اسلام آباد( طارق بٹ) سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پڑھنےسےپتہ چلتا ہے کہ ٹیم نےیہ سفارش کی ہے کہ پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف اور انکی فیملی کیخلاف مبینہ کرپشن کے کم ازکم 10کیسز جن میں سے بعض کیسز کی مکمل طور پرتحقیقات کی گئیں اورمختلف عدالتوں کی طرف سے ان پر فیصلے سنائےگئےہیں انہیں ری اوپن کیاجانا چاہئے اورجہاں ضرورت پڑے وہاں اپیلیں بھی دائر کی جائیں۔
جے آئی ٹی نے یہ بھی تجویز کیاہے کہ 1994ء میں بینظیر بھٹو کے دور میں نواز شریف کیخلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے) کی جانب سے درج دو مقدمات جن پر عدالتوں نے فیصلےدیدئیےتھےان کو بھی ری اوپن کیاجانا چاہئے۔ اسی طرح اس فورم نے سفارش کی کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان( SECP) کی جانب سے تحقیقات اورپھربندکئے گئےایک کیس کو بھی ری اوپن کیاجاناچاہئے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان سفارشات کا مقصد وزیراعظم نواز شریف کو ٹارگٹ کرناہےتاکہ وہ سزا سے بچ نہ جائیں۔ یہ سخت تجاویز دیتے ہوئے جے آئی ٹی نے اس حقیقت کو بھی نظرا نداز کردیا کہ فیصلہ شدہ کیسز عرصہ دراز قبل بند ہوئے اور انکےدوبارہ کھلنےکی مدت گزر چکی ہے۔ٹیم نے سفارش کی کہ قومی احتساب بیورو میں زیر التواء کیسز کی تحقیقات کا عمل تیز کیاجائے۔ تاہم عقدہ یہ ہےکہ یہ سب جے آئی ٹی کےدائرہ عمل میں کیسے آتاہے کیونکہ اس کو تو سپریم کورٹ کے 20 اپریل کےپاناما کیس کے فیصلے میں درج 13 سوالات کے جواب جاننےکی ذمہ داری سونپی تھی۔
ان سفارشات کاان مخصوص سوالات سے کوئی لینا دنیا نہیں ہے،یہ ہدایات نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کیلئے دی گئی تھیں اور مختلف اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات اور بعض ریفرنسز کے فیصلے کیلئے قانونی عمل پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا گیا۔ ان سفارشات کا جواز پیش کرتے ہوئے جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں 20 اپریل کے فیصلے کا ایک پیرا گراف نقل کیا کہ ’’ جے آئی ٹی مذکورہ فلیٹس یا دیگر کسی اثاثےیا مالی وسائل کےحصول یا ملکیت اورانکےآغاز و ابتداء کے حوالے سےنیب اور ایف آئی اے کے پاس موجود شواہد اور موادکی جانچ پڑتال بھی کرسکتی ہے‘‘۔
جے آئی ٹی نے لکھا کہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی سے انکی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کیخلاف کرپشن اور غلط کاموں کے الزامات پر انکی تحقیقات کا ریکارڈ مانگا گیا ۔
جے آئی ٹی نے سفارش کی کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ غیر قانونی عمل کےشواہد، بوگس قطر ی کنکشن، اور ملزم کی جانب سے ہیلی کاپٹر خریداری کیلئے مالی وسائل سےآگاہ نہ کرنےکےتناظرمیں لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر کیخلاف ہیلی کاپٹر خریداری کے حوالےسےسپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے۔اٹک قلعہ میں بنائی گئی ایک احتساب عدالت نے نواز شریف کو 14 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ تاہم لاہور ہائیکورٹ نے ستمبر 2010ء میں اس سزا کو ختم کردیا۔نیب نے اسکے خلاف اپیل دائر نہیں کی۔
اسی طرح جے آئی ٹی نے تجویز دی تھی کہ ایک تازہ ،کافی ٹھوس اور جامع دستاویزی ثبوت، منی ٹریل اور بینکنگ ریکارڈ ( جوٹیم نے جمع کیا)کومد نظر رکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کیخلاف بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جانی چاہئےجس میں اس نے وزیراعظم کیخلاف 2000ء میں حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق ایک ریفرنس ختم کیاتھا۔
اسی طرح جے آئی ٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ نواز شریف اور انکی والدہ کیخلاف رائیونڈ میں محل نما عمارات اورگھروں کی تعمیر جو انکے معلوم ذرائع آمدن سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے کی بنا پر 2000ء میں دائر ریفرنس جسےعرصہ قبل لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا کوبھی نیب میں اس معاملے میں ملتے جلتے کیسز کیساتھ ضم کیاجائے۔دسمبر 1999ء سےلندن اپارٹمنٹ بلڈنگ کے حصول ، خریداری کے حوالے سے نواز شریف کیخلاف زیر التواء تحقیقات کے معاملے میں جے آئی ٹی نے سفارش کی کہ نیب کو مزید کوئی تاخیر کئے بغیر مکمل تحقیقات کی ہدایت دی جائے۔
ٹیم نے بتایا کہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران اب خاصا مواد اور شواہد ریکارڈ پر آچکے ہیں جن کا نیب کی تحقیقات سے براہ راست تعلق ہے۔ ایسی ہی ایک سفارش رائیونڈ اوراسکے نواح میں جبری طورپر اراضی حاصل کرنے کے حوالے سے وزیراعظم اور دیگر کیخلاف فروری 2000ء سے زیر التواء تحقیقات کے سلسلے میں بھی کی گئی۔
جے آئی ٹی نے مزید سفارش کی کہ وزیراعظم کیخلاف انکی رائیونڈ سٹیٹ تک سڑک کی تعمیر کیلئےاختیارات کے ناجائز استعمال کی اپریل 2000ء میں شروع ہونے والی تحقیقات کو میرٹ کی بنیاد پر بلاتاخیر مکمل ہونا چاہئے۔ یہ بھی سفارش کی گئی کہ شریف ٹرسٹ کے معاملے میں نیب کی وزیراعظم کیخلاف تحقیقات کم ترین وقت میں مکمل کی جائیں۔جے آئی ٹی نے مزید تجویز دی کہ وزیراعظم اور دیگر کیخلاف ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں (حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی میں بے نامی سرمایہ کاری) کے حوالے نیب تحقیقات کو ریفرنس دائر کرنے کیلئے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات میں ضم کیا جائے۔
ایف آئی اے میں غیر قانونی تقرریوں میں اختیارات کے مبینہ غیر قانونی استعمال پر وزیراعظم کیخلاف نیب تحقیقات کے سلسلے میں ٹیم نے سفارش کی کہ اسے تیز کیا جانا چاہئے۔نواز شریف کیخلاف ایل ڈی اے میں پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹس کے سلسلے میں ایک انکوائری اور دو تحقیقات کو نیب کی جانب سے تیز رفتاری سےحتمی شکل دی جائے۔جے آئی ٹی نے اسی طرح کی سفا ر شا ت ایف آئی اے کے حوالے سے بھی دیں۔
ایک ایف آئی آر نمبر 12/1994 نواز شریف کیخلاف حدیبیہ انجینئرنگ کے سلسلے میں مبینہ طور پر مختلف بینکوں میں جعلی اور فرضی اکائونٹس کھلوا کر غلط کاموں کاپیسہ وصول کرنے پر درج ہوئی۔ اسے جون 1997ء میں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے مسترد کردیا گیا لیکن جے آئی ٹی نے تجویز دی ہے کہ اس کیس کوری اوپن کرکے حد یبیہ پیپر ملز کیس میں ضم کر دیا جائے۔ سپیشل جج سنٹرل کی عدالت میں زیر التوا ء ہونے کے دوران لاہو رہائیکورٹ نے اسے رد کردیا تھا۔
دوسرا کیس ایف آئی آر نمبر 13/1994 حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نواز شریف نے فرم کیلئے قرضے لیکر غیر قانونی رقوم حاصل کیں۔ اس کیس سے بھی لاہورہائیکورٹ میں یہی سلوک ہوا۔ جے آئی ٹی نے حدیبیہ انجینئرنگ کیس میں بھی اسی قسم کی سفارش کی ۔
جے آئی ٹی نے سفارش کی کہ چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کیخلاف الزام کی تحقیقات جو ایس ای سی پی کی جانب سے 2013ء میں کی اورپھر بند کردی گئیں کو ری اوپن کیا جانا چاہئے۔ تقریباً ہر سفارش کےآخر میں جے آئی ٹی نے کارروائی کے جواز کیلئے متعلقہ دستاویزات اور اپنا جائزہ دیاہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٹیم نے سوالات کے جوابات کیساتھ شریف فیملی کے تمام کاروباروں کی بلاروک ٹوک تحقیقات کیں۔ تاہم مبینہ طور پر دولت جمع کرنے کیلئے وزیراعظم کی جانب سے سرکاری خزانے کے استعمال ، کرپشن، کک بیکس یا کمیشن کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن جے آئی ٹی نے سنگین شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدے پر براجمان ہونے کی وجہ سے غیر قانونی طور پر دولت کمائی گئی۔