شیخ رشید احمد کی سیاست سے بہت سے لوگوں کا اختلاف اپنی جگہ مگر شاید ہی ان کا کوئی سیاسی مخالف انہیں قاتلانہ حملے کی وجہ سے جو صدمہ اٹھانا پڑا اس پر خوش ہو خود تو وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے مگر ان کے تین حمایتی جان گنوا بیٹھے اگر کوئی بھی سیاسی جماعت اس خونی حملے کی وجہ سے اپنی سیاست چمکا رہی ہے تو بہت سی ایسی قوتوں کا یہ شیوہ ہے کیونکہ سیاستدان کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر ان سب حضرات سے ہماری دردمندانہ اپیل ہے کہ اس سیاسی کھیل میں شیخ رشید کے ان تین جانثاروں کے لواحقین کا ضرور سوچیں کہ کس طرح ان کی مالی مدد کی جائے۔
ان کا تعلق کسی خوشخال گھرانے سے نہیں لگتا اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری شیخ رشید پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی دولت مند طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں پنجاب حکومت اور شریف برادان کو بھی اس کام میں کسی طرح پیچھے نہیں رہنا چاہئے ۔ عام تاثر جو صحیح لگتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی یا گروہ اس حملے کے پیچھے نہیں ہے بلکہ یہ کسی غیر سیاسی گروپ کا کام لگتا ہے تاہم یہ کہنا کہ چوہدری نثار علی خان جو این اے 55 راولپنڈی میں ضمنی انتخاب کے سلسلے میں مسلم لیگ نواز کے امیدوارر شکیل اعوان کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں کا کسی طرح اس حملے میں ہاتھ ہوسکتا ہے انتہائی لغو بات لگتی ہے کبھی بھی ان کی سیاست کا یہ سٹائل ہی نہیں ہے 1985ء سے لے کر اب تک وہ سیاست میں ایسے گھناؤنے تشدد کے انتہائی مخالف رہے ہیں۔
اسی وجہ سے جب سرکاری پروٹوکول کی سہولت انہیں میسر نہ بھی ہو وہ اکیلے بغیر کسی سیکورٹی گارڈ کے اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور مختلف تقاریب میں شرکت کرتے ہیں وہ چوہدری حامد ناصر چٹھہ جیسے سیاستدانوں کی طرح ہیں جو سیاسی دشمنوں کو ذاتی دشمنی میں نہیں بدلتے اور خونی سیاست میں یقین نہیں رکھتے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری نثار ہر قیمت پر شیخ رشید کو ہرانا چاہتے ہیں جو کسی بھی مخالف کی خواہش ہوسکتی ہے اپنی مرضی اور پسند کے سرکاری افسراوں کی آبائی ضلع میں تعیناتی تو ہر سیاستدان کرتا ہے چاہئے وہ سید یوسف رضا گیلانی ہوں ،آصف علی زرداری یا نوازشریف ہوں چوہدری نثار نے بھی یہ کچھ کیا ہے مگر اس سے ان پر کسی طرح یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ انہوں نے اپنی پرانی سیاست کا اسٹائل بدل دیا ہے۔
اس سے قبل بھی کئی بار جب ان کی پارٹی برسراقتدار ہوتی ہے تو وہ اپنے من پسند کے سرکاری افسران کو ضلع راولپنڈی میں تعینات کروا چکے ہیں۔ نہ صرف چوہدری نثار بلکہ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ نواز بھی ایسے گنھاؤنے حملے میں حصہ دار نہیں ہوسکتی کیونکہ اس حملے سے سیاسی فائدہ اگر کسی کو حاصل ہوا ہے تو وہ صرف شیخ رشید ہی ہوسکتے ہیں اس سے ان کیلئے نہ صرف ہمدردی کا کچھ ووٹ پیدا ہوا بلکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی ان کی حمایت میں سامنے آئی ہیں ۔
اس کے علاوہ ایک عام ضمنی انتخاب قومی سطح پر ایک بڑا ایشو بن کر ابھرا ہے مسلم لیگ نواز سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی ایسے کام میں حصہ دار بنے گی جس سے ان کے مخالف امیدوار کو فائدہ پہنچے سمجھ سے بالاتر ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ شیخ رشید قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے ہم اس مشکل موقع پر ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں مگر ان کی سیاست عجیب قسم کی رہی ہے جو انتہائی موقع پرستی پر مبنی ہے سب سے زیادہ سیاسی نقصان انہیں پرویزمشرف کی لگاتار حمایت سے ہوا ہے سابق صدر کے ساتھ وہ اس وقت بھی نہ صرف چمٹے رہے بلکہ ان کے بہت بڑے ترجمان بنے رہے جب ان کا ستارہ ڈوب رہا تھا اس وجہ سے انہیں 2008ء کے عام انتخابات میں شکست فاش ہوئی اور قومی اسمبلی کی وہ سیٹ جو وہ 1985ء سے لگاتار جیت رہے تھے سے نہ صرف ہاتھ دھونا پڑا بلکہ اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے شیخ رشید نے مشرف کے دور میں یہ ”سبق“ سیکھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمیشہ بہترین تعلقات رکھنا ہی سیاسی میدان میں کامیابی کی کنجی ہے اسی ”تعلق“ کا تاثر کے کر وہ ہمیشہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ”باخبر“ ظاہر کرتے رہے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہے جو پرانی باتوں کو یاد نہیں رکھتی شاید اسی وجہ سے ہی وہ اپنی سیاسی حکمت عملی ہر روز کے واقعات کی روشنی میں بناتے ہیں جو کل سے باکل مختلف بھی ہوسکتی ہے ایک وقت میں جب پرویزمشرف کا دور عروج پر تھا وہ شریف برادران پر پرزور حملے کرتے تھے مگر جونہی نوازشریف اور شہبازشریف نومبر 2007ء میں واپس وطن لوٹے تو شیخ رشید نے اپنے بیانات میں بیگم کلثوم نواز کو ”بھابھی“ کہہ کہ مخاطب کرنے لگے۔ اس طرح انہوں نے شریف برادران کو یہ پیغام دیا کہ انہوں نے اب اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے اور وہ مسلم لیگ نواز میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر ضدی شریف برادران نے کبھی بھی شیخ رشید کے نرم گوشہ نہیں دکھایا ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ان حضرات کو بالکل گلے نہیں لگائیں گے جو ان کی جلاوطنی کے دوران پرویزمشرف کو سب سے بڑے نامی گرامی حمایتی رہے تاہم پنجاب حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ ہرصورت میں شیخ رشید کی حفاظت کا انتظام کرے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیکورٹی فراہم کرے اس کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں ضمنی انتخاب کو صحیح معنوں میں صاف اور شفاف بنانا بھی صوبائی حکومت کا ایک بہت بڑا امتحان ہے وہ ایسے طریقے سے الیکشن کرائیں کہ ان کے مخالفین بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں شیخ رشید کے جتنے بھی الزامات ہیں ان کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور ان کی تسلی کے مطابق تحقیقات کرائی جائیں۔نہیں معلوم نیشنل یورنیورسٹی آف مارڈرن لینگویجز اسلام آباد (نمل) کی انتظامیہ کیوں کئی روز تک اپنے رجسٹرار بریگیڈیئر ریٹائرڈ عبیداللہ رانجھا کا دفاع کرتی رہی جبکہ پہلے دن سے ہی یہ بات کافی تک صحیح ثابت ہوچکی تھی کہ انہوں نے اپنی ہی یونیورسٹی کے ایک استاد پروفیسر طاہر ملک کو بلاوجہ بہت مارا پیٹا اس سے ادارے کی بڑی بدنامی ہوئی چاہئے تو یہ تھا کہ رانجھا صاحب کو فوراً ہی فارغ کر دیا جاتا تاکہ مزید فساد سے بچا جاسکتا نہ صرف نمل کے طلباء بلکہ اسلام آباد کی دوسری یونیورسٹیوں کے طلباء بھی اس واقعہ پر سراپہ احتجاج بنے رہے ۔اس واقعہ کی تحقیقات کسی ایسی کمیٹی سے کرانا جس میں بھی کچھ ریٹائرڈ بریگیڈیئر حضرات شامل ہوں انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔ ہمیں چاہئے یہ کہ یونیورسٹی لیول کے اساتذہ اکرام کے انتخاب کے وقت امیدواروں کا نفسیاتی معائنہ بھی کرایا جائے تاکہ ان کے غیر ذمہ دار رویے کی وجہ سے طلباء پر برا اثر نہ پڑے۔