• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائی ڈی اے نے پھرہڑتال کردی اور مریضوں کو بغیر علاج کے مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ویسے تو آپس کی بات یہ ہے کہ وائی ڈی اے کے ڈاکٹرکون سے اتنے لائق ہیں کہ ان کے علاج سے مریض صحت یاب ہو جائیں۔ پچھلے کئی برسوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کوپتہ چل جائے گا کہ شاید ہی کوئی سرکاری اسپتال ایسا ہو جہاں کی ایمرجنسی میں ان ینگ ڈاکٹروں کے ہاتھوں بے کس اور مجبور مریض غلط علاج سے موت کے منہ میں نہ گئے ہوں اور وہاں احتجاج اور مارپیٹ نہ ہوئی ہو۔ اسپتالوں میں مارپیٹ کی روایت بھی خیر سے وائی ڈی اے نے ڈالی ہے۔ اب تک مختلف سرکاری اسپتالوں میں ان کے احتجاج کی وجہ سے کچھ غریب مریضوں کی اموات بھی ہو چکی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کیا یہ قتل نہیں؟ اور قتل کرنے پر کیا 302 کا مقدمہ نہیں بنتا؟آپ اراداتاً اپنے سامنے مرنے والے کا علاج نہیں کرتے بلکہ اس کو دھکے دے کر وہاں سے مار بھگاتے ہیں۔
عزیز قارئین! پچھلے دس برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں وائی ڈی اے کی ہڑتالوں کی وجہ سے تین سو کے قریب مریض موت کے منہ میں چلےگئے۔ صرف 2011 میں جب ہڑتال کی وجہ سے ایمرجنسی ، ان ڈور اور آئوٹ بند کئے گئے تو 200 کے قریب مریض مر گئے تھے۔ اس زمانے میں فوج کے ڈاکٹروں نے بھی بعض سرکاری اسپتالوں میں ڈیوٹی کی تھی اور فوجی ڈاکٹروں سے مریض بہت خوش ہوئے تھے۔ اب بھی حکومت کو چاہئے کہ آرمی کے ڈاکٹروں کو بلا لے۔ ارے وائی ڈی اے والو! جب تم ڈاکٹر بنتے ہو تو ایک حلف اٹھاتے ہو، اس حلف میں لکھا ہے کہ تم اپنے مریض کو ہر حال میں علاج کی سہولت فراہم کرو گے۔چاہے کچھ ہو جائے اس کا علاج کرو گے اور علاج سے انکار نہیں کرو گے۔
کیا تم لوگ اس ایک نکتے پر قائم ہو۔ کیا ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو تم نے علاج سے انکارنہیں کیا؟ کیا تم نے ڈرپ لگے ہوئے مریضوں کی ڈرپ نہیں اتاری؟ کیا تمہارے سامنے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرے؟ تم کس قدرپتھر دل ہو۔ تمہیں تو ڈاکٹر نہیں ہونا چاہئے تھا۔اصل مسئلہ تمہارا کچھ اور ہے، اصل میں تم کڈنی اسکینڈل میں گرفتار ڈاکٹروں کو چھڑانا چاہتے ہو۔سینٹرل انڈکیشن پالیسی کی تم نے خود تائید کی اس پالیسی کے تحت میرٹ پر ایک ڈاکٹر اب پوسٹ گریجویشن کے لئے ڈی جی خان اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے بھی لاہور آ کر پڑھ سکتا ہے۔ ہم خود رحیم یار خان اور ملتان کے ایسے ڈاکٹروں سے مل چکے ہیں جو اس سینٹرل انڈکیشن پالیسی کی وجہ سے لاہور آ کر پڑھ رہے ہیں۔ تمہیں دوران پی جی کے 77ہزار وظیفہ مل رہا ہے،کبھی سوچا تھا کہ پوسٹ گریجویشن بھی کرو اور ساتھ 77ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرو۔ پھر تم سرکاری ملازم بھی نہیں۔ پی جی کرنے کے بعد کہیں بھی جا سکتے ہو۔ایف سی بی ایس پانچ برس میں کرتےہیں اور اس دوران حکومت جب بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھاتی ہے تمہاری تنخواہیں بھی بڑھ جاتی ہیں، پھر بھی کام نہیں کرتے، ہڑتالیں کرتے ہو۔ تم اصولوں کی بات کرتے ہو تمہارے بعض ڈاکٹرز دو دو جگہوں سے تنخواہ لیتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ میڈیا میںا ن کے نام تک آ چکے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی پوسٹنگ کرانے اور ان کی ڈیوٹیاں تبدیل کرانے کے پیسے لئے جاتے ہیں۔لیڈی ڈاکٹرز تم لوگوں سے خوف زدہ ہیں۔ اس لئے مجبوراً احتجاج میں آ جاتی ہیں، آخر یہ احتجاج کس بات کا؟ ہر دو چار ماہ بعد تم احتجاج شروع کردیتے ہو۔ پھر تم جن ممالک سے ایم بی بی ایس کرکے آتے ہو وہ تمہیں وہاں ہائوس جاب نہیں کرنے دیتے، وہ اپنے مریضوں کو تمہارا ہاتھ بھی نہیں لگنے دیتے۔ تم ہائوس جاب یہاں آ کر کرتے ہو، اور سرکاری اسپتالوں میں غلط علاج کرکےاپنا ہاتھ صاف کرتے ہو۔ جو مریض اور زخمی تمہاری ظالمانہ حرکتوں سے مر رہے ہیں ڈرو ان کی آہوں اور بدعائوں سے۔ کبھی سوچا ہے کہ تمہارا بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی، والد، والدہ بیمار ہوں اور تمہارے جیسا کوئی ڈاکٹر انہیں ہسپتال کی ایمرجنسی میں نہ آنے دے پھر تم کیا کرو گے؟ تم نے ان خاندانوں کو بے سہارا کر دیا جن کا کمانے والا ایک تھا۔ تم نے ان گھرانوں سے روٹی اور ان کا باپ چھین لیا جن کے گھرانوں میں صرف ایک شخص روٹی کمانے والا تھا۔ ذرا برابر بھی تمہارے دلوں میں رحم نہیں۔ سنو کوئی حکومت کمزور نہیں ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کی بہت شرافت ہے کہ اب تک اس نے تم پر سختی نہیں کی ورنہ حکومت تو حکومت ہوتی ہے، بہت کچھ کرسکتی ہے۔ ہم تو حکومت کو کہیں گے کہ ان ینگ ڈاکٹروں کے والدین کو بلایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ تمہارے بچے کیا کر رہے ہیں۔ اور اگر ان کے والدین یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں توبڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ کاش مریضوں کے لواحقین اور مرنے والے مریضوں اور زخمیوں کے رشتہ دار بھی تمہارے گھروں کے سامنے احتجاج کریں، پھر کوئی تم سے پوچھے کہ کیا گزرتی ہے ؟۔ کڈنی اسکینڈل میں ملوث ڈاکٹرز کسی صورت رحم کے مستحق نہیں۔ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل خان کے بقول جب یہ ڈاکٹر غیر قانونی گردوں کی پیوندکاری کر رہے تھے تو ایک ڈاکٹر کی گاڑی سے 67لاکھ روپے اور دوسرے کی گاڑی سے 37لاکھ روپے برآمد ہوئے۔ پھر ایک وائی ڈے اے کے عہدیدار فرماتے ہیں کہ جرم کی جگہ پر کھڑا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجرم ہیںکسی نے آپریشن کٹ پہنادی تھی۔ ارے بھائی دونوں ڈاکٹروں کو آپریشن کٹ کیا بھوتوں نے پہنا دی تھی؟ وائی ڈی اے کی ہڑتالیں کرنے کے مقاصد کچھ بھی ہیں، کیا قصور ہے پاکستان کے دور دراز کے علاقوں کے مریضوں کا۔ تم پسماندہ علاقوں میں ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں۔اگر ہر ڈاکٹر صرف لاہور میں رہنا چاہے گا تو پھر باقی ملک کے مریض کیا کریں گے۔ تازہ ترین اطلاع ہے کہ حکومت تمہاری جگہ ڈاکٹرز بھرتی کر رہی تھی تم نے جناح اسپتال میں گڑ بڑ کردی۔
نئے آئی جی پنجاب کیپٹن عارف نواز نے پولیس شہداء کے لواحقین کے لئے ایک بھرپور تقریب منعقد کرائی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ اس روایت کا سہرا ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم کے سر جاتا ہے۔ اس سے قبل جو پولیس ملازمین اور افسر دہشت گردی میںشہید ہو جاتے تھےان کے خاندان کا کوئی پرسان حاصل نہیں تھا۔ اب پولیس نے ویلفیئر آئی کے نام سے ایک APP صرف شہداء کے خاندانوں کے لئے شروع کی گئی ہے۔ یہ سروس پورے پنجاب میں ہے۔ اس کے تحت شہدا کے خاندان اپنے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں احتیاط یہ رکھی گئی ہے کہ کوئی مردآپریٹر رابطہ نہیں کرے گا بلکہ اس ایس ایم ایس کو صرف خاتون آپریٹر پڑھ کر متعلقہ خاندان سے رابطہ کرے گی۔ یاد رہے کہ اس وقت پنجاب پولیس کے تین سو افراد دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں اور اس APP کے ذریعے اب تک 70کے قریب خاندانوں کے مسائل حل ہو چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس عام شہریوں کے لئے اس APP کو مزید بہتر بنائے تاکہ عام شہریوں کی رسائی بھی پولیس کے اعلیٰ افسران تک ہوسکے۔ دوسری عام بات یہ ہے کہ تھانوں کے ماحول کو دوستانہ بنایا جائے تاکہ وہ شہری جن کی کوئی سفارش اور معاشرے میں اہم عہدہ نہیں ان کے مسائل حل ہوسکیں۔ اس کے ساتھ آئی جی کو چاہئے کہ وہ پولیس کے سپاہیوں کی ویلفیئر کے لئے بھی اقدامات کریں۔ ہم آئی جی سے کہیں گے کہ زندہ لوگوں کے لئے بھی کچھ کریں۔ ان کا مورال تب ہی بلند ہوگا جب انہیں سہولتیں ملیں گی۔

تازہ ترین