کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہچوہدری نثار نے وزیراعظم سے اپنے تعلق پر فخر کا اظہار کیا،چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ میری وفاداری میرا سرمایہ ہے،چوہدری نثار علی خان جمعرات کو کابینہ اجلاس میں موجود تھے،گلگت بلتستان،فاٹا اور چاروں صوبوں کے عوام میں نوازشریف مقبول لیڈر ہیں،ن لیگ کے ساتھ عوام کی تائید ہے،کوئی گھبرانے کی بات نہیں تمام اجلاس معمول کے مطابق ہوں گے، کابینہ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزراء اور ن لیگ وزیراعظم کے ساتھ ہیں،ہم اس سیاسی سازش کا مقابلہ کریں گے ،پاکستان دہشت گردی کے خلاف بہت بڑی جنگ لڑرہا ہے ،اگرہم بددیانت ہوتےتواربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سی پیک کےذریعے نہیں آتی ،اگر ہم بددیانت ہوتے تو ملک کے خزانے نہ بھرتے ،ہم نے شفافیت کے حوالے سے 9 پوائنٹس حاصل کئے ہیں ،وزیراعظم کے ہاتھ صاف ہیں اور انکے خاندان نے کوئی غلط کام نہیں کیا،نوازشریف کے تینوں ادوار میں کوئی بے ضابطگی کا کیس نہیں بنایا جاسکا،تحریک انصاف کے ہم خیال لوگ حکومت کو ناکام کرنیکی کوشش کررہےہیں ،پی ٹی آئی کے ہم خیال جماعتوں نے ملک میں سیاسی بحران کی کوشش کی ہے،کابینہ نے وزیراعظم نوازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا،جے آئی ٹی رپورٹ سیاسی ایجنڈے پر لکھی گئی ہے ،کابینہ اجلاس میں تمام اراکین نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا ،عمران خان 2013 کے الیکشن کا صدمہ فراموش نہیں کرسکے ،عمران خان تو 2014 سے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔سابق صدرسپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ رپورٹ کے بعد عدالت کو جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا، جے آئی ٹی کی پوری رپورٹ عام کرنا ہوگی، قطری شہزادے کا خط بھی دستاویز ہے اوررپورٹ بھی دستاویزات پر ہے،قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ ہونا چاہئے تھا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں اس وقت جے آئی ٹی کا ذکر ہے، وزیراعظم نااہل ہوجائیں گے یا نہیں ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال ہے فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، جے آئی ٹی نے وزیراعظم پر سنگین الزامات لگائے اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سنگین اعتراضات اٹھ رہے ہیں، رپورٹ میں کچھ خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے جوا ہم ہے، یہ رپورٹ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کے مستقبل کا تعین کرے گی، یہ معاملہ جلد حل ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی جمعرات کو عمران خان کے کیس میں ریمارکس دیئے کہ عدالت ان کیسوں کو جلد نمٹانا چاہتی ہے، پیر کو سپریم کورٹ پاناما کیس سنے گی جہاں حکومت ممکنہ طور پر جے آئی ٹی رپورٹ کو چیلنج کرے گی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کی ابتداء میں ہی اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے چار اہم شہادتیں اور دستاویزات حاصل کرلی ہیں، پہلا اہم ثبوت مریم نواز آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل اونر ہیں، اس بات کی تصدیق برٹش ورجن آئی لینڈ کے تحقیقاتی ادارے فائنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کردی ہے، دوسرا ثبوت ، وزیراعظم نواز شریف دبئی کی آف شور کمپنی ایف زیڈ ای کیپٹل کے چیئرمین ہیں، اس بات کی تصدیق جبل علی فری زون اتھارٹی نے کردی ہے، تیسرا ثبوت، گلف اسٹیل مل کی خرید و فروخت کا معاہدہ جو عدالت میں جمع کرایا گیا وہ جعلی ہے، اس بات کی تصدیق متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف نے کردی ہے، چوتھا ثبوت، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ڈیکلیئریشن آف ٹرسٹ جھوٹی اور ٹیمپر ہے، اس بات کی تصدیق برطانوی فارنزک ماہر کی رپورٹ نے کردی ہے، یعنی جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی منی ٹریل کو غلط ثابت کردیا، نواز شریف اور ان کے بچوں کو سیدھا سیدھا جھوٹا کہہ دیا اور عدالت کو یہ بتادیا کہ آپ سے ان سب نے جھوٹ بولا ہے، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی طرف سے پیش کی گئی کسی بھی دستاویز کو درست قرار نہیں دیا، اس کے جواب میں اپنے دستاویزی ثبوت دیئے جن پر سوال اٹھ رہا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ جمعرات کو دی نیوز میں احمد نورانی کی شائع ہونے والی خبر کے مطابق جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرملکی اتھارٹیز سے مخصوص جواب یا من پسند جواب حاصل کرنے کیلئے سوالات پوچھے گئے، منتخب گواہوں کی جانچ کی گئی اور اہم گواہوں کو نظرانداز کردیا گیا، احمد نورانی نے جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی چار اہم شہادتوں کو دستاویزی شواہد سے غلط قرار دیا ہے، سب سے پہلے مریم نواز کو نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونر ثابت کرنے والی دستاویز کی بات کریں گے، خبر کے مطابق جے آئی ٹی نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت کے بجائے برٹش ورجن آئی لینڈ کے ادارے کی تصدیق کا سہارا لیا اور حقائق کومسخ کرنے کی کوشش کی، جس طرح ہمارے ملک میں تمام کمپنیوں کا ریکارڈ ایک ادارہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس ہوتا ہے، کسی دوسرے ملک کو پاکستان کی کسی بھی کمپنی سے رابطہ کرنا ہوگا تو وہ ایس ای سی پی سے رابطہ کر کے ریکارڈ مانگے گا، ایس ای سی پی جو بھی ریکارڈ مہیاکرے گی اسے حتمی سمجھا جائے گا، اسی طرح جے آئی ٹی نے برٹش ورجن آئی لینڈ کی کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے حوالے سے معلومات کیلئے وہاں کے ادارے بی وی آئی فائنانشل سروسز کمیشن سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا، اگر وہاں سے کوئی جواب ملتا تو مصدقہ سمجھا جاتا، اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے برٹش ورجن آئی لینڈ کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے رابطہ کیا اور ماضی میں دو خطوط کی تصدیق چاہی، ان خطوط کا پس منظر بہت اہم ہے کیونکہ 2012ء میں فائنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے لاء فرم موزیک فونسیکا کو خط لکھ کر ان آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں جن کا مبینہ تعلق شریف خاندان سے ہے، یہ وہی لاء فرم ہے جس کا ڈیٹا لیک ہوا اور پاناما کا ہنگامہ برپا ہوا، اس خط کے جواب میں جون 2012ء میں موزیک فونسیکا نے دونوں کمپنیوں کی تفصیلات فراہم کردیں اور بتایا کہ مریم نواز اس کی بینیفیشل اونر ہیں، خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کمپنیوں سے کوئی ٹرسٹ وابستہ ہے تو اس کی معلومات ان کے پاس نہیں ہیں، یہ خط سپریم کورٹ کے سامنے بھی پیش کیا گیا، شریف خاندان نے عدالت کو بتایا کہ ایک ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت مریم نواز ان کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں، ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر اصل میں حسین نواز ہیں اور موزیک فونسیکا کے کچھ اہلکاروں کی طرف سے چیزوں کو کنفیوژ کیا گیا، برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایف آئی اے نے کبھی مریم نواز کو بینیفیشل اونر قرار نہیں دیا، ایف آئی اے کسی نتیجے پر نہیں پہنچی صرف تفتیش تک ہی محدود رہی، ایک نجی فرم کی خط و کتابت کو یہاں شہادت کی بنیاد نہیں بنایا جاسکا اور فیصلہ کن شہادت صرف وہ دستاویز ہوگی جس کی برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت نے تصدیق کی ہوگی کہ کون ان آف شور کمپنیوں کا بینیفیشل اونر ہے، احمد نورانی کی خبر کے مطابق جے آئی ٹی نے ایف آئی اے کو دو خط بھیج کر سوال کیے کہ وہ بارہ جون 2012ء کے ایف آئی اے کے خط اور بائیس جون 2012ء کو موزیک فونسیکا کے جواب کی تصدیق کرے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے ایف آئی اے سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونرشپ کی تصدیق کرے، یہ نہیں پوچھا کیا مریم نواز ان کی بینیفیشل اونر ہیں، صرف اس خط کی تصدیق چاہی جو پاناما پیپرز کا حصہ ہے،خبر کے مطابق نجی فرم کی یہی معلومات عدالت میں مسترد ہوگئیں تو جے آئی ٹی کو برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت سے تصدیق کروانی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا، اب جے آئی ٹی نے ان دو خطوط کی تصدیق کی بنیاد پر حتمی رپورٹ میں اپنی فائنڈنگ دی کہ ایف آئی اے کی تصدیق کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان دو کمپنیوں کی بینیفیشل اونر مریم نواز ہیں، اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ وہ خطوط جن کی برٹش ورجن آئی لینڈ کے ادارے ایف آئی اے نے تصدیق کی اس خط میں لکھا ہے کہ موزیک فونسیکا کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے کہ نیلسن اور نیسکول سے کوئی ٹرسٹ وابستہ ہے لیکن جے آئی ٹی رپورٹ نے اسے اس طرح تبدیل کردیا کہ کمپنیوں سے وابستہ کوئی ٹرسٹ نہیں ہے، شریف خاندان کے مطابق حسین نواز نے جے آئی ٹی کوا یک کمپنی جے پی سی ایل لمیٹڈ کا ایک خط بھی دیا، اس کمپنی نے 2014ء میں منروا سروسز کے بعد نیلسن اور نیسکول کے سیکرٹریل انتظام سنبھالا لیکن جے آئی ٹی نے اس خط کو کسی تصدیق کے بغیر یکسر نظرانداز کردیا، یعنی جے آئی ٹی نے کسی متعلقہ حکومتی ادارے کی تصدیق کے بغیر ہی ایک تحقیقاتی ادارے کی تصدیق پر مریم نواز کو بینیفیشل اونر قرار دیدیا، خط کے متن کو بھی مسخ کیا اور اپنی رپورٹ میں یہ ثابت کردیا کہ مریم نواز ہی نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونر ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی ذمہ داری ہوگی کہ رپورٹ میں ان تمام غلط باتوں کو ثابت کرنے کیلئے عدالت کے سامنے ثبوت رکھے، عدالت کے سامنے ثبوت رکھے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ اداروں سے تصدیق کے بجائے ایک تحقیقاتی ادارے سے تصدیق کی اس لئے یہ تمام باتیں غلط ہیں مگر انہیں ساتھ میں یہ بتانا ہوگا کہ صحیح یہ ہے، چونکہ یہ کمپنیاں ہماری ہیں تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ہیں جو ہم نے متعلقہ اداروں سے لی ہیں، محض جے آئی ٹی رپورٹ کو غلط کہنے سے کام نہیں چلے گا، جے آئی ٹی رپورٹ کو غلط ثابت کرنے کیلئے شریف خاندان کو صحیح ڈاکومنٹس دینا ہوں گے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں دوسرا دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف آف شور کمپنی ایف زیڈ ای کیپٹل کے چیئرمین ہیں اور باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں، اس بات کے ثبوت میں جبل علی فری زون اتھارٹی کے خط بھی پیش کیے گئے، خبر کے مطابق یہ بات سپریم کورٹ کے تیرہ سوالات کا حصہ نہیں تھی، جبل علی فری زون کی کمپنیاں کسی بھی طرح دیگر آف شور کی طرح نہیں ہیں، متحدہ عرب امارات فری زون میں سیکڑوں پاکستانی ایسی کمپنیوں کے مالک ہیں جو ہرگز آف شور نہیں ہیں، خبر کے مطابق لفظ آف شور استعمال کر کے سنسنی پیدا کی گئی، اسی طرح یو اے ای کے فری زون کے قوانین میں کمپنی کے چیئرمین کی کوئی حیثیت نہیں، اس حوالے سے ہم بدھ کو اپنے پروگرام میں بھی حسن نواز کا موقف پیش کرچکے ہیں کہ نہ تو نواز شریف کا زیڈ ای کیپٹل میں کوئی شیئر ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس کمپنی سے کوئی تنخواہ وصول کی اور نہ ہی اس بات کی کوئی شہادت موجود ہے، یہ سب عدالت میں ثابت کرنا شریف خاندان کی ذمہ داری ہوگی، جے آئی ٹی کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ نواز شریف تنخواہ لیتے رہے، یہ وہ فیکٹ ہے جو جے آئی ٹی کو ثابت کرنا چاہئے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزیدکہا کہ احمد نورانی کی خبر کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کمپنی کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو تنخواہ کی فراہمی یا کمپنی کی ملکیت کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے، یوں جے آئی ٹی کے دوسرے اہم ثبوت پر بھی سنگین اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنے تیسرے ثبوت میں دعویٰ کیا کہ گلف اسٹیل مل دبئی کے حوالے سے عدالت میں جمع کرایا گیا معاہدہ جعلی ہے، اس بات کی تصدیق متحدہ عرب امارات کے محکمہ انصاف نے کی مگر خبر کے مطابق جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام کو غلط حقائق فراہم کیے، جے آئی ٹی نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے محکمہ انصاف نے بتایا ہے کہ شریف فیملی اور الاہلی اسٹیل کے درمیان 1980ء میں معاہدے کا کوئی ثبوت موجود نہیں یعنی عدالت میں جمع کرایا گیا معاہدہ جعلی ہے، خبر کے مطابق جے آئی ٹی کی طرف سے الاہلی اسٹیل مل سے رابطہ کر کے پوچھا جاسکتا تھا مگر ان سے نہیں پوچھا گیا صرف مخصوص گواہان سے معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ خرید و فروخت کے معاہدے کا سرکاری ریکارڈ کیوں موجود نہیں، اس حوالے سے حسین نواز نے بتایا کہ دستاویزات کی تصدیق اور توثیق تین مختلف محکموں وزارت انصاف، امور خارجہ اور یو اے ای میں پاکستانی ہائی کمیشن سے کروائی گئی، ایسا ممکن نہیں کہ تین جگہوں سے ریکارڈ نہ ملے، اسی طرح جے آئی ٹی نے دعویٰ کیا کہ شریف خاندان کا موقف کہ گلف اسٹیل مل کا اسکریپ جدہ منتقل کیا گیا وہ جھوٹا ہے کیونکہ یو اے ای کے محکمہ انصاف نے اس کی تصدیق نہیں کی، خبر کے مطابق دبئی حکام کو مشینری کی نقل و حرکت کے بجائے اسکریپ مشینری کی اصطلاح استعمال کر کے کنفیوژ کیا گیا تھا۔