• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت الدعوۃ نے انتخابی سیاست کیوں اختیار کی؟

کراچی (تجزیہ: مظہرعباس) جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید جیسے کے لئے قومی سیاسی دھارے میں آنے کا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ جنہوں نے ملی مسلم لیگ کے نام سے اپنے سیاسی بازو کی رُونمائی کی جس نے این اے۔120 میں اپنی موجودگی کا پہلے ہی احساس دلا دیا ہے۔ ملی مسلم لیگ نے اس حلقے میں مسلم لیگ (ن ) کی اُمیدوار کلثوم نواز کے ساتھ تحریک انصاف کی بھی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے جسے حافظ سعید ایک لبرل پارٹی تصور کرتے ہیں۔

جماعت الدعوۃ کے مطابق کلثوم نواز قابل احترام ہیں لیکن وہ نوازشریف اور ن لیگ کی سیاست کے مخالف ہیں۔ ملی مسلم لیگ نے حلقہ این اے۔120 میں پہلی کارنر میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی جو دونوں جماعتوں کے ممکنہ انتخابی اتحاد کی جانب اشار ہ ہے۔ کارنر میٹنگ میں ہم خیال آزاد اُمیدوار کی حمایت کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ مشاہدہ دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ملی مسلم لیگ، جماعت الدعوۃ سے کس حد تک اور کس قدر مختلف ثابت ہوتی ہے۔

یہ جماعت الدعوۃ کے سیاسی اور نظریاتی ڈھانچے میں اضافہ ہوگا یا کوئی نیا سیاسی بیانیہ سامنے آئے گا۔ آئندہ مہینوں میں ہی یہ بات واضح ہو سکے گی کہ 1980ء کی دہائی کی سیاست سے رجوع کرلیا گیا ہے یا کوئی عارضی انتظام ہے۔ حافظ محمد سعید نے 2013ء میں انتخابی سیاست کو مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ چار برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ انہیں اپنی نظریاتی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی کہ ملی مسلم لیگ تشکیل دے کر پروفیسر سیف اللہ خالد کو اس کا سربراہ بناناپڑا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کو عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سیاست ان کی جی ٹی روڈ ریلی کے گرد گھومتی رہی اور میڈیا میں اس نمایاں پیش رفت پر کوئی بات نہ ہوئی، لیکن مستقبل کی سیاست پر اس کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ دس پندرہ روز قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے متحدہ مجلس عمل کے احیاء کے لئے جماعت الدعوۃ کی قیادت سے ملاقات کی۔ ملی مسلم  لیگ نے گو کہ الیکشن کمیشن میں پارٹی پرچم اور منشور جمع کرا دیا ہے لیکن اس کی رجسٹریشن ابھی باقی ہے۔ پارٹی کے منتخب سربراہ اور عاملہ کے نام بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیئے گئے ہیں۔ جماعت الدعوۃ نے اب اپنے کارکنوں اورحامیوں کو ملی مسلم لیگ کے لئے کام کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

وہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جس کا اظہار این اے۔120 میں پہلے انتخابی جلسے سے ہوتا ہے جہاں آزاد اُمیدوار شیخ یعقوب کو اپنا قرار دے کرحمایت کا دعویٰ کیا گیا۔ اگر اس پیش رفت کو کوئی جماعت سنجیدگی سے لے گی تو وہ مسلم لیگ (ن) ہی ہوگی۔ این اے۔120 کے ضمنی انتخاب تک یہ بات محدود نہیں ہوگی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اس کو سنجیدہ لینا ہوگا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا مضبوط ووٹ بینک کشمیریوں سے وابستہ ہے جبکہ ملی مسلم لیگ کو اعتماد ہے کہ وہ ن لیگ کے اس ووٹ بینک میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ یہ جہاں ن لیگ کےمخالف ہیں تو تحریک انصاف کے حق میں بھی نہیں ہیں لہٰذا این اے۔120 پر ملی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی میں مفاہمت کے اشارے موجود ہیں۔

جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی ملی مسلم لیگ کی کارنر میٹنگ میں موجودگی مشترکہ انتخابی اُمیدوار کی جانب ہی اشارہ ہے۔ جماعت الدعوۃ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ این اے۔120 کے حلقے میں اس کے 15 ہزار سے 20 ہزار ووٹ ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کو پڑتے رہے۔ جماعت الدعوۃ کے لئے یہ بھی آزمائش ہوگی کہ اس کے کارکن اور ووٹر یہ تبدیلی قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ جماعت الدعوۃ خود کو باور کرانے میں کامیاب رہی تو پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی کو نہیں بلکہ سندھ میں جہاں جے یو آئی تیزی سے سیاسی قوت بن کر اُبھر رہی ہے، جماعت الدعوۃ کے پاس بھی ایک مضبوط کارکنوں کی قوت موجود ہے، لیکن اگر ملی مسلم لیگ مطلوبہ نتائج نہ دے سکی تو یہ جماعت الدعوۃ کے لئے بھی نقصان دہ بات ہوگی۔ حافظ محمد سعید جو گزشتہ 25 سال سے جہاد کشمیر کے حق میں مضبوط آواز بن کر اُبھرے ہیں۔

2002ء میں پابندی لگنے کے بعد انہوں نے لشکر طیبہ کو خیرباد کہہ دیا۔ ہمیشہ خود کو انتخابی سیاست سے دُور رکھا۔ حافظ محمد سعید کے قریبی باخبر حلقوں کے خیال میں یہ تبدیلی بدلتے بین الاقوامی منظرنامے کی وجہ سے آئی۔ کچھ دینی رہنمائوں اور اسکالرز کی بھی کاوشیں تھیں کہ تبدیلی انتخابی سیاست کے ذریعہ آ سکتی ہے۔ ایک وقت تھا جب حافظ سعید کا انتہائی قدامت پرست رہنمائوں میں شمار ہوتا تھا۔ حتٰی کہ وہ تصویر کھنچوانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

تازہ ترین