صدر بارک اوباما نے اپنی نئی ”افغان پالیسی“ کا اعلان کر دیا ہے۔ ملٹری اکیڈمی میں کھڑے ہو کر صدر اوباما نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے وہ دن ملٹری اکیڈمی سمیت امریکہ کی تاریخ کا یاد گار دن کہلائے گا جب کہ ہمارے نزدیک یہ دن (2 دسمبر 2009ء )جسے آج فتح کی امید سے منسوب کیا جا رہا ہے ذلت آمیز شکست کا بدترین دن ثابت ہو گا جس کا احساس اس وقت ہو گا جب صدر اوباما کا دور صدارت مکمل ہونے کو ہو گا مگر اس دوران افغانستان سے انخلاء مکمل ہو گا اور نہ ہی فتح مکمل ہوگی۔
عزیز ہم وطنو اور اسلامی دنیا کے بھائیو! آئیے اوباما کی افغان پالیسی کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں… صدر اوباما کی افغان پالیسی چار اہم نکات پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج میں اضافہ کیا جائے گا (جو ابتدائی خبروں کے مطابق 30 ہزار سے 50 ہزار تک بڑھائی جا سکتی ہے) دوم پاکستان میں ڈرون حملے تیز کئے جائیں گے، سوم خفیہ کارروائیاں بھی بڑھائی جائیں گی اور چہارم یہ کہ 2011ء سے فوج کی واپسی شروع ہو جائے گی۔
آخری بات سفید جھوٹ ہے،2011ء یا اس کے بعد تک فوج کی واپسی یعنی انخلاء کا کوئی پروگرام نہیں بلکہ افغانستان کی جنگ کو مزید طول دیکر پاکستان اور ایران پر حملے کا پروگرام ہے۔ امریکہ کی خفیہ پالیسی میں پاکستان اور ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس کے لئے افغانستان کے اندر مزید فوج اتارنے اور غیر قانونی قبضہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ افغانستان میں اب کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی کہ جس کو تباہ کرنے کے لئے افغانستان میں مزید رکا جاتا حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کو پاکستان اور ایران پر حملوں کے لئے ”بیس“ بنایا جا رہا ہے۔ افغان پالیسی کا پہلا نکتہ جس میں فوج بڑھانے کے بات کی گئی ہے اور آخری نکتہ جس میں فوج نکالنے کی بات کی گئی ہے دو الگ الگ نکتے نہیں بلکہ ایک ہی نکتہ ہے کہ افغانستان میں مزید فوج بڑھائی اور غیر معینہ مدت تک رکھی جائے گی… دوسرانکتہ کہ پاکستان کے اندر ڈرون حملے تیز کئے جائیں گے اوپر کئے گئے تجزیئے کی تائید ہے کہ پاکستان پر حملہ ہوگا ڈرون حملے پاکستان کی آزادی ، سلامتی اور خود مختاری پر براہ راست حملے ہیں، حکومت پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے باوجود حملے جاری رکھنے کی بات کی گئی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ اب میدان جنگ افغانستان سے آگے پاکستان کے قبائلی علاقے (صوبہ سرحد) اور کوئٹہ (بلوچستان) تک پھیل جائے گی لہٰذا اس حوالے سے یہ بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی طاقت اور اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ خفیہ کارروائیاں بڑھانے کا ہے۔ صدر اوباما کی افغان پالیسی کا یہ تیسرا نکتہ درحقیقت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ہے۔ خفیہ کارروائیاں بڑھانے کے فیصلے سے ان الزامات، خدشات اور خبروں کی بھی تصدیق ہو گئی ہے کہ پاکستان میں امریکی خفیہ ایجنسیوں ایف بی آئی، سی آئی اے اور بلیک واٹر ایجنٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے کیونکہ خفیہ آپریشن خفیہ ایجنسیاں ہی کیا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ امریکی ایجنسیوں کی خفیہ کارروائیوں میں ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اہم اور حساس مقامات پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیاں بھی شامل ہوں گی۔
صدر بش سمیت ریپبلکن کی شکست اور صدر اوباما سمیت ڈیموکریٹس کی کامیابی کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ امریکہ کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم پر مبنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ افغانستان اور عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی ہوگی، فلسطین، چیچنیا اور کشمیر جیسے تنازعات کو حل کرانے میں مدد ملے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ فلسطین، چیچنیا اور کشمیر جیسے تنازعات تو جوں کے توں نہ صرف موجود ہیں بلکہ انہیں مزید الجھایا جا رہا ہے تاکہ مذکورہ خطوں کے مسلمان عوام بدستور بھارت، روس اور اسرائیل کے غلام رہیں تاہم ان سے بڑھ کر امریکہ خود بھی ان توقعات پر پورا نہیں اترا کہ جو افغانستان اور عراق سے اتحادی افواج کے انخلاء کے حوالے سے کی جا رہی تھیں۔ صدر اوباما کی افغان پالیسی کو دیکھ کر یقینا عالمی برادری کو بھی افسوس ہوا ہوگا کہ جو ”عالمی امن“ کیلئے صدر اوباما کی افغان پالیسی کا انتظار کر رہی تھی اسی طرح سے افغانستان اور پاکستان سمیت تمام عالم اسلام سے وابستہ مسلمان عوام کو بھی صدمہ پہنچا اور مایوسی ہوئی کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ نہ جانے کب تک مسلمانوں کو کچلنے اور اسلامی ممالک کو نقصان پہنچانے کے لئے جاری رہے گی۔
بہرحال ”افغان پالیسی“ کے سامنے آجانے کے بعد صدر اوباما سے اب مزید کوئی بہتری کی توقع رکھنا یا انہیں کوئی مشورہ اور دلیل دینا بے سود اور بے کار ہو گا کیونکہ افغان پالیسی کا مشاہدہ بتا رہا ہے کہ اس کو ترتیب دیتے وقت طاقت کے نشے میں جن حماقتوں کو ظاہر اور بدنیتی پر مبنی جن ارادوں کو چھپا کر رکھا گیا ہے ان کا انجام دیکھے بغیر واہٹ ہاؤس اور پینٹا گون کے جنگی جنونی کوئی معقول بات سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ وقت بہت کم ہے مگر صدر اوباما اور ان کے ساتھیوں نے زمینی حقائق پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ یہ تاریخ سے سبق حاصل کیا۔مذاکرات اور انخلاء کے بہترین فیصلوں اور محفوظ راستوں کو چھوڑ کر مزید جارحیت اور حملوں کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اس لئے اب یہ مجبوری ہے کہ صدر اوباما ان کے جرنیلوں کو ان کی پسند کے راستے پر ہی خوش آمدید کیا جائے۔
صدر اوباما ڈپلومیٹک الفاظ کے ذریعے اپنے عزائم اور ارادوں کو جتنا بھی چھپانا چاہیں وہ چھپ نہیں سکتے کیونکہ افغانستان میں موجود امریکی فوج اس کے آپریشنز اور ڈرون حملے صدر اوباما کے چہرے کا نقاب اتارنے اور افغان پالیسی کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں لہٰذا اس صورتحال میں صدر اوباما کو ہمارا یہ آخری پیغام ہے کہ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے اندر جہاں بھی میدان جنگ کا انتخاب کیا ہے وہیں پر ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ افغانستان اور پاکستان کے بہادر عوام نڈر اور جذبہ شہادت سے سرشار اسلامی اور جہادی قوتیں حملہ آور غیر ملکی افواج کا ہر اس جگہ تعاقب اور سامنا کریں گی کہ جہاں جہاں انہیں موجود پائیں گے۔ کون کب اور کہاں سے انخلاء کرے گا اس کا فیصلہ اب میدان جنگ میں ہوگا۔