• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاک امریکہ تعلقات، افغان جنگ کے تناظر میں پاکستان سے بڑھتے ہوئے مطالبات، ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور ڈرون حملوں ایسے سنجیدہ مسائل پر جس دوٹوک انداز میں اپنے موقف کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکومت کافی عرصہ تک ان حساس قومی معاملات کے بارے میں گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد اب اپنی پالیسیوں کو ایک واضح رخ دے رہی ہے جو علاقائی و عالمی سطح پر اس کے وقار میں اضافہ کرنے کا موجب ہی نہیں ہوگا بلکہ اندرون ملک پائے جانے والے تذبذب کا ازالہ کرنے کا باعث بھی ہوگا۔
وزیراعظم نے اپنے اس بھرپور پالیسی بیان میں پاک امریکہ تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے لیکن واشنگٹن نے ہر نازک مرحلے پر ہمارا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی ہونے کے باوجود آج ہمیں پھر اسی صورتحال کی جھلک نظر آ رہی ہے کہ پہلے ہم سے ”ڈومور“ کے تقاضے کئے جاتے رہے ہیں اور اب سٹریٹجک پارٹنر شپ میں شراکت کی نوید سنائی جارہی ہے حالانکہ یہ حقیقت ہر صاحب ِ بصیرت پر عیاں ہے کہ امریکہ ہماری مدد کے بغیر افغانستان میں جنگ لڑسکتا ہے اور نہ اسے جیت سکتا ہے۔
اسی طرح ایٹمی مسئلے پر بھی اس کا زاویہ نگاہ پاکستان سے امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ بھارت سے تو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے کو آگے بڑھانے کی فکر میں ہے لیکن پاکستان کو پابندیوں کی زد میں لایا جارہا ہے۔ جبکہ ہم کھلے الفاظ میں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔اسی طرح انہوں نے ڈرون حملو ں کے بارے میں بھی برملا یہ کہا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان کی وجہ سے دہشت گردوں اور مقامی لوگوں کو اکٹھا ہونے کاموقع مل رہا ہے ۔وزیراعظم نے پاک امریکہ تعلقات کی 60 سالہ طویل تاریخ کے پس منظر میں کسی قدر خفگی کے ساتھ مگر دوستانہ لہجے میں امریکی ارباب ِ اختیار سے جو شکوہ کیا ہے وہ بالکل بجا اوربرمحل ہے کیونکہ سابق سوویت یونین کی افغانستان پر کی جانے والی یلغار کی مزاحمت سے لے کر دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت تک ہر عہد میں پاکستان نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر امریکہ کے عالمی مفادات کے تحفظ میں کوئی کمی نہیں کی لیکن اس کے جواب میں امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی زبانی کلامی حمایت کا دعویٰ تو ضرور کیا ہے لیکن عملاً اس کے سارے وعدے الفاظ کی بہار اور معنی کے خزاں کے مصداق ہی رہے ہیں۔
مصر نے معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کرانے کے بدلے میں امریکہ اوراس کے مالیاتی اداروں سے تمام قرضے معاف کروا لئے لیکن افغان جنگ میں اپنے آپ کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دینے کے باوجود وطن عزیز کو واشنگٹن کی طرف سے ایسی کوئی رعایت نہ دی گئی بلکہ اس معرکے میں دامے درمے سخنے ہر طرح کی مدد دینے کے بعد بھی اسلام آباد کو اس قدر تھوڑی اور حقیر امریکی امداد کی پیشکش کی گئی کہ جنرل ضیا الحق مرحوم نے اسے مونگ پھلی کہہ کر رد کر دیااور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے اور امریکی عمائدین کی جانب سے یہ تسلیم کرنے کے باوصف کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ پاکستان کے تعاون و اشتراک کے بغیر کبھی جیتی نہیں جاسکتی ،نہ تو پاکستان کے پرانے قرضے معاف کئے گئے ہیں نہ ہی اسے بڑے پیمانے پر مالی امداد ہی دی جارہی ہے بلکہ اس کے بالکل الٹ ہو یہ رہا ہے کہ اگر وہ اپنے توانائی کے سنگین ترین بحران کو کم کرنے کیلئے کسی دوسرے ملک سے کئے جانے والے سمجھوتے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوئی پیش رفت کرتا ہے تو اس کی راہ میں بھی روڑے اٹکاتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اگر وہ یہ راستہ تر ک کردے تومتبادل ذرائع سے اس کی ضروریات کو پورا کردیا جائے گا۔ اس قسم کے حربے استعمال کرکے کسی دوسرے ملک کو اپنے مفادات کے لئے مہرے کے طورپر استعمال کرنا اخلاقی طور پر درست ہے نہ بین الاقوامی آداب ِ سیاست میں اس کی اجازت ہے لیکن امریکہ یہ سب کچھ کر رہا ہے اورپاکستان پر ایران سے گیس کے معاہدے سے دستبرداری کے لئے جو دباؤ ڈالا جارہا ہے وہ اسی طرز عمل کی تازہ ترین مثال ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کے بارے میں وزیراعظم نے جو اعلان کیا ہے وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے کیونکہ پاکستان نے یہ جوہری ہتھیار محض ایٹمی طاقت بننے کے شوق میں نہیں بلکہ اپنے دفاع کے ناگزیر تقاضے پورے کرنے کے لئے بنائے ہیں اور یہ قدم بھی اس نے اس وقت اٹھایا جب اس کے ہمسائے بھارت نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرکے اس کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کردیئے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر ملک کو اپنی بقا اور سلامتی کے لئے ہر فیصلہ کرنے کی اجازت ہے تو پاکستان کے یہ راستہ اختیار کرنے پر واویلا کیوں مچایا جاتا ہے۔ پاکستان نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی تشکیل دے کر اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کا ایک ایسا ناقابل تسخیر انتظام کیا ہے کہ امریکی حربی ماہرین سمیت دنیا بھر کے جنگی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا کوئی امکا ن نہیں لیکن اس کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ سے لے کر ان کے سنیٹرز اور کانگریس مین تک آئے دن پاکستان کے ان اثاثوں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کے بے جا خدشات کوخواہ مخواہ ہوا دیتے رہتے ہیں جس سے ان شبہات کوتقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے اور پلاننگ کے تحت کیا جارہا ہے اور خود بعض امریکی حلقوں کے عزائم ان کے بارے میں نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ اگر قبائلی علاقوں میں امریکی بھارتی افغان اور اسرائیلی آشیرواد سے پروان چڑھنے والی دہشت گردی کو اس کا شاخسانہ قرار دیا جاسکتا ہے تو بھارت کے 25 سے زائد صوبوں میں علیحدگی کی جو پرتشدد تحریکیں چل رہی ہیں وہاں ایسا کوئی خطرہ کیوں نہیں ہوسکتا مگر حیرت ہے کہ امریکہ ان تمام خطرات سے آنکھیں موند کر بھارت کے ساتھ تو سول ٹیکنالوجی کے معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے دوسرے مغربی ممالک سے بھی جوہری ایندھن دلوانے کے جتن کر رہا ہے لیکن پاکستان کا پرامن ایٹمی پروگرام اس کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر حکومت ِ پاکستان اور اس کے عوام اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کیلئے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کے اسباب موجود ہیں اور اس پس منظر میں بدھ کے روز نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور رچرڈ ہالبروک کے درمیان ریڈ لائنز متعین کرنے کے بعد وزیراعظم کی طرف سے دیاجانے والا یہ بیان بہت خوش آئند ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان کا امیج بیرون دنیا میں واضح ہوگا بلکہ قوم کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
تازہ ترین