• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو ادوارِ حکومت میں پاکستان کے دو وزرائے اعظم کو عدلیہ نے نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ یوسف رضا گیلانی کا جرم توہین عدالت پر ملنے والی 30 سیکنڈ کی سزا ٹھہرا اور نواز شریف اقامہ ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں ناا ہل ہوئے۔ پاکستان میں سیاست اور کرپشن لازم و ملزوم نظر آتے ہیں ، اسی لئے میں کسی بھی حکمران کا کرپشن کے معاملات پر دفاع کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران وزیر اعظم کا خاندان منی ٹریل کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا اور ایک دستاویز پر Calbri فونٹ کے استعمال نے بہت سے لوگوں کے لئے اس شک کو یقین میں بدل دیا کہ معاملہ میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔ مگر ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناطے میرے لئے رضا ربانی کے اس بیان کو نظر انداز کرنابھی ممکن نہیں ہے جس میں انہوں نے " اسمبلیاں ختم کرنے کے ــنئے طریقہ کار" پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے کمزور ہے ، ایگزیکٹو ، پارلیمان اور عدلیہ پر، جبکہ عدلیہ ایگزیکٹو اور پارلیمان پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ 58 ٹو بی تو ختم کر دی گئی مگر جمہوری حکومتوں کو ختم کرنے کا نیا طریقہ کار ڈھونڈ لیا گیا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ معاملہ نواز شریف پر رکتا نظر نہیں آ رہا، اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کو بھی حدیبیہ پیپر ملز کیس میں دائر ہونے والے ریفرنس کی بنیاد پر شاید نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ عمران خان کے حوالے سے بھی منی ٹریل کا معاملہ عدالت میں ہے اور جن وجوہات کی بنیاد پر نوازشریف کو سزا دی گئی ہے اگر ان کا اطلاق عمران خان پر نہیں کیا جاتا تو ایک نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا۔ نواز شریف کوآرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کی بنیاد پر سزا دے کر سپریم کورٹ نے آئندہ آنے والی ہر حکومت کے سر پر غیر یقینی کی ایک ایسی تلوار لٹکا دی ہے جس کا استعمال کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سیاستدان تو درکنار، شاید ہی کوئی انسان اس پر پورا اتر سکے۔ اس لئے پاکستانی سیاست کو کٹھ پتلیوں کی طرح چلانے والے جب چاہیں اس کا سہارا لے کر عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر بھیج سکیں گے۔
یہ درست ہے کہ ضیاء الحق نے یہ آرٹیکل آئین میں شامل کر کے زیادتی کی ، مگر اتنی ہی بڑی زیادتی مسلم لیگ ن نے بھی کی، جب اس نے پارلیمنٹ میں اٹھارویں ترمیم کے وقت پیپلز پارٹی کی طرف سے ان شقوں کو ختم کرنے کی کوشش کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اس وقت نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت جو آج کل تو ان شقوں پر بہت شکوہ کرتی نظر آتی ہے ، ان کو نکالنے پر رضا مند نہیں ہوئے تھے۔ غالباََ وہ عدلیہ کی مدد سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو ان شقوں کے ذریعے گھر بھیجنا چاہتے تھے۔ پرانے وقتوں کی کہاوت ہے کہ دوسروں کے لئے جو گڑھا کھو دا جائے ، اس میں خود گرنے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔۔۔ ایسا ہی اب مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
اس سب کے تناظر میں یہ سوال بھی باربار اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاسی قیادت کا تو وقتاََ فوقتاََ احتساب کر لیا جاتا ہے ،مگر آئین سے غداری کرنے والے ڈکٹیٹرز کیوں کر عدلیہ کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں؟ جب بھی میں نواز شریف کی نا اہلی اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے پرویز مشرف کے بیانات پڑھتا ہوں تو قہقہہ لگائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قانون سے بھاگا ہوا ایک شخص لوگوں کو قانون سکھانا چاہتا ہے۔پرویز مشرف کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی حکومتیں ملک سنوارتی ہیں اور سویلین پھر آ کر تباہی مچا دیتے ہیں ۔۔۔ ضیاء الحق نے اس ملک کے ساتھ جو کیا اس کا خمیازہ تو قوم آج تک بھگت رہی ہے ۔۔۔ شایدجنرل صاحب یہ بھی بھول رہے ہیں کہ جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو ملک نہ صرف ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا بلکہ خانہ جنگی کا بھی شکار تھا۔ ملک کا کتنے فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا کیا یہ انہیں پھر سے یاد دلانے کی ضرورت ہے؟جنرل صاحب کے زمانے میں کنزیومر اپلائنسز کا تو بہت کاروبار چلا لیکن ان کو چلانے کے لئے بجلی کا خاطر خواہ انتظام جنرل صاحب اور ان کے رفقا نے کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ ناقص حکمت عملی کے باعث بعد میں ملک میں بجلی کا ایک بہت بڑا بحران پیدا ہو گیا، ایک طرح سے ملک کو اندھیروں میں ڈبونے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں حکمرانی کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ بہت ضروری ہے ورنہ آپ کے خلاف کوئی بھی تحریک کسی بھی وقت شروع کی جا سکتی ہے یا ریفرنس کے ذریعے آپ کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ آصف زرداری نے گیارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے، نواز شریف ایک بار طیارہ اغوا کرنے کی سزا میں نا اہل قرار پائے ،تو اب دوسری بار انہیں صادق اور امین نہ ہونے پر نااہل کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ مگر قوم آج بھی اس بات کی منتظر ہے کہ کسی ڈکٹیٹر کو اس کے گناہوں کی سزا ملے۔ عاصمہ جہانگیر کا یہ سوال بھی بجا ہے کہ کیونکر ہماری عدلیہ آج تک کسی مافیا کو سزا نہیں دے سکیـ چاہے وہ لینڈ مافیا ہو یا کوئی اور۔اس حقیقت سے انکار کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ عدلیہ ہو یا ڈکٹیٹر ان کا بس محض سیاستدانوں پر ہی چلتا ہے، سیاستدان ہی اس ملک میں غلیظ ترین مخلوق ٹھہرے ہیں اور باقی سب حق اور سچ کے علمبردار!
میرا مقصد ہر گز بھی سیاستدانوں کو بری الذمہ قرار دینا نہیں ہے ، وہ ان سب حالات کے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ نظام کمزور ہے اوراسٹیبلشمنٹ طاقتو ر۔۔۔ عوام نے اپنے ووٹ امانت کے طور پر انہیں دے کراپنے حقوق کی جدو جہد کرنے کے لئے منتخب کیا۔ مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی چالوں کو جاننے کے باوجود خود کو ان کاموں سے محفوظ نہ رکھ سکے جن کی بناپر اسٹیبلشمنٹ دیگر اداروں کو ان کے خلاف استعمال کرتی ۔ بقول منیر نیازی :
کُج انج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غماں دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
(کچھ ویسے بھی راستے مشکل تھے، کچھ گلے میں غم کا طوق بھی تھا، کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے، کچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی تھا)
آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے یہ پاکستان میں سیاست اور سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فیصلے کون کر رہا ہے اور کون کرے گا۔ نواز شریف موٹروے کے ذریعے لاہور آنے کی تیاری میں ہیں اور ان کے ساتھی ریلی کو کامیاب کروانے کے لئے دن رات تیاری کر رہے ہیں ۔یہ بھی اہم ہے کہ کیا نواز شریف اس دوران عوام کو اپنے اس نظریہ سے آگاہ کریں گے جس پر یقین کا اب وہ دعویٰ کر رہے ہیں؟ان کی تقریریں، ورکروں کا رویہ، این اے 120 کا انتخاب اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا پاکستان مسلم لیگ 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر نے کی پوزیشن میں ہے؟۔۔۔ اگر عوام ان کی حمایت میں کثیر تعداد میں باہر آ جاتے ہیں اور اگلے انتخابات میں انہیں ووٹ کی حمایت بھی مل جاتی ہے تو کیا اسٹیبلشمنٹ کے لئے ان کا راستہ روکنا ممکن ہو گا؟

تازہ ترین