گزشتہ دنوں ایک مذاکرے میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں کچھ اہلِ سیاست طالبان کے حوالے سے گفتگو کررہے تھے اور سارا زورِ خطابت طالبان کے حوالے سے وطنِ عزیز کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے کردار اور ایسے مسلمانوں کو جن کی شرعی داڑھیاں ہیں اور جو نماز روزے کے پابند اور جہاد کے حامی ہیں‘ کو نشانہ بنانے پر تھا۔ گوکہ وہ سیاسی اجتماع نہ تھا لیکن سارا زور مذہبی جماعتوں کی سیاست پر صرف ہورہا تھا۔ سیاست کس چڑیا کا نام ہے؟ کیا سیاست جھوٹ‘ بے ایمانی‘ دھوکہ دہی‘ فریب‘ عہد شکنی کا نام ہے؟ کیا سیاست لوٹ مار‘ چوری‘ ڈکیتی‘ بلیک میلنگ‘ دروغ گوئی کا نام ہے؟ کیا سیاست کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ کیونکہ اکثر سیاست دانوں کا خیال ہی نہیں بلکہ فرمانا بھی ہے کہ سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مذہب‘ مذہب ہے اور سیاست‘ سیاست ہے۔ یہ دو متضاد چیزیں ہیں، مذہبی لوگوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے۔ وہ مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا کام کریں اور سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیں۔ علماء اور مذہبی جماعتیں سیاست میں ٹانگ نہ اڑائیں۔اس سے پہلے کہ ہم اور کچھ کہیں‘ سوچیں بہتر ہوگا کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ سیاست آخر ہے کیا چیز؟ کیا سیاست کا مذہب سے خصوصاً اسلام سے کوئی تعلق ہے یا نہیں اور ایک اچھے سیاست دان کی کیا خصوصیات اور اہلیت ہونی چاہئیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ وطنِ عزیز مملکت خداداد پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے۔ اس کے قیام کا مقصد ہی مسلمانوں کی علیحدہ شناخت اور مذہبی آزادی تھا اور اب بھی ہے۔
اسلامی مملکت کی اور اسلامی سیاست کی ابتدا نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ سے ہوتی ہے جو مسلمانوں کے ہادی و رہبر ہی نہیں پہلی مملکتِ اسلامی کے سربراہ بھی تھے۔ آپﷺ نے پہلی اسلامی مملکت کے تمام انتظامات و اختیارات اور سیاست لوگوں سے معاملات و دیگر ممالک سے روابط اور ان سے رویوں کو قائم کرنے اور تمام نظام ہائے مملکت جن میں امورِ مملکت بھی شامل ہیں اور امورِ اسلام یعنی مذہب بھی شامل ہے‘ کہ نہ صرف بیک وقت تجویز فرمائے بلکہ عملی طور پر انہیں نافذ فرما کر ان کا عملی مظاہرہ بھی فرمایا تاکہ بعد میں آنے والے خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس سے یہ بات واضح ہی نہیں بلکہ پائے ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اسلام میں مذہب اور سیاست باہم ایسے ملے ہوئے ہیں اور جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہی سکّے کے دو رُخ۔سیاست کیا چیز ہے؟ سیاست نام ہے تدبیر امور کا‘ تدبیر ریاست کا‘ تنظیم مصالح انسانی کا‘ تدبیر نفاذ امرونہی کا‘ ولایت الامہر کا۔ جدید معنوں میں سیاست نام اورتنظیم و تدبیر مملکت کا۔ اس میں ملک داری یا عدل و امن کی خاطر قہر و ہیبت یا سخت ضوابط کے ذریعے حکومت کرنے کا تصور۔سیاست بطور شعبہٴ حکمت اور ریاست‘ اقتدارِ اعلیٰ کا مسئلہ‘ طرز حکومت کامسئلہ‘ نظام حکومت یعنی ولایات کی عملی تنظیم‘ جزئیاتی تشکیل بربنائے قواعد و ضوابط و فرائض و حقوق‘ قوانین عدل و انصاف‘ قوانین تعزیر و سیاست (سزا)وغیرہ۔
حضور اکرمﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں جس معاشرے کی تشکیل کی اس سے ایک ریاست بھی وجود میں آگئی۔ آپﷺ نے دعوتِ حق‘ اصلاح‘ اخلاق اور تزکیہٴ نفس کے علاوہ استخلاف فی الارض کے وعدے کے مطابق ملکی انتظامات بھی کئے۔ چنانچہ اس سادہ سی ریاست میں آپﷺ نے حکام‘ ولات اعمال کا تقرر‘ فوج کے امیر‘ آئمہ‘ موٴذنوں کا تقرر‘ زکوٰة و جزیہ کے لئے محصلین کا اہتمام‘ مقدمات کا فیصلہ‘ غیر قوموں سے معاملات‘ اجرائے فرامین‘ اجرائے تعزیر و احتساب وغیرہ کے کام خود انجام فرمائے۔ پھر اسی طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین نے خلافت‘ امامت‘ ریاست‘ حکومت کی ۔عہد حضرت عمر فاروق کے بارے میں تفصیل شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ”الفاروق “ میں دی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی اور یاد رکھنے کی ہے کہ مسلمانوں کا تصورِ سیاست (اصول اور تدبیر حکمرانی) اپنے خاص ماحول سے بھرا اور دین کے سرچشمہ یعنی قرآن کریم اور حدیث رسولﷺ اور تمام اہم اور بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے عمل سے تقویت پائی ہے۔اس سلسلے میں مغربی دانشوروں کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ وہ یونان کے افلاطون اور ارسطو کے تصورات پر مبنی نظریات کے حامل ہیں۔ افلاطون کی جمہوریت (ری پبلک) اور ارسطو کی سیاسیات (پالیٹکس) بالکل الگ چیز ہے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ وہ صرف شہری ریاست یا حکومت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک عالمی حکومت کا مدعی ہے۔ غیر مسلم محققین کا یہ خیال اور کہنا کہ حضور نبی کریمﷺ نے کوئی ریاست قائم نہیں کی تھی‘ قطعی غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ عہد نبویﷺ سے لے کر عہد خلافتِ راشدہ تک سب نہ صرف سیاستِ نبویﷺ کا زندہ ثبوت ہے بلکہ اہل سیاست و حکومت کے لئے کھلی کھلی دلیل بھی ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح کی سیاست کرنا ہے اور کس طرح حکمرانی کرنا ہے۔ سیاستِ نبویﷺ ایک زندہ حقیقت ہے اور بنو عباس کا دور اسلامی سیاسی مفکرین کی نظر میں تودین و دنیا دونوں باہم پیوست ہیں۔یہ بات نبی کریمﷺ کے عمل اور افکار سے ثابت ہے کہ اشاعت و تبلیغ دین اور سیاست و حکمرانی کوئی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ یعنی متقی دین دار اہلِ ایمان ہی دراصل اصل سیاست دان و حکمران ہونے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں ان کا ایمان اللہ کا خوف پیدا کردیتا ہے۔ وہ نہ کسی کی حق تلفی کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی پر کسی طرح کا ظلم کرسکتے ہیں‘ نہ کسی اور کو کرنے دے سکتے ہیں اگر ہم آج وطنِ عزیز جو ایک خالص اسلامی نظریاتی ملک ہے‘ جس کے آئین میں اسلام کو بنیادی حیثیت و اہمیت حاصل ہے اور مملکت کا نام بھی آئین کے مطابق اسلامی” جمہوریہ پاکستان“ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے دانشوروں نے جو مغربی ابلاغیات سے متاثر ہیں‘ یہ کہنے میں‘ سمجھنے میں عار نہیں محسوس کرتے کہ مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مذہبی لوگوں کو سیاست کی کیا خبر‘ انہیں تو سیاست کی” الف بے“ نہیں آتی‘ وہ حکمرانی کرنا کیا جانیں۔ جبکہ اسلام نے قرآن و نبی کریمﷺ کے ذریعے ہر بات‘ ہر عمل خوب کھول کھول کر بتادیا ‘ سکھادیا ہے اگر وطنِ عزیز کی سیاسی جماعتوں پر ایک نظر ڈالیں تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے سوا کوئی دینی مذہبی جماعت ایسی نہیں جسے سیاسی جماعت بھی کہا جاسکے جب کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اللہ اور رسول اللہﷺ کے احکام اور طریقوں پر کاربند لوگوں پر مشتمل ہوں جو بندوں سے اہل اقتدار و اختیار سے ڈرنے کی جگہ صرف ایک اکیلے اللہ سے ڈرنے والے افراد ہوں جو حکمرانی کا ایک ایک لمحہ‘ ایک ایک قدم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اٹھانے والے ہوں۔
سیاست یہ نہیں ہے جو آج ہمارے سیاست دان کررہے ہیں۔ جھوٹ‘ فریب‘ عہد شکنی‘ بے وفائی‘ بدعہدی‘ بے ایمانی‘ لوٹ کھسوٹ‘ عوام کی تکالیف کا احساس اور تدارک نہ کرنا۔ عوامی اور اجتماعی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دینا۔ اس کے لئے تمام اہلِ سیاست کو یوم آخرت اللہ کی عدالت میں جوابدہی کرنا ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ وطن‘ اہلِ سیاست کو ایمان کی دولت سے اور دردمند دل سے نوازے۔ اپنی ذات سے ہٹ کر اللہ کی سونپی ہوئی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے کا اہل بنائے‘ آمین۔