”معرکہ خیر و شر “ میں کون خیرکے ساتھ اورکون شرکے ساتھ ہوگا اس کا فیصلہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں بھی ہو جائے گا، تاہم یہ فیصلہ قیامت سے پہلے قیامت سے کم نہیں ہوگا۔پیپلزپارٹی، فوج اور امریکہ مل کر اگر یہ جنگ جیت جاتے ہیں تو ٹھیک بات ہے کیونکہ کسی ایک کو تو جیتنا ہی ہے لیکن اگر ہارگئے تو پھرکیا ہوگا، ذرا اس منظرکو بھی نظر میں رکھ لیا جائے کیونکہ کسی ایک کو تو ہارنا ہی ہوگا۔ اسلامی اور جہادی قوتوں کے جیت جانے کے بعد صورتحال بہت زیادہ بدل جائے گی۔ روشن خیالوں کو اپنے نظریات، سیکولرزکو اقتدار اور امریکہ کو یہ خطہ چھوڑنا ہوگا۔ افغانستان اور پاکستان مکمل طور پر ایک اسلامی مملکت میں تبدیل ہو جائیں گے گوکہ اسلامی ملک تو یہ اب بھی ہے لیکن ہمارا مطلب ” اسلامی نظام“ کے نفاذ سے پہلے وہ قوتیں جو افغانستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں چاہتیں اگر وہ ’کچھ لو اورکچھ دو،کچھ برداشت کرو اورکچھ پر سمجھوتہ کرو‘کی پالیسی پر عمل کرتیں تو شاید ان کے لیے بھی کابل اور اسلام آباد میں کوئی جگہ باقی رہتی مگر یہ جو طاقت کے ذریعے مکمل کریک ڈاؤن شروع کیا گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح سے اسلامی اور جہادی قوتوں کوکچلنے کیلئے بھرپور جنگ شروع کر دی گئی ہے اس کے نتائج نے دونوں نظریات کی حامل قوتوں یعنی امریکہ اور اس کی حامی لبرل قوتوں، امریکہ کی مخالف اسلامی اور جہادی قوتوں کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے لہٰذا اس جنگ کا آخری نتیجہ لازمی طور پر کسی ایک کی شکست پرجاکر ختم ہوگا۔ہم یہاں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن اور سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی جناب لیاقت بلوچ کے ان بیانات سے سو فیصد متفق ہیں جو ان دونوں رہنماؤں نے گوادر اورکراچی کی تقریبات کے دوران دیئے۔ سید صاحب کا یہ کہنا کہ وزیرستان کا آپریشن سنگین غلطی ہے اس سے مزید تباہی کا راستہ کھول دیا گیا ہے اور جناب بلوچ کا یہ کہنا کہ امریکہ توجہ ہٹانے کیلئے دہشت گردی کا الزام طالبان پر لگاتا ہے، اپنے اندر بہت بڑی سچائی اور حقیقت لیے ہوئے ہیں جبکہ ان بیانات میں پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کیلئے یہ پیغام بھی ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ملٹری آپریشنزکو جاری رکھنے کی مزید غلطی نہ کی جائے جبکہ ہمارا ذاتی خیال اور تجزیہ بھی یہ ہے کہ اگر ملٹری آپریشنزکے سلسلے کو نہ روکا گیا تو نہ صرف میدان جنگ وسیع ہو جائے گا بلکہ پاکستان سمیت پورا خطہ بدترین خانہ جنگی، تشدد اور مزاحمت کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ خیر پوری قوت کے ساتھ ”شر“ کے ساتھ ٹکرائے گا جس کا دورانیہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ مکمل شکست کا سامنا کرنے کی بجائے جزوی پسپائی اورکامیاب مذاکرات کے ساتھ امن معاہدوں کی حکمت عملی اور پالیسی کو اپنایا جائے، ایسا کرنے سے بہت کچھ بچ جائے گا لیکن اگر مقابلہ جاری رہا جیسا کہ امریکہ کی خواہش ہے تو پھر یاد رہے کہ سرکاری خزانے پر لڑی جانے والی جنگ کو بالٓاخر سرنڈرکرنا پڑتا ہے۔بہرحال ہم اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ایک بار پھر اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود فیصلہ ساز قوتوں سے یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ امریکی دباؤ اور دوستی کو اہمیت دینے کی بجائے پاکستان کے مستقل مفادات اور عوام کے جذبات کو نظر میں رکھتے ہوئے ملٹری آپریشنز جاری رکھنے کی پالیسی پر فوری نظرثانی کی جائے تاکہ مزید نقصان اور تباہی سے بچا جا سکے اور اسی طرح سے آپریشن راہِ نجات اور معرکہ خیر و شرکے درمیان شدید ٹکراؤ اور تصادم کو انتہائی تدبر اور خوش اسلوبی کے ساتھ برادرانہ ماحول میں ”امن معاہدے“ کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ امریکہ کیلئے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں یقیناً مایوس کن صورتحال ہے کیونکہ اس خطے میں امریکہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے والا اب کوئی نہیں رہا، تاہم حکومت پاکستان کی صورتحال مختلف ہے اگر حکومت چاہے تو آج بھی پاکستان کے اندر ایسی جماعتیں اور رہنما موجود ہیں کہ جو پاکستانی فوج اور حکمرانوں کو طالبان سمیت دیگر مزاحمت کاروں کے ساتھ سیز فائرکرانے، صلح کرانے اور امن معاہدے کرانے سمیت ان پر مکمل عملدرآمدکی ضمانت دے سکتے ہیں۔