اس وقت ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کے متعلق اتنے سازشی نظریات ہیں کہ ان سے حقیقت کا کھوج لگانا مشکل ہے۔ ان سازشی نظریات میں عام طور پر امریکہ، مغرب، اسرائیل اور زیادہ تر بھارت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ سازش کا یہ مرض صرف غیر تعلیم یافتہ لوگوں تک محدود نہیں، اکثر پڑھے لکھے اور اشرافیہ حضرات بھی ان نظریات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اگر ہم سازش کے اس مرض کی نفسیات کا تجزیہ کریں تو یہ بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ اس میں ہم ہر منفی واقعہ اور نتیجہ کی وضاحت تلاش کرلیتے ہیں جسے ہم پسند نہ کرتے ہوں اور جس سلسلے میں ہم کوئی مثبت تبدیلی لانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ یہ نظریات فرار کی ایسی پناہ گاہ ہیں جو ہمیں روح و قلب کی تکلیف سے آرام، کتھارسس اور تسکین فراہم کرتے ہیں۔ جس چیز سے وہ بچاتے ہیں یا جو کچھ وہ چھپاتے ہیں وہ مشقت کا راستہ ہے۔ سازش کے نظریات میں پناہ ڈھونڈنے والے اپنی تمام غلطیاں اور ذمہ داریوں کے اسباب سازشیوں کو قرار دے دیتے ہیں جو ولن ہیں اور خود کو سازش کا معصوم شکار تصور کرکے اپنے دکھوں کا تمام الزام سازشیوں پر تھونپ دیتے ہیں۔
سفارتکاری کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر قوم اپنے بہترین قومی مفاد میں عمل کرتی ہے۔ اس لئے کسی دوسری قوم سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس کے مفادات کا خیال رکھے گی، بین الاقوامی سیاست کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ قومیں ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں لیکن یہ سب کچھ ان کے اپنے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اس لئے جو کچھ ایک قوم کا قومی مفاد ہے وہ چند مشترکہ مفادات کے سوا کسی دوسری قوم یا معاشرے کو اپنے خلاف سازش دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں آمریت کی طویل تاریخ کی وجہ سے ہم نے سازشی نظریات کا ایک طاقتور کلچر تخلیق کرلیا ہے کیونکہ اطلاعات کی کمی اور کمزوری اس کلچر کے اصل محرک ہیں۔ ہم اپنے مسائل کی اصل وجوہ کا پتہ لگانے کی کوشش کم ہی کرتے ہیں۔ 62 سال گزرنے کے بعد بھی ہم بہت معمولی خودمختاری کے ساتھ ابھی تک غربت، ترقی سے محرومی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں جس نے ہماری روح اور جسم کو چھلنی کردیا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم کسی کو مورد الزام ٹہرائیں ہمیں تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ اس موضوع پر دستیاب لٹریچر میں عروج اور زوال کی بہت سی توضیحات دی گئی ہیں۔ ان میں بعض عوامل منفرد اور بعض اپنی نوعیت کے اعتبار سے عمومی ہیں۔ تاریخ کا اصول یہ ہے کہ خودمختاری، خوشحالی اور ترقی قوموں کو خیرات میں نہیں ملتے اور نہ امداد کے طور پر دستیاب ہیں۔ وقار، خوشحالی اور ترقی قومیں اپنی محنت شاقہ سے حاصل کرتی ہیں۔ وہ سات عوامل یہ ہیں: (1) قیادت اور بصیرت، (2) علم اور مہارت، (3) انصاف اور امن، (4) حکمرانی اور اہلیت، (5) مستعدی اور سخت محنت، (6) دیانت داری اور اعتبار، (7) ٹیم ورک اور مشترکہ مساعی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قوموں کو کیسے بھی حالات درپیش ہوں یا انہیں کیسے وسائل دستیاب ہوں، لیکن مندرجہ بالا سات عوامل ان کی مستقبل کی خوشحالی کا تعین کرتے ہیں اورکامیابی کی کنجی ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان آج جس مقام پر ہے اور کل جہاں ہوگا اس کا اظہار اس سے ہوگا کہ بطور قوم ہم کیا منتخب کرتے ہیں۔ ایک کامیاب شخص یا قوم اور ایک ناکام شخص یا قوم کے درمیان فرق کا انحصار اس کے یقین اور تصور زندگی پر ہے۔کامیاب افراد اور گروپس اپنے ہر عمل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جبکہ ناکام افراد اور گروپس اپنی ناکامی کی ذمہ داری حالات اور دوسروں پر تھونپ دیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں عوام کا طریقہ عمل بے حد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے اپنے ایجنڈے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور مستقبل کی راہ متعین ہوتی ہے۔ اس لئے ہر معاشرے کے لئے بنیادی سوچ یہ ہونی چاہیئے کہ اس کے عوامی مکالمہ کے ایجنڈے کو کس طرح تشکیل دیا جائے گا۔ اگر ہم یہ یقین رکھیں کہ ہمارے تمام مسائل دوسروں کی جانب سے ہمارے خلاف کچھ گہری سازشوں کی وجہ سے ہیں تو اس سوچ کا بدیہی نتیجہ یہ نکلے گا کہ دوسرے ہمارے ساتھ غیر منصفانہ اور شیطانی سلوک کرتے ہیں۔ اس دلیل سے ہم اپنے احتساب اور ماضی، حال اور مستقبل کے تجزیہ کرنے کی بصیرت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ جاننے کے لئے ہم جس حال میں ہیں، کیوں ہیں؟یہ ضروری ہے کہ ہم ترقی اور پیش رفت کے مندرجہ بالا سات عوامل کی روشنی میں اپنے حالات کا تجزیہ کریں۔
پہلا عامل بصیرت اور قیادت ہے۔ بصیرت اور قیادت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ بصیرت سے محروم قیادت محض ایک گول دائرے میں سفر کرتی ہے اور قیادت کے بغیر بصیرت محض ایک مجرد حقیقت ہے۔
چھوٹی بڑی کامیابیوں کی تمام کہانیاں زور آور مشترکہ بصیرت اور مستقل مزاج اور اہل قیادت کے اشتراک سے جنم لیتی ہیں۔ بصیرت کسی تنظیم یا معاشرہ کی منزل مقصود کا تعین کرتی ہے۔ واضح بصیرت کے بغیر معاشرہ مختلف سمتوں میں بھٹکتا رہتا ہے اور اپنی مساعی کو برباد کردیتا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کی کہانی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہ آزادی، جمہوریت، خوشحالی اور سماجی انصاف کے ساتھ اسلام کے عالمی اصولوں کا تصور ہی تھا جس نے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو تحریک پاکستان کے لئے منظم کیا اور قائداعظم محمد علی جناح کی متحرک اور اہل قیادت نے اس خواب کو سچ کر دکھایا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی جلد وفات اور طاقتور سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اس نوزائیدہ ریاست کو ہائی جیک کرلیا ۔ اس وقت سیاسی ادارے کمزور اور تکمیل کے ابتدائی مرحلے میں تھے۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان کے قیام کا بنیادی تصور دھندلا گیا اور اس کی جگہ مقامی سوچ اور سیاست حاوی آگئی۔ ہمارے فوجی ڈکٹیٹرز33سال تک قانون اور ادارہ جاتی حاکمیت کے ساتھ بربادی کا کھیل کھیلتے رہے جس کا نتیجہ وفاق کی کمزوری کی شکل میں نکلا اور مختلف ریجنوں اور گروپس کے درمیان دولت کی غیر مساوی تقسیم نے پاکستان کے بنیادی تصور قیام کو مزید دھندلادیا۔ ہمارے جج فوجی آمروں کو حاکمیت کا جواز فراہم کرتے رہے، ہماری بیوروکریسی ان کی خدمت کرتی رہی اور ہمیشہ سے اقتدار کے بھوکے سیاستداں ان کے پیچھے دوڑتے رہے جبکہ عوام اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے رہے۔ کیا یہ سب ہمارے خلاف کسی سازش کا نتیجہ تھا یا پاکستان کے قیام کے بنیادی مقاصد سے انحراف کے خلاف مزاحمت میں اجتماعی ناکامی اس کا سبب تھی؟
دوسرا عامل علم اور مہارت ہے۔ وہ معاشرے جو انسانی وسائل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور طاقتور دانش ورانہ انسانی سرمایہ کو ترقی دیتے ہیں ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ترقی ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ انسان مواقع اور چیلنجوں سے آگاہ ہوتے ہیں، ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں اور پھر منظم کارروائی شروع کرتے ہیں۔اس سے علم، وجدان اور پھر تحریک عمل کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ انسان علم حاصل کرتے ہیں تو مواقع اور چیلنجوں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ جب علم پختہ ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ ترغیب اور تحریک کی شکل میں نکلتا ہے اور جو علم کو عمل میں بدل دیتی ہے۔ مواقع کتنے ہی بڑے ہوں یا طلب کتنی ہی شدید ہو بغیر علم کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ترقی کے ابتدائی مرحلوں میں زمین اور معدنیات ترقی کے بنیادی وسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علمی اہلیت نامکمل ہو تو انسان اپنی جسمانی محنت کو اصل قدر سمجھتے ہیں۔ آج ترقیاتی عمل میں اطلاعات اور علم بنیادی شے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام اقتصادی سرگرمیاں علم پر بنیاد رکھتی ہیں۔
اس اعتبار سے ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ ہمارا انسانی ترقی کے اشاریہ میں 171 قوموں کے درمیان 141 واں نمبر ہے اور سات جنوبی ایشیائی ممالک میں ہم چھٹے نمبر پر ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام پرائمری سے لیکر اعلی تعلیم تک کثیر طبقاتی نظام کے ساتھ سب سے کم تعلیمی بجٹ کا حامل ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہمیں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے اور ہماری یونیورسٹیوں میں اعلی معیار کی سائینسی تحقیق سے روکتا ہے؟ اگر ہماری آدھی آبادی ناخواندہ ہے اور ہمارے ملک میں دنیا کا بدترین امتیازی تعلیمی نظام نافذ ہے جس میں کسی ہنر مندی کے بغیر بے مقصد تعلیم دی جاتی ہے تو اس کا الزام کس کو دیا جائے؟
تیسرا عامل انصاف اور امن ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ حقیقی امن محض تناوٴ کی عدم موجودگی نہیں۔ یہ انصاف کی موجودگی سے عبارت ہے۔ انصاف اور امن کسی ایسے ماحول کی پیشگی شرط ہیں جو کسی معاشرے میں سرمایہ کاری اور ٹیلنٹ کو دعوت دیتی ہے۔ انصاف کی عدم موجودگی کا مطلب قانون کی حکمرانی سے محرومی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے جنگل بن جاتے ہیں جس میں طاقت حاکم ہوتی ہے جس کا نتیجہ فساد اور انارکی کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایسے ماحول میں معاشرہ ترقی کے لئے لازم شرط یعنی استحکام اور امن پیدا کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ ہمارے آج کے زیادہ تر مسائل قانون کی حکمرانی کے قیام میں ناکامی کا نتیجہ ہیں جو فوجی آمروں کے عدلیہ اور آئین کے ساتھ کھیل کھیلنے کا بدیہی نتیجہ ہے۔ سماجی انصاف ہمارے قیام کے بنیادی اصول کی پہلی اینٹ ہے۔ اگر ہم عدم مساوات، بے انصافی اور تنازعات کا شکار ہیں تو یہ کس کا قصور ہے؟ ان تمام ملکوں میں جنہیں ہم سازشی قرار دیتے ہیں سربراہان مملکت کے خلاف مقدمے چلائے جا سکتے ہیں لیکن ہم اپنے سابق صدر اور ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا مشکل سمجھ رہے ہیں۔
چوتھا عامل حکمرانی اور اہلیت ہے۔ اچھی حکمرانی کسی معاشرے کے لئے اپنے مقاصد کے تعین اور حصول کی اہلیت اور طریقہ عمل ہے۔اچھی حکمرانی میں 8 بڑی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ شراکتی ہوتی ہے، اس کی بنیاد اہلیت پر ہوتی ہے، اس کا احتساب کیا جاسکتاہے ۔ یہ شفاف ، موثر اور غیر معمولی کارکردگی کی حامل، مساوی مواقع اور قانون کی پابند ہوتی ہے۔ یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ کرپشن کم سے کم ہو اور معاشرے کے کمزور ترین طبقات کی آواز فیصلہ سازی میں سنی جائے۔ یہ معاشرے کی حالیہ اور مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ جب اچھی حکمرانی معیشت میں مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی تعمیر میں مدد دیتی ہے تو اہلیت کا اعتراف اچھی کارکردگی کے بلند ترین معیار کی ضمانت ہے۔ اچھی حکمرانی کے عالمی اشاریہ کے مطابق پاکستان 179 ملکوں میں 162 ویں نمبر پر ہے اور افغانستان سے بھی پیچھے ہے۔ اگر ہم مندرجہ بالا معیار کے مطابق اپنے ملک میں اچھی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام ہیں تو کیا یہ خود ہماری اپنی پسند اور انتخاب کے مطابق نہیں ہے؟ خراب حکمرانی کے نفاذ میں کسی غیرملکی ہاتھ کی مداخلت کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔
پانچواں عامل مستعدی اور سخت محنت ہے۔ طاقتور اور مستحکم معاشروں کی بنیاد کامیاب معیشتوں پر ہوتی ہے اور کوئی معیشت استعدادی جذبے اور محنت شاقہ کے بغیر خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔ اس کی کافی تجربی شہادت موجود ہے کہ وہ معاشرے جو مستعد کوششوں کی اعلی سطح کا مظاہرہ کرتے ہیں زیادہ جدید اور کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح سخت محنت کا کوئی بدل نہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ انسان وہی حاصل کرتا ہے جس کے لئے وہ محنت کرتا ہے۔ کیا کسی غیر ملک نے کبھی ہم سے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کے لئے مستعدی کا مظاہرہ نہ کریں، اپنے دفتروں، تعلیمی اداروں، فیکٹریوں، اور پیشوں میں سخت محنت نہ کریں؟ آج عالمی معیشت میں قوموں کے درمیان رکاوٹیں دور ہورہی ہیں اور قوموں کی مسابقانہ اہلیت کا تعین پیداواریت اور معیار کے عالمی بنچ مارکس کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے معاشرے میں عالمی معیار کے کاروباری اداروں کی ترقی، خوبیوں کی افزائش اور پیداواریت کے فروغ اور ایسے ماحول کی تخلیق کے لئے کیا کیا؟ جس میں لوگوں کو اعلی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب ملے۔
چھٹا عامل دیانت داری اور اعتبار ہے۔ ترقی کے دو پہلو ہیں۔ ہارڈویئر اور سوفٹ ویئر۔ جبکہ طبعی انفرا اسٹرکچر کی بنیاد کسی معاشرے کی اخلاقیات اور اقدار پر ہوتی ہے جس سے سماجی روئیے اور سماجی سرمایہ جنم لیتا ہے اور اسی سے کامیابی کی سطح کا تعین ہوتا ہے۔ سماجی سرمایہ کی تعریف غیر رسمی اقدار یا روایات کے مجموعے سے کی جاسکتی ہے جو گروپ کے تمام ممبروں کے درمیان مشترک ہو اور جو ان کے باہمی تعاون اور مل کر کام کرنے کا سبب ہو۔ یقینی طور پر اعتماد کے سرمایہ کی سطح باہمی تعاون اور تشفی کے فروغ میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ گروپ کے ممبروں کے درمیان اعتبار باہمی احترام، مخلصانہ سودوں اور برداشت سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے کاموں اور باہمی برتاوٴمیں کتنی دیانت اور اخلاص ہے؟ کیا کسی سازشی قوم نے ہمیں ملاوٹ کرنے، ناانصافی کے مظاہرے اور اپنے برتاوٴ اور سودوں میں عدم اخلاص کا مشورہ دیا ہے؟
ساتواں عامل ٹیم ورک اور مشترکہ مساعی ہے۔ جیسا کہ ہنری فورڈ نے کہا تھا کہ ایک ساتھ جمع ہونا ابتدا ہے اور اتحاد برقرار رکھنا ترقی ہے۔ اعلی ترین کارکردگی کی حامل تنظیمیں اور معاشرے اپنے ممبروں کی بہترین انفرادی صلاحیتوں کو اجتماعی مسابقت میں اس طرح تبدیل کرتے ہیں کہ ان کی اجتماعی کوششیں انفرادی کوششوں کے میزان سے بڑھ جاتی ہیں جس کے معنی نظام میں مثبت مشترکہ کوششیں اور ہم آہنگی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ نئی معیشت میں کام کا بنیادی یونٹ ٹیم ہے فرد نہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ قوموں کی اجتماعی حرکیات ان کی کامیابی کے لئے فیصلہ کن ہیں۔ ہم اجتماعی کوششوں میں کس حد تک اچھے ہیں؟ کیا کسی غیرملکی طاقت نے ہمیں منتشر کرکے تقسیم کیا ہے اور ایک متحد قوم اور برادریوں کے طور پر مل کر کام کرنے سے منع کیا ہے؟
اگر ہم مندرجہ بالا ساتوں عاملوں پر نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ اپنی ناکامی کے ہم خود تنہا ذمہ دار ہیں۔کوئی ہمارے خلاف سازش نہیں کررہا ہے ہم خود اپنے خلاف سازشوں کے قصور وار ہیں۔ دوسروں پر الزام تراشی کرنے کے بجائے ہمیں اپنی خامیوں پر توجہ دینی چاہیئے اور اپنی قسمت کی خرابی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔ ایک معزز، طاقتور اور خوشحال قوم بننے کا یہی ایک طریقہ ہے۔