اسلام آباد(طاہر خلیل) پاکستان کے متغیر سیاسی منظرنامے میں یہ اہم پیشرفت تھی کہ پاکستان میں چارروز سے خالی چیف ایگزیکٹو کے منصب کےلئے قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا۔ وطن عزیز کی نحیف جمہوریت کے لئے یہ خوش کن لمحہ تھا ،ایوان کی راہداریاں اور گیلریاں مہمانوں سے کھچا کھچ بھری ہیں، گویا پورا مری پارلیمنٹ ہائوس پہنچا ہوا تھا۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت میاں نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد سے ملک کا نظم و نسق وزیراعظم اور حکومت کےبغیر کام کررہا تھا جو دستور پاکستان سے کھلا انحراف ہے۔
دستور پاکستان جمہوری عمل کے تسلسل کا تقاضا کرتا ہے، آئین کے آرٹیکل94 کے ذریعے اگر وزیراعظم مستعفی ہوجائے تو جمہوری تسلسل کی خاطر صدر مملکت مستعفی وزیراعظم سے نئے وزیراعظم کے انتخاب تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں لیکن دستور میں اس مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ اگر عدالت وزیراعظم کو نااہل قر ار دے تو جمہوری تسلسل کیسے برقرار رکھا جائے گا۔ شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے،ان کی حکومت قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں جو 11 اگست تک جاری رہے گا، انتخابی اصلاحات کا بل ترجیحی بنیادوں پر منظور کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس مرحلے پر منتخب نمائندوں کو درپیش نئے آئینی مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے اور نئی آئینی ترمیم منظور کرانا ہوگی تاکہ مستقبل میں ملک کو کسی ایسےآئینی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑےکہ ملک میں چیف ایگزیکٹو کا وجود ہی نہ ہو۔پارلیمنٹ میں منگل کو نئے قائدایوان کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی کے انتخاب سے ایک نئے سیاسی دورکا آغاز ہوا۔ شاہد عباسی نہایت معتدل اور دھیمے مزاج کی شخصیت کے مالک ہیں، ان کی شخصیت کا ہر پہلو نظم و ضبط کااحاطہ کرتا ہے۔ یہی وہ سبب ہے کہ پارلیمانی پارٹیاں یکساں طور پر ان کااحترام کرتی ہیں اور ان کی رائے کواہمیت دیتی ہیں۔
منگل کو جب پارلیمنٹ لاجز میں گورنر سندھ، خواجہ سعد رفیق، جنید انوار چوہدری کے ہمراہ ایم کیو ایم کے لیڈروں سے ملاقات ہوئی تو کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ایم کیو ایم نے ان کے حق میں دستبرداری کا فیصلہ کرلیا۔ایم کیو ایم کےلئے یہ اطمینان بخش بات تھی کہ ملک کے نئے وزیراعظم کی جائے ولادت بھی کراچی ہے۔ جمہوریت کےلئے شادمانی کے لمحات میں ایک نشست سپیکر چیمبر میں بھی جمی تھی جہاں سردار ایازصادق کے ساتھ چوہدری نثار علی خان، سینیٹر اسحق ڈار، زاہد حامد، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ،راجہ اشفاق سرور اور اپوزیشن جماعتوں کے کچھ ارکان بھی تھے۔نئے منتخب وزیراعظم نے پہلی تقریر میں واضح کردیا کہ وہ میاں نواز شریف کے نامکمل ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے ، وزیراعظم شاہدعباسی کا دوٹوک اظہار تھا کہ وہ 30 برس سے میاں صاحب کے ساتھ ہیں۔
اگر انہو ں نے رتی بھر کرپشن کی ہوتی تو وہ آج ان کے ساتھ نہ ہوتے، ان کی تقریر کا یہ پہلو تمام سیاستدانوں کے لئے قابل توجہ تھا کہ سیاست آج گالی بن چکی ہے اور سیاستدانوں کی خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے وہ ملک کے سیاسی کلچر میں شائستگی لائیں ایک دوسرے کے جذبات کااحترام کریں۔ رواداری،تحمل اور برداشت کے جذبوں کو فروغ دیں ،یہی جمہوریت اور ایوان کی کامیابی کاراستہ ہے ،مار دھاڑ، تصادم اورکشمکش سے ملک نہیں چلے گا۔نئے منتخب وزیراعظم نے پرائیویٹ عسکری لشکر ختم کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے میں ان کا ساتھ دیں تاکہ ملک کواسلحہ سے پاک کیا جائے جوشدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔