کسی بھی معاشرے میں اگر عوام کا عدالتی نظام پر پختہ یقین ہو تو ایسا معاشرہ سکھ اور چین کی زندگی گزارتا ہے اور ایسے معاشرے میں اخلاقی قدروں کا احترام کیا جاتا ہے اور معاشرہ خوشحالی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں عدالتیں ایک ایسے آلے کے طور پر کام کرتی ہیں جو فوری طور پر گرتی انسانی قدروں کو درست کرتی ہیں۔ معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے کو مستحکم کرتی ہیں اور لوگوں میں ایسا شعور اور خوف پیدا کرتی ہیں جس سے لوگ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا احترام کرتے ہیں۔ جن معاشروں میں عدالتی نظام زیادہ مؤثر اور فعال نہیں ہوتا ان معاشروں میں انتشار پھیلتا ہے۔ اخلاقی قدریں برباد ہوتی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں قانون کی پاسداری اور دوسروں کے حقوق کا احترام نہیں رہتا۔ ایسے معاشروں میں رواداری اور باہمی ہم آہنگی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے اور معاشرہ قریب المرگ ہو جاتا ہے۔
پانامہ کیس کے حالیہ فیصلے سے ایک طرح کی نئی شروعات ہوئی ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فیصلے کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کیلئے نیب کی طرف سے کی جانے والی کارروائی اور نیب عدالت میں چلنے والے معاملات کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج صاحب کریں گے۔ یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ نیب عدالت کیسز کا فیصلہ چھ ماہ میں کرے گی۔ سپریم کورٹ کے جج کی زیر نگرانی انصاف کی فراہمی کے اس عمل کو صرف اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس سے ٹرائل کورٹ کی آزادی اور غیر جانبداری متّاثر ہو گی۔ اس بات کو تنقید کا نشانہ اس لئے بھی بنایا جا رہا ہے کہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کوئی بھی ماتحت عدالت نگرانی کرنے والے جج کے خیالات یا جھکائو کے مخالف نہیں چل سکتی۔ اگرچہ اس بات میں کافی وزن ہے اور قانون کے پیشے سے وابستہ لوگ شاید اس بات کی تائید کریں گے کہ روزمرّہ کی کارروائیوں میں کوئی بھی جج سپریم کورٹ کی طرف سے کئے گئے کسی بھی فیصلے، تجویز یا عدالتی مشاہدے کے خلاف نہیں جاتا اگرچہ ایسا کرنے کی ٹھوس اور معقول وجہ بھی موجود ہو۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پانامہ مقدمات کی نوعیت اور اس سے وابستہ حالات و واقعات اور عمومی طور پر عدالتی نظام اتنا مثالی نہیں ہے کہ وہ ان مقدمات کا بوجھ اٹھا سکے اور کارروائی کو کسی نگرانی کے بغیر چھوڑ دیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے اس اقدام سے اس بات کا عندیہ ضرور ملتا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام عمومی طور پر غیر مؤثر اور غیر فعال ہو چکا ہے اور اس کی اعلیٰ سطح پر نگرانی کرنا ناگزیر ہے۔
عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں ایسی کمزوریاں موجود ہیں جس کی وجہ سے ہیراپھیری کرنا، مقدمات کو التوا میں ڈالنا اور فوری انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھنا آسان کام ہے۔ اس امر کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے معزز جج صاحبان کو عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے میں کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے۔ اس کمزور عدالتی نظام کا استحصال کرنا اور قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر مقدمات کا التواکرنا، فریقین اور ان کے وکلا کیلئے کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے چاہے اس سے ناانصافی ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔ اس سارے معاملے میں کئی وجوہات کی بنیاد پر بعض اوقات ہماری ماتحت عدالتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنیاد پر پانامہ مقدمے کے فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی عدالتی کارروائی کی نگرانی کا تصوّر بالکل درست ہے اور اس کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ایک صحیح امر نہیں ہے۔ کسی بھی غیر جانب دار فرد کیلئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ عدالتی کارروائی کی نگرانی کا مقصد صرف یہ ہے کہ عدالتی کارروائی تیزی سے ہو اور درست سمت میں چلے اور کسی کو اس میں خلل ڈالنے کا موقع نہ ملے اور مقدمات کو التوامیں نہ ڈالا جا سکے۔
ہمارے ملک میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور عدالتی نظام کی خامیاں اس وقت ایک قومی بحران کی شکل میں سامنے آئیں جب اعلیٰ عدالتی ضمیر کو اس وقت کوئی زحمت نہیں ہوئی جب سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کو جائز قرار دیا۔ اس کے بعد بھی اعلیٰ عدلیہ، وکلا تنظیمیں اور حکومت کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ عدالتی نظام میں خامیوں کی باقاعدہ نشاندہی کر کے اس کی اصلاح کی جاتی اور اعلیٰ عدالتی ضمیر دہشت گردی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں کے سپرد کر کے بے فکر ہو کر بیٹھا ہے۔ کسی کو بھی یہ سوچنے کی فکر لاحق نہیں ہے کہ عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے اصلاحات کی جائیں اور اس میں کمزوریوں کا تدارک کیا جائے۔ اس قومی سطح کے بحران سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اجتماعی طور پر ہمارا اعلیٰ عدالتی ضمیر سویا ہوا ہے اور ہماری وکلا تنظیمیں بھی اس کوتاہی میں برابر کی شریک ہیں۔
اس قومی بحران کا شکار ہمارے ملک کا عام شہری ہے جس کو عدالتی کارروائی کا سامنا ہوتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو طویل تکالیف، بے یقینی، مالی نقصانات اور مقدمے میں بے مقصد التواکا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر کسی مقدمے کا فیصلہ ہو بھی جائے تو اس میں اتنی تاخیر ہو چکی ہوتی ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بے کار و بے معنی ہو جاتا ہے۔ مقدمات کا نتیجہ آنے میں نسل در نسل انتظار کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انصاف کی فراہمی میں اس تاخیر پر ہمارا عدالتی ضمیر بے حس نظر آتا ہے۔ چند ماہ قبل سزائے موت کے ملزمان کو کئی سالہ قید کے بعد باعزت رہا کر دیا گیا جبکہ دو بھائیوں کو اس وقت بری کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب ان کو پہلے ہی سزائے موت دی جا چکی تھی۔ جائیداد کے مقدمات کا فیصلہ آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی معاشرتی اور نفسیاتی قیمت پورا معاشرہ ادا کر رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر، بداعتمادی، احساس عدم تحفظ، اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنا، اقدار کا بگاڑ، لاقانونیت، دھوکہ دہی کی بہتات، قانون کی حکمرانی کا فقدان اور اداروں پر عدم اعتماد، شدّت پسندی کا طرزعمل، انصاف کی ناپیدگی کے نتائج ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام کمزور کو بروقت انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے اور طاقتور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب چونکہ پانامہ مقدمہ کے فیصلے سے ایک طرح سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اتنا ناقص ہو گیا ہے کہ انصاف کی بروقت فراہمی کیلئے اس کی نگرانی کرنا ضروری ہے۔ اس امر سے اس بات کی شدید ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے عام آدمی کو بھی فوری انصاف کی فراہمی کیلئے اسی طرح سے نگرانی کی جائے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہر روز کسی بھی جج کے سامنے تقریباً 60یا اس سے بھی زیادہ مقدمات فیصلوں کیلئے پیش کئے جاتے ہیں اور ایک دن میں جج کے پاس تقریباً چار گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے اس طرح ہر جج کے پاس اوسطاً ایک مقدمے کیلئے تقریباً چار منٹ کا وقت ہوتا ہے اور ان چار منٹ میں انصاف کی فراہمی ناممکن ہے۔ دن کے اختتام پر آدھے مقدمات جج کے سامنے پیش ہی نہیں کئے جا سکتے اور ان کو وقت کا مزید ضیاع کرنے کیلئے مزید التوامیں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح وقت کے ضیاع اور التوا کے سلسلے چلتے رہتے ہیں اور عام آدمی کا عدالتی نظام پر اعتماد ختم ہوتا رہتا ہے۔ التوا کے ان سلسلوں کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہمارے وکلا حضرات اور معزز جج صاحبان انصاف کا اس طرح مذاق اڑانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، ان کو اس بات کا کبھی خیال نہیں آتا کہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں ہونے والی تاخیر سے کس طرح نجات دلائی جائے۔ وکلا تحریک میں کئے جانے والے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
عدلیہ کی آزادی کے تصوّر کو جس انداز میں دیکھا جاتا ہے اس سے بے انصافیوں کو فروغ مل رہا ہے تا وقت یہ کہ اس آزادی کی اس طرح نگرانی کی جائے کہ عام آدمی کو اس سے فائدہ ہو سکے۔ پانامہ مقدمے میں عدالتی کارروائی کی نگرانی سے اس بات کا جواز ملتا ہے کہ اسی طرح کی نگرانی پورے ملک کے عدالتی نظام پر کی جائے۔ پانامہ کے مقدمے کے تناظر میں انصاف کی جلد فراہمی کا تصوّر عام آدمی کیلئے کیوں استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اب شاید عدالت عظمیٰ، وکلا تنظیموں اور حکومت کا فرض بنتا ہے کہ عدالتی نظام کی نگرانی کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی نگرانی میں عدالتی محتسب کا قیام عمل میں لایا جائے جسے مطلوبہ وسائل اور اختیارات دیئے جائیں۔ عدالتی محتسب کے اختیارات میں بدانتظامی کا تدارک کرنا، انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، مقدمات کے التواکے کلچر کا خاتمہ، عدالتی نظام کی استعداد کو کام کے بوجھ کے مطابق بڑھانا، فریقین کی شکایات کو دور کرنا اور عدالتی طریقہ کار کو بہتر کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ اس سے عدلیہ کی آزادی متّاثر نہیں ہو گی بلکہ اس کی نگرانی ممکن ہو گی۔ جتنی جلدی عدالتی محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے گا اتنی ہی جلدی پانامہ کے مقدمے میں کئے گئے عدالتی نگرانی کے تصوّر کا جواز مضبوط ہو گا۔
صاحب تحریر ایڈوکیٹ ہیں جنہوں نے کرمنالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔