری انتخابی معرکہ کوئٹہ چاغی کے حلقے سے تھا، اور یقیناًیہ اُن کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی ۔ اس جیت نے PMAP اور اسکے حامیوں کو والہانہ خوشی سے سرشار کردیا۔
مندوخیل کی سیاسی زندگی کے کچھ اہم واقعات کو اُن کے چاہنے والے ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ اُنھوں نے کوئٹہ کے ایک انتخابی حلقے کی حدود میں تبدیلی ، جس کا ایک نسلی گروہ کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان ہوتا تھا، کیخلاف 16 دن تک بھوک ہڑتال کی ۔ یہ ہڑتال شہر میں زبان ِ زد ِ خاص و عام تھی کیونکہ مندوخیل کو صحت کے شدید مسائل لاحق ہوگئے تھے ۔اُنھوں نے کچھ بھی کھانے اور پینے سے انکار کردیا جبکہ دیگر بھوک ہڑتالی مائع خوراک لیتے رہے ۔
دیگر صلاحیتوں کے علاوہ مندوخیل کو اپوزیشن الائنسز کے منشور اور پروگرام تحریر کرنے کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان الائنسز میں ایم آرڈی، اے پی ڈی ایم اور پی او این ایم کی تحریکیں شامل ہیں۔ 1983ء میں مندوخیل گیارہ جماعتی اتحادی، ایم آرڈی کے آل پاکستان کنوینر بن گئے ۔ اس سے پہلے محمودخان اچکزئی کنونیر تھے لیکن وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے زیر ِزمین چلے گئے ۔ مندوخیل پشتون رہبر کمیٹی اور پختونخوا نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے بانی بھی تھے ، تاہم اے این پی کے ساتھ تشکیل دئیے جانے والے یہ الائنسز قابل ِعمل ثابت نہ ہوئے۔اُنھوں نے اٹھارھویں ترمیم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ۔
اس ترمیم نے صو بوں کو فقید المثال خود مختاری دی۔ اس کے علاوہ وہ اُس امن جرگے کا ایک حصہ تھے جس نے افغان اور پاکستانی سیاست دانوں، قبائلی عمائدین اور دانشوروں کو اگست 2007 ء میں کابل میں ایک میز پر بٹھایا تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن کی راہ تلاش کی جائے ۔ اُن کی ’’پشتوورلڈ کانفرنسز ‘‘ میں شمولیت اور خطاب کا انتظار کیا جاتا، اور اس پلیٹ فارم پر اُنہیں توجہ سے سنا جاتا ۔
یہ بات درست ہے کہ اُن کی جماعت بلوچستان کی پشتون آبادی کے اکثریتی علاقوںسے باہر حمایت تلاش کرنے میں ناکام ہوگئی ۔ PMAP اپنی سیاسی حریف مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی (ف) کے خلاف الیکشن جیتتی اور ہارتی رہی ہے ، لیکن یہ کبھی بھی قومی سطح کی سیاست میں اہم کھلاڑی کا کردار نہ ادا کرسکی ۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد PMAP کی بلوچستان میں حکومت کو اقربا پروری اور میرٹ کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ تام محمود خان اچکزئی کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی اور مندوخیل کی ایمانداری اور خلوص انتخابی سیاست کے نتائج سے کہیں بڑھ کے ہیں۔
مندوخیل ایک سادہ اورکھرے انسان تھے جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر سے کوئی فائد ہ نہ اٹھایا ۔ وہ اعلیٰ پوزیشنز پر فائز رہے لیکن وہ ایک کار خریدنے کی بھی استعاعت نہیں رکھتے تھے ۔ اُن کا سادہ لباس بعض اوقات اُن کی شناخت ناممکن بنادیتا لیکن اُن کے چاہنے والوں کی توجہ اُن کی شناخت بن جاتی ۔ محمود خان اچکزئی کی طرح شلوار قمیص میں ملبوس ، کندھے پر چادر اُوڑھنے والے مندوخیل پارٹی کارکنوں کے لئے ایک شفیق باپ کا درجہ رکھتے تھے ۔ ایسے مخلص اور بے لوث سیاست دانوں کی نسل اب کم وبیش ناپید ہوچکی ہے۔