جنوری میں، چیف جسٹس جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے ایک نئے تشکیل دئیے گئے بنچ نے پاناما کیس کی سماعت شروع کردی ۔نئے بنچ کے تبصروں سے بہت جلد یہ حقیقت عیاں ہونے لگی کہ اس کے نزدیک سیاسی معاملات میں جوڈیشل مداخلت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ چار ماہ تک کیس چلنے کے بعد بیس اپریل کو فیصلہ سامنے آگیا۔ اس میں دوجج صاحبان نے وزیر ِاعظم کو آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران دیگر تین جج بھی اسی نتیجے کی طرف بڑھتے دکھائی دئیے ۔ اس عمل کے دوران سول اور ملٹری افسران ( جے آئی ٹی) کی تحقیقات پر کلی اعتماد کیا گیا۔ یہاں یہ ذکر بر محل ہوگا کہ ایسی ہی پٹیشنز عمران خان ، جہانگیر ترین اور دیگر منتخب شدہ رہنمائوں کے خلاف زیر التو ا ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ صورت ِحال کس جانب بڑھ رہی ہے ۔
اگر ایک لمحے کے لئے سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پاناما گیٹ کے بتدریج اثرات کو دیکھنا مشکل نہیں۔گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ہمارے پارلیمانی نظام کی زیادہ تر آئینی اور قانونی اتھارٹی تحلیل ہوتی دکھائی دی۔ بہت سے حلقوں میں پایا جانے والاعمومی تاثر یہی ہے کہ ریاست کے غیر منتخب شدہ اداروں نے مل کر منتخب شدہ قیادت کو منہ کے بل گرادیا ہے ۔ اس صورت ِحال کا تجزیہ کرتے ہوئے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنیادی طور پر پاناما گیٹ فیصلے اور جے آئی ٹی رپورٹ پر رہا۔ اگرچہ عوامی گفتگو میں قانونی تجزیہ بھی شامل رہا لیکن اسے بامعانی اور بامقصد بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو اس کے وسیع تر تاریخی اور سیاسی پس ِ منظر سے آگاہ کیا جائے ۔
نوازشریف کی نااہلی کا تاریخی پس ِ منظر یہ ہے کہ وہ پہلے وزیر ِاعظم نہیں جنہیں آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی منصب سے ہٹا دیا گیا ہو۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میںکوئی وزیر ِاعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کو اُن کے اقتدار کے دوسرے برس (1951) میں قتل کردیا گیا۔ اس کے فوراً بعد، 1952 ء میں خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل نے ایک مشکوک قانونی ڈاکٹرائن، شاہی استحقاق(royal prerogative) استعمال کرتے ہوئے برطرف کردیا۔ اگلے چھ سال کے دوران اُن کے پانچ جانشینوں کو مختصروقفوں کے دوران عدم اعتماد کی تحاریک سے ہٹایا جاتا رہا۔
ان کے بعد وزیر ِاعظم ذو الفقار علی بھٹوکو 1977 ء میں احتجاجی تحریک کے ذریعے قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کردیا گیا۔پھر اُنہیں پھانسی دے دی گئی ۔ 1988 ء میں وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کو آرٹیکل 58(2)(b) استعمال کرتے ہوئے ہٹادیا گیا کیونکہ وہ ’’ حکومت کے معاملات آئین کے مطابق چلانے میں ناکام رہے تھے۔‘‘ وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو انہی الزامات کی پادا ش میں دو مرتبہ عہدے سے ہٹایا گیا۔ پہلی مرتبہ 1990 ء اور پھر 1996 ء میں۔ وزیر ِاعظم نوازشریف کو پہلی مرتبہ فوج کے دبائو کی وجہ سے 1993 ء میں منصب سے چلتا کیا گیا۔ اس کے بعد 1999 ء براہ راست فوجی شب خون کے ذریعے اُن کی حکومت ختم کردی گئی ۔ 2004 ء میں وزیر ِاعظم جمالی کو مشرف نے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ وزیر ِاعظم یوسف رضیا گیلانی کو 2012 ء میں عدالت نے نااہل قرار دے دیا کیونکہ وہ دیگر کوتاہیوں کے علاوہ ’’صادق اور امین ‘‘ نہیں رہے تھے ۔ آج 2017 ء میں وزیر ِاعظم نواز شریف کی گردن پر بھی یہی تلوار گری ہے ۔ اس تاریخی پس ِ منظر کو دیکھتے ہوئے یہ جاننا آسان تھا کہ پاناما گیٹ میں وزیر ِاعظم کے بچنے کا کوئی چانس نہیں۔
اگرچہ دکھائی یہی دیتا ہے کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لئے بہت دیر ہوچکی ہے ، لیکن شاید ایک اہم کام کا وقت آچکا ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم اپنی مدت پوری کرے تو پارلیمنٹ کو فعال قانون سازی کرنی ہوگی۔ پارلیمنٹ ابھی بھی مندر جہ ذیل اقدامات اٹھاسکتی ہے ۔ پہلا یہ کہ جنرل ضیا کی آرٹیکل 62 اور 63 میں شامل کردہ اضافی شقوں کو ختم کردیا جائے ۔ ہمارے ہاں الیکشن لڑنے کے لئے پہلے ہی بہت سخت قوانین موجود تھے ، لیکن 1985 میں جنرل ضیا نے اس پر صادق اور امین ہونے کی شرط بھی لگادی ، اور ان اصلاحات کی جان بوجھ کر تشریح نہ کی گئی ۔ یہ شقیں روز ِاول سے ہی پارلیمانی نظام کے لئے ایک ٹائم بم کی طرح ٹک ٹک کررہی تھیں۔ یہ تو محض خوش قسمتی ہے کہ اب تک ان کی وجہ سے کوئی بہت بڑا نقصان نہیں ہوا۔
ضروری نہیں کہ آپ نواز شریف کے حامی ہوں تو ہی آپ ان شقوں کی وجہ سے ہمارے انتخابی نظام کو لاحق خطرے کا ادراک کرسکیں۔ جسٹس کھوسہ نے خود 2015ء میں ان شقوں کے خلاف بہت سخت الفاظ استعمال کیے تھے ۔ اسحاق خان خاکوانی بنام نواز شریف کیس (PLD 2015 SC 275) میں فاضل جج صاحب لکھتے ہیں۔۔۔’’ترمیم شدہ آرٹیکل 62 ایسی اصلاحات اور الفاظ رکھتا ہے جو شہریوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرتے ہیں، اور یہ وکلا اور عدالتوں کے لئے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ کسی شخص کے نیکوکار ہونے کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے ذہن کو پڑھا جائے ، جو کہ ممکن نہیں ہے ۔ ‘‘جسٹس کھوسہ مزید لکھتے ہیں۔۔۔’’صادق اور امین ہونے کی ضرورت مثالی اور غیر حقیقی ہے ، اور اس کی تشریح بھی موجود نہیں۔ چنانچہ ا س کی قانون میں شمولیت ناقابل عمل صورت ِحال پید اکرتے ہوئے معقولیت کا راستہ روکتی ہے ، جبکہ آئین کا تقاضا اس کے برعکس ہے ۔ ‘‘
اب یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ یہ فیصلہ لکھنے کے صرف دوسال بعد جسٹس کھوسہ اور اُن کے چار ساتھیوں نے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی جانچ کرتے ہوئے آئین کی ’’غیر تشریح شدہ، مثالی اور غیر حقیقی شقوں ‘‘ کو بے دھڑک استعمال کرڈالا۔اس جوڈیشل قلابازی سے جمہوریت پسند حلقے یہ سبق حاصل کریںکہ آئندہ جمہوریت کے حوالے سے آئینی شقوں کی تشریح کے لئے کبھی سپریم کورٹ سے رجوع نہ کیا جائے ۔ آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اس آرٹیکل میں بلاتاخیر ترمیم کی جائے ۔
دوسرا یہ کہ نیب آرڈیننس 1999 میں ’بدعنوانی ‘ کی وضاحت کرنے والے سیکشن 9 کی دوٹوک تشریح کی جائے ۔ اس وقت یہ سیکشن کہتا ہے ۔۔۔۔’’کسی عوامی عہدیدار ، یا کسی اور شخص کے بارے میںکہا جائے کہ اُس نے بدعنوانی کا ارتکاب کیا ہے اگر وہ یا اُس کے زیر ِ کفالت افرادنے اپنی اعلانیہ آمدنی سے بڑھ کر اثاثے جمع کررکھے ہوں، یا اُن کا طرز ِ زندگی اُن کے اعلانیہ وسائل سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ ‘‘دوسرے الفاظ میں ہر شہری، خاص طور پر ایک سیاست دان، کو چور سمجھا جائے گا تاوقتیکہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کردے ۔ یہ چیز عالمگیر قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے جو ہر شہری کو بے گناہ سمجھتا ہے تاوقتیکہ اُسے کوئی عدالت مجرم ثابت کردے ۔ اس آمرانہ قانون کی درست آگاہی کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اسے 1999میں جنرل پرویز مشرف نے وضع کیا تھا۔
آخری بات، ہمیں فوجداری قانون کی حدود طے کرنے کے لئےقانون سازی درکار ہے ۔مہذب دنیاکے زیادہ تر ممالک میں آئینی حدود اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کسی مجرم کو کئی سال پہلے کیے جانے والے جرائم کی پاداش میں سز ا نہ دی جائے ۔ اگر ریاست کسی کو سزادینا چاہتی ہے تو یہ معقول وقت کے اندر ہو، یا پھر اسے بھول جائے ۔ چونکہ ہمارے پاس ایسا کوئی قانون نہیں ہے اس لئے ہم نہایت احمقانہ طریقے سے نواز شریف اور اُن کی فیملی کو بائیس سال پہلے کیے گئے مبینہ جرائم کی پاداش میں سزادے رہے ہیں۔ اس قانون کو متعارف کرانے کی کم از کم دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ ایک آزاد ملک کے شہریوں کو مسلسل اس خوف کا شکار نہیں رہنا چاہیے کہ اگر اُن سے بہت پہلے کوئی جرم سرزد ہوگیا تھا تو ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی اُنہیں سزا مل سکتی ہے ۔ اور دوسری یہ کہ زندگی کی طرح قانون میں بھی معافی تلافی کی گنجائش ہونی چاہیے ۔ این آراو کیس (PLD 2010 SC 1) میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا۔۔۔ ’’حتی کہ جنہوں نے ماضی میں جرائم کا ارتکاب کیا تھا،وہ بھی قانون کی مہربانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو کسی منقسم نظام میں پڑنے والی دراڑوں کا مداوا کرتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ہمارے آئین کی اسلامی روح بھی یہی کہتی ہے کہ گناہ گاروں کے لئے معافی کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔
(صاحب مضمون لا اینڈ پالیسی چیمبر کے پارٹنر ہیں)