• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے سے نئے نئے چیلنجز جنم لے رہے ہیں اور ایک ہفتے کے دوران حیرت انگیز تغیرات رونما ہو چکے ہیں۔ اس فیصلے سے قوم بری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف ’یومِ تشکر‘ منا کر اسے قانون کی فتح قرار دیا جا رہا ہے جبکہ وسیع قانونی اور قومی حلقے اسے ہماری عدالتی زندگی کا سب سے کمزور اور انتہائی تاریک اور ملکی استحکام اور جمہوری نظام کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ اس اہم ترین فیصلے کے اردگرد جو پُراسراریت چھائی رہی اور چوٹی کے قانون دانوں کی رائے کے مطابق وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے جو بنیاد تلاش کی گئی ہے، اس نے فیصلے کو عالمی میڈیا میں بھی متنازع بنا دیا ہے، لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہو گئے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر فوری عملدرآمد نے سیاسی صورتِ حال میں بھونچال نہیں آنے دیا، اگرچہ عمران خاں نے اسلام آباد میں جو فتح کا جشن منایا اور سیاسی قائدین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ شدید اور آتشِ بداماں ردِ عمل پیدا کر سکتی تھی۔ ہم اپنے جمہوری نظام کی زبردست کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ فقط چار دن کے اندر نئے قائدِ ایوان کا انتخاب عمل میں آ گیا اور جناب شاہد خاقان عباسی نے دو تہائی اکثریت حاصل کر کے اِس حقیقت کی تصدیق کر دی کہ مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی پوری طرح متحد ہے اور وہ دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ نواز شریف جب خاموشی سے اپنے گھر مری پہنچے، تو عوام اُنہیں دیکھ کر دیوانہ وار لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ اِس بے مثال عوامی پذیرائی سے یہ ثابت ہوا کہ عوام نے عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے حقِ حکمرانی چھین لینے کی قانون کے پردے میں کوشش کی گئی ہے۔
پُرامن انتقالِ اقتدار کے خوشگوار تجربے نے تمام سیاست دانوں کو شدت سے احساس دلایا ہے کہ ان کی اصل طاقت پارلیمان سے وابستہ ہے اور انہیں اس ادارے کو مستحکم کرنا اور اس کی کارروائی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ اس ضمن میں نواز شریف بہت بڑی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں جس کے باعث غیر منتخب اداروں کو اپنا دباؤ بڑھانے اور حکومت کے معاملات میں بہت زیادہ دخیل ہونے کا موقع ملا۔ مجھے واثق امید ہے کہ ہمارے نئے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی ماضی کا کفارہ ادا کرتے ہوئے پارلیمان میں بہت سرگرم نظر آئیں گے اور نظم و نسق وسیع مشاورت سے چلائیں گے۔ وہ کم گو ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور صاحبِ کردار ہیں۔ اُنہوں نے قائدِ ایوان منتخب ہونے کے بعد جو مختصر تقریر کی، اِس میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اپوزیشن، حکومت، فوج، ہماری خفیہ ایجنسیاں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور اگر اِس میں سوراخ ہو گیا، تو ہم سب ڈوب جائیں گے۔ اُن کی یہ حکمت بھری گفتگو اُن کے صحت مند ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ انہیں نئے انتخابات تک اِس منصب پر فائز رہنا چاہیے۔ اس طرح پنجاب بھی اتھل پتھل سے محفوظ رہے گا اور جناب شہباز شریف یکسوئی کے ساتھ ترقیاتی منصوبے مکمل کر سکیں گے۔ میں یہ بھی محسوس کر رہا ہوں کہ جناب نواز شریف تمام اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ملک میں ہیجانی اور بحرانی کیفیت پیدا کرنے سے پوری طرح گریزاں ہیں۔ انہیں اب ایک ایسی وفاقی کابینہ تشکیل دینی چاہیے جس میں چھوٹے صوبوں کی بھی نمائندگی ہو اور جنوبی پنجاب کو بھی خاص اہمیت دی جائے۔ ایسے افراد کابینہ میں شامل نہ کیے جائیں جو ہارڈ لائنر ہیں اور حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی معقول نمائندگی دی جائے جبکہ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور جناب اعجاز الحق بھی سول ملٹری تعلقات بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محترمہ مریم اورنگزیب نے اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیے ہیں، وہ مکمل وزیر بنائے جانے کی مستحق ہیں۔
پارلیمان کی اہمیت اور طاقت کے بارے میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار سید نوید قمر کے علاوہ اسفند یار ولی خاں، محمود خاں اچکزئی اور چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بڑی دانش مندانہ باتیں کی ہیں اور سیاست دانوں کو باوقار اور ذمہ دار طرزِ عمل اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ بھی تجویز کیا ہے کہ آئین میں مناسب ترمیم کر کے عدلیہ کے اختیارات میں توازن پیدا کیا جائے۔ وزیر اعظم کی نااہلی سے قانون سازوں کے اندر یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ دستور کے آرٹیکلز 62اور 63میں سے وہ شقیں نکال دی جائیں جو غیر واضح اور ناقابلِ نفاذ ہیں اور یہ مطالبہ بھی قومی حلقوں میں سر اُٹھا رہا ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کو فل کورٹ بنچ میں نواز شریف کی اپیل سننی چاہیے تاکہ وہ بڑے بڑے ابہام اور تضادات دور کیے جا سکیں جو فاضل بنچ کے فیصلے میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نظامِ عدل کے مطابق مدعا علیہ کو اپیل کا حق ملنا چاہیے جو آرٹیکل 184(3)میں دستیاب نہیں۔ یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ نیب کا آرڈیننس جو ایک آمر نے نافذ کیا تھا اس کی تنسیخ بھی ضروری ہے کہ وہ عدل کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
فل کورٹ بنچ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی تشریح اور غلطیوں کا مداوا کرے گا اور اس پہلو پر بھی غور کرے گا کہ اس بنچ نے نیب کو سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں، بیٹی، داماد اور جناب اسحق ڈار کے خلاف ریفرنس چھ ہفتوں میں تیار کرنے اور چھ مہینوں میں اُن کا فیصلہ سنانے کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ کے لیے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کے تقرر کے جو احکام صادر کیے ہیں، کیا وہ عدلیہ کی آزادی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج ریفرنسز کی مانیٹرنگ کریں گے، تو کیا ذیلی عدالتیں کامل آزادی سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں گی۔ ان تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے کر جب تک فل کورٹ بنچ فیصلہ کن فیصلہ صادر نہیں کرے گا، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے حیرت انگیز فیصلے پر سوال اُٹھتے اور اسے مولوی تمیز الدین خاں کے مقدمے کے فیصلے سے جوڑا جاتا رہے گا جس میں 1955ء کے وسط میں چیف جسٹس محمد منیر نے عدالتی بغاوت کی منحوس روایت قائم کی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ فاضل چیف جسٹس ثاقب نثار اپنا تاریخی کردار ادا کریں گے، قوم کو انجانے خوف سے جلد نجات دلائیں گے اور اپنے ادارے کی عظمت اور وقار پر حرف نہیں آنے دیں گے۔
مجھے اس وقت عالمی ادارے Guardian Liveکی 16نومبر 2016ء کی نشریاتی رپوٹ یاد آ رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف امریکی اسٹیبلشمنٹ اور بعض مقامی اداروں کی نظر میں گیارہ جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی پاداش میں وہ 2017ء کے وسط میں جوڈیشنل کُو کے ذریعے اقتدار سے محروم کر دیے جائیں گے۔ میں حیرت کی تصویر بنا ہوا ہوں کہ یہ رپورٹ حرف بہ حرف درست کیونکر ثابت ہوئی اور مخدوم جاوید ہاشمی کا وہ انکشاف حقیقت کا روپ دھار گیا ہے جو انہوں نے 2014ء کے وسط میں کیا تھا کہ عمران خاں جوڈیشنل کُو کی پراعتماد انداز میں باتیں کر رہے ہیں۔

تازہ ترین