پہلی بات تویہ ماننی پڑے گی کہ تمام تر تنازعات کے باوجود جے آئی ٹی نے جو رپورٹ دی اور اُس میں لگائےگئے الزامات شریف فیملی کےلیے انتہائی خطرناک اور سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ اگرجے آئی ٹی رپورٹ کی تحقیقات سچ ثابت ہوتی ہیں تو ایک بات طےہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت اُن کے بچوں کا سیاسی مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ رپورٹ میں سنگین ترین الزامات لگائے گئے جن میں جھوٹ، جعلسازی وغیرہ کے ساتھ ساتھ آمدن سے زائد اثاثہ جات رکھنے کے چارجز لگائے۔ رپورٹ نے اپنی طرف سے یہ بات طے کر دی کہ نواز شریف دبئی کی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں اور اُس سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو میاں صاحب کی چھٹی۔ جے آئی ٹی نے ڈاکومینٹری ثبوت کا حوالہ دے کر کہا کہ مریم نواز پامانا اسکینڈل میں ظاہر کی گئی آف شور کمنیوں کی مالک ہیں اور انہوں نے اور اُن کے بھائی حسین نواز نے جھوٹ بولا کہ ان کمپنیوں کے اصل مالک حسین نواز جبکہ مریم نواز ٹرسٹی ہیں۔ جے آئی ٹی کے مطابق جو ٹرسٹ ڈیڈ مریم اور حسین کی طرف سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی وہ جعلی ہے اور جھوٹ ہے۔ جو جے آئی ٹی نے کہااگر وہ واقعی سچ ہے تو مریم نوازکے لیے سیاست میں باقاعدہ قدم رکھنے سے پہلے ہی سیاست کے دروازے بند ہوچکے۔ اس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات کی وزارت قانون کے خط کا حوالہ دے کر کہا کہ گلف اسٹیل مل سے متعلق جو باتیں شریف خاندان نے سپریم کورٹ کے سامنے کیں اُن میں سے کسی ایک کوبھی دبئی حکومت نے کنفرم نہیں کیا۔ یعنی جے آئی ٹی کے مطابق یہاں بھی جو کہا گیا وہ جھوٹ اور جو دستاویزات پیش کی گئی وہ جعلی تھیں۔ اپنی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی نے لندن، دبئی اور حتیٰ کہ پاناما تک کے متعلقہ محکموں سے اپنے رابطوں کا حوالہ دیا اور دستاویزات بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیں۔ اگر نواز شریف فیملی جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے سنگین الزامات کو جھوٹ ثابت نہیں کرتی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جے آئی ٹی نے بہت بڑا کام کیا۔ لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ کر مجھے اس بات پر ضرور تعجب ہوا کہ چند معاملات میں ’’ٹھوس‘‘ ثبوت (جن کا کالم میں اوپر ذکر کیا گیا) پیش کرنے کو باوجود جے آئی ٹی نے کچھ دوسرے معاملات میں صرف شبہ کی بنیادپر نواز شریف کو کسی نہ کسی الزام میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ رپورٹ کو پڑھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ اراکین نے یہ ذہن بنا کر تحقیقات کیں کہ نواز شریف اور اُنکے بچے واقعی جھوٹے، جعل ساز وغیرہ ہیں اور اس لیے انہیں نہیں چھوڑنا۔ اگر ایک طرف ٹھوس دستاویزات کا حوالہ دے کر شریف خاندان کے خلاف الزامات لگائےگئے تو دوسری طرف شکوک کی بنیادپر نواز شریف کو بیرونی جائیدادوں اور کاروبار کا مالک لکھا گیا۔ یعنی ہر الزام کو نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف شبہ کی بنیاد پر بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ نواز شریف لندن اپارٹمنٹس کے نوے کی دہائی میں ممکنہ طور پر اصل مالک تھے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی لکھی گئی کہ نواز شریف کے لیے اُن چار میں سے ایک فلیٹ مخصوص ہے جو اُس سے پہلے اُن کے والد مرحوم میاں شریف کےلیے مخصوص تھا۔ اسی طرح رپورٹ میں نواز شریف کے خلاف نوے کی دہائی سے بنائےگے عدالتی کیس (جن کے فیصلے ہوچکے) اور تحقیقات (جن کو بند کیا جا چکا ہے) کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ اُن تمام کو بھی دوبارہ کھول دیا جائے۔ پوری رپورٹ میں کہیں جے آئی ٹی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ نواز شریف نے کہیں کرپشن کی یا کک بیکس کھائے بلکہ رپورٹ کا تمام تر موضوع شریف فیملی کا بزنس اور اُن کی جائیداد رہا۔ رپورٹ کا حصہ دوم میں جو افراد جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوے اُن کے بیانات شامل ہیں۔ ان بیانات پر جے آئی ٹی ممبران نے اپنا تجزیہ دیا جس میں ان افراد کا مذاق اڑایا گیا۔ مجھے ذاتی طور رپورٹ کے اس حصہ کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا لیکن جنگ اخبار میں جو شائع ہوا اُس کے مطابق جے آئی ٹی نے شریف فیملی کے بارے میں اپنی رائے دی کہ شریف خاندان میں بادشاہت ہے اور وہاں لاکھوں کروڑوں کے تحائف کا رواج ہے۔کیپٹن صفدر کے بارے میں کہا گیا کہ وہ جھوٹا، بے ایمان، فراڈیہ اور انحرافی ثابت ہوا جس کا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ انتہائی ایماندار، خوددار اور خودمختار ہیں۔ عبد الرحمن ملک کے بارے میں جے آئی ٹی نے اپنا تجزیہ دیا کہ وہ ایک چالاک، ذاتی تشہیر پسند اور مفروضوں پر بات کرنے والا شخص ہے جو تفتیش میں معاونت کی بجائے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ نہیں معلوم اس طرح اپنے سامنے پیش ہونے والے گواہوں کا مذاق اڑانے سے جے آئی ٹی کا کیا مقصد تھا اور اس سے اُن کی تحقیق کو کیا فائدہ پہنچا۔ اس غیر سنجیدہ رویہ نے جے آئی ٹی کی طرف سے وہ کام جو اُنہوں نے بڑی محنت سے کیا اُسے بھی بلاوجہ متنازع بنا دیا۔ جے آئی ٹی کے غصہ یا اُن کی طرف سے گواہاں کے مذاق اڑانے کی مجھے کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ بحرحال اس غیر سنجیدہ حصہ اور شکو ک کی بنیادپر الزامات کو رپورٹ کا حصہ بنانےکے باوجود جے آئی ٹی نے کچھ ٹھوس الزامات عائدکیے جنہیں اگر شریف خاندان نے غلط ثابت نہ کیا تو اس کا نقصان ن لیگ کی حکومت کے ساتھ ساتھ اس سیاسی جماعت کے مستقبل کو بھی ہو گا۔ حکومت نے اس رپورٹ کو ردی قرار دیا تو تمام اپوزیشن نے اسے مکمل سچ تسلیم کیا اور اس بنیاد پر وزیر اعظم سے استعفیٰ بھی طلب کیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو نواز شریف صاحب کے بارے میں سپریم کورٹ نے تو آئندہ چند ہفتوں میں کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا ہی ہے۔بحرحال ایک ایسی صورتحال میںجہاں تنازعات کے باوجود اگر جے آئی ٹی نے شریف خاندان اور ن لیگ کے لیے واقعی مشکلات پیدا کر دیں اور بہت سوں کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی ممبران نے بہترین کام کیا تو پھر ایسے میں میری عدالت عظمیٰ اور محترم چیف جسٹس سے یہ درخواست ہے کہ اسی جے آئی ٹی کو انہی اختیارات کے ساتھ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے مالی معاملات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا جائے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بالخصوص جنرل مشرف کے کیس میں کیا یہی جے آئی ٹی اسی جرأت کا مظاہرہ کرسکتی ہے اور کیا وزارت دفاع کے ذیلی ادارے جے آئی ٹی کی اسی طرح سے مدد کریں گے جیسی انہوں نے اس کیس میں کی۔