گزشتہ روز ”ایک اچھی خبر اور ایک بری خبر“ کے زیر عنوان بتایا گیا کہ صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے سابق جج رانا بھگوان داس سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے کا حلف لیا اور وزیر صنعت و پیداوار میاں منظور احمد وٹو کو وفاقی وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات بنا دیا گیا ہے۔ یہ معلوم کرنے میں کچھ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی کہ ان دونوں خبروں میں سے اچھی خبر کون سی ہے اور بری خبر کون سی قرار دی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی خبر کسی کے لئے یا کچھ لوگوں کے لئے ”اچھی“ اور کسی کے لئے یا کچھ لوگوں کے لئے ”بری“ ثابت ہوسکتی ہے مگر اب تو خبروں کے اچھی یا بری ثابت ہونے سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا جاتا ہے اور اس فیصلے کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے کہ کون سی خبر اچھی ہے اور کون سی خبر بری ہے۔ غالباً اسی سوچ کے تحت یہ محاورہ وجود میں لایا گیا ہے کہ ”بد اچھا بدنام برا“۔
ٹیلیویژن کے ایک چینل پر مذکورہ بالا اچھی اور بری خبریں سنائی جا رہی تھیں اور خاصے لوگ یہ خبریں سن رہے تھے جب جسٹس رانا بھگوان داس کے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے کا حلف لینے کی خبر سنائی گئی تو چند ایک لوگوں نے اس اچھی خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے تالیاں بجائیں اور جب وفاقی وزیر صنعت و پیداوار میاں منظور احمد وٹو کو وفاقی وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات دینے کی خبر سنائی گئی تو ایک کونے سے آواز آئی۔ ”کشمیر بنے گا دیپالپور“ اگرچہ لوگوں کے ذہنوں میں تصور کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا مگر جب حضرت مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا یا نامزد کیا گیا تو کسی نے بھی کشمیر کے ڈیرہ اسماعیل خان بننے کی بات نہیں کی تھی یا جب مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خاں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہوتے تھے تو ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کو نوابزادہ نصر اللہ خاں کے آبائی شہر میں تبدیل کرنے یا تبدیل ہونے کا شبہ ظاہر نہیں کیا گیا تھا ۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ میاں منظور احمد وٹو ہمارے قومی سیاستدانوں میں بہت زیادہ منفی شہرت کے مالک ہیں کیونکہ اس میدان میں بیشتر لوگوں کی منفی شہرت ان سے کہیں زیادہ اوپر کے ریکارڈ میں ہوگی لیکن جس عہد میں میاں منظور احمد وٹو کو وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کا قلمدان دیا گیا ہے وہ شکوک و شہبات کی سب سے زیادہ گہری گٹھاؤں کا موسم ہے جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ سرخ اور کالے دھاگے میں تو کیا سفید کالے دھاگے میں بھی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ فیصلے پہلے صادر فرما دیئے جاتے ہیں مقدے بعد میں درج کئے جاتے ہیں۔ بے شمار بے بنیاد افواہیں ٹھوس بنیادوں پر استوار دکھائی دیتی ہیں اور ان گنت صداقتیں اپنے چہرے چھپائے پھرتی ہیں۔ انتہائی بھیانک الزامات بہت خوشدلی اور خندہ پیشانی سے درست تسلیم کرلئے جاتے ہیں اور دل و دماغ میں دھڑکتی ہوئی سچائیاں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ سیاسی قتل کی وارداتوں کو ”کرپشن“ کے زمرے سے نکالتے وقت کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہوتی چند روز پہلے تک کے ”نان ایشوز“ چند روز بعد کے اہم ترین قومی اور ملکی مسائل میں تبدیل کرلئے جاتے ہیں۔ بینکوں کے اربوں کھربوں روپے کی مالیت کے قرضے شیر مادر کے طور پر غٹا غٹ پی لینے کے بعد حب الوطنی اور قوم پرستی کے ڈکار لئے جاتے ہیں اور واصف علی واصف مرحوم کی خداوند کریم کے سامنے یہ دعا یا درخواست یاد آتی ہے کہ ”اے خدا! اسلام کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ“۔
خود کش حملہ آوروں کی صورت میں دہشت گردی کی وارداتوں سے پہلے ان کالموں میں یہ خیال درج کیا گیا کہ خودکشی کی ننانوے فیصد وارداتیں دراصل قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے زندہ رہنے کے امکانات اور سہارے اس قدر معدوم اور ناپید کر دیئے جاتے ہیں کہ ان کے پاس مینار پاکستان پر چڑھ کر وہاں سے کود جانے، اپنے آپ کو دریا کی لہروں کے سپرد کردینے، چھت کے پنکھے کے ساتھ بندھی رسی کے ساتھ لٹک جانے، زہر پھانک لینے یا کنپٹی پر پستول کی نالی رکھ کر لبلبی دبا دینے کے علاوہ صرف ریل کی پٹڑی پر سر رکھ دینے کاراستہ ہی بچتا ہے۔ خودکش حملہ آوروں کی صورت میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والے طالبان بھی اپنے استادوں اور سرپرستوں کے لئے زندہ رہنے کے امکانات اور سہارے اس قدر معدوم اور ناپید کرتے جا رہے ہیں کہ ان کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ بچے مگر سوچنے کی بات ہے کہ خودکشی کا راستہ تو کوئی راستہ نہیں ہے۔
ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ”لاہور فلم اینڈ لٹریری کلب“ کے پندرہ روزہ ”پنجابی لٹریری سرکل“ کا افتتاح کرنے کے لئے لندن سے عالمی شہرت کے پنجابی شاعر امرجیت چندن لاہور آئے ہوئے تھے۔ یہ وہی شاعر ہیں جنہوں نے امین مغل کو مشورہ دیا تھا کہ:
پیارے امین مغل میاں جی!
تسی مچھی نہ کھایا کرو
مچھی عقل ودھاؤندی اے، سرنوں تنگ کر دی اے
تہاڈا عقل خزانہ وادھو
مورکھ تساں توں لین صلاحواں
تہانوں سمجھ ستایا
سوئی وچ وی دھاگہ نہ پایا کرو
پیارے امین مغل میاں جی
تسی مچھی نہ کھایا کرو
مذکورہ بالا تقریب میں امرجیت چندن نے بہت ساری نظمیں سنائیں جو کہ بہت ہی دلچسپ اور فکر افروز تھیں اور جن کو امرتا پریتم سے آگے کی شاعری بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ عالمی شہرت کے اس شاعر کی ایک نظم لاہور شہر کی سیڑھیوں کے بارے میں بھی ہے:
’لہور دیاں پوڑیاں“
بڑیاں انہریاں
لہور دیاں پوڑیاں
سوکھیاں تے اوکھیاں
بڑیاں ای سوڑیاں
لہور دیا پوڑیاں
اک پیر وڈا
ایک پیر چھوٹا
پیڑھی ہی ہے اکو
اچیاں تے نویاں
سلھیاں تے سلابیاں
لہور دیاں پوڑیاں
چڑھدیاں ای جاندیاں
کتھے کتھے پہنچدیاں
لہور دیاں پوڑیاں
پیریں وچھ جاندیاں
لہور دیاں پوڑیاں
شاہ جی دیاں نظماں
لہور دیاں پوڑیاں
یاداں مشکاندیاں
لہور دیاں پوڑیاں
جھوک رانجھن نوں جاندیاں
لہور دیاں پوڑیاں