کیا کہنے پاکستانی سیاست کے ! سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے وزارت ِ عظمیٰ کے منصب سے اتار دیا لیکن وہ اپنا جانشین مقرر کرنے سے لے کر کابینہ کا چنائو کرنے اور حکومت کی پالیسیاں وضع کرنے تک، سب احکامات صادر کررہے ہیں۔
اگر پی ایم ایل (ن)، جو تاحال سابق وزیراعظم کے نام سے جانی جاتی ہے، کے ارکان کی باتیں سنیں تو اُن کا کہنا ہے کہ نواز شریف لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بن جائیں گے۔ یہ عدالت ِعالیہ اور شریف خاندان کے سیاسی مخالفین کے لئے پارٹی کے ایک وفادارکا طاقتور پیغام تھا۔ مسٹر عباسی نے پی ایم ایل (ن) کے پراعتماد موقف کو دہراتے ہوئے کہا وہ عدالت میں خود کو تمام الزامات سے بری کرالیںگے اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔
دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ قانون کی عدالت نے نوازشریف کو قصور وار سمجھتے ہوئے سزاسنائی ہے۔ پانچ جج صاحبان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا وہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے، چنانچہ وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کا باعث بننے والی غلطی مئی 2013ء کے عام انتخابات کے کاغذات ِ نامزدگی میں ایک قابل ِ وصول تنخواہ کا ذکر نہ کرنا تھا۔ فی الحال جوہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اُنھوںنے وہ تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔ عدالت اور اس کی جے آئی ٹی اُن کے خلاف بدعنوانی کے حتمی ثبوت ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف اور ان کی فیملی کے خلاف بدعنوانی کے تمام الزامات مزید تحقیقات کے لئے نیب کے پاس بھیج دئیے ہیںتاکہ اُن پر احتساب عدالت میں مقدمات چلائے جائیں۔
وزیراعظم کی نااہلیت نے ملک میں ایک بحث چھیڑدی ہے کہ کیا آئین کے متنازع آرٹیکلز 62 اور 63 کوبرقرار رکھا جائے یا ختم کردیا جائے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا کوئی موجودہ رکن ِپارلیمنٹ ان آرٹیکلز کی سخت شرائط پر پورا اترتا ہے ؟بہت سے سیاست دان اور سول سوسائٹی کے ارکان ان آرٹیکلز کو ختم،یا ان میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی جماعتیں، جیسا کہ جماعت ِ اسلامی نے ایسی کسی بھی کوشش کی بھر پور مزاحمت کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اگر ان آرٹیکلز کا طے کردہ معیار اتنا بلند ہے کہ انسان اُن پر پورا نہیں اتر سکتا تو پھر اُنہیں آئین میں برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اب یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ چونکہ جمہوری طور پر منتخب شدہ چیف ایگزیکٹو کو اپنے اور اپنے خاندان کے مالیاتی معاملات پردروغ گوئی کی پاداش میں نااہل قرار دے دیا گیا، اس لئے کیوںنہ ہر عوامی عہدیدار کو اسی چھلنی میں سے گزارا جائے؟
انتہائی تصادم، ٹکرائو اورمناقشے سے بوجھل سیاسی ماحول میںمعروضی رائے اور معقول آواز بمشکل ہی سنائی دیتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے حامی معاملات کو کسی مخصوص زاویے سے ہی دیکھتے ہیں جس پر قومی مفادات کی بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ اگر یہی کافی نہ تھا،ہمارے سیاسی خدوخال پر غالب سول ملٹری عدم توازن غیر یقینی پن کو مسلسل بڑھاتا رہتا ہے۔ طاقت ور فوج کا براہ ِراست نام لئے بغیر پی ایم ایل (ن)کے لیڈر اور حامی ایسا تاثر ارزاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیسے نواز شریف کی ساکھ خراب کرنے اور اُنہیں اقتدار سے رخصت کرنے کے پیچھے کوئی نادیدہ ہاتھ ہو۔ اگر واقعی یہی صورت ِحال ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی کام ادھورا ہے کیونکہ نواز شریف تو سیاسی افق پر موجود ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ نمایاں ہوچکے ہیں۔ شریف فیملی ہی وفاق او ر ملک کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب میں حکمران ہے۔ اور فی الحال پی ایم ایل (ن) میں دراڑیں پڑتی دکھائی نہیں دیتیں، اور نہ ہی کوئی اختلافی آواز ابھری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں واضح برتری رکھنے والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔ اس دوران سرحد پار سے تجربہ کار بھارتی صحافیوں اور سیاست دانوں کے تبصرے بھی سننے کو ملے ہیں۔ وہ پاکستانی سپریم کورٹ کو حاصل طاقت اور اختیار سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اُن میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کبھی بھی اس طرح وزیراعظم نریندر مودی کو نااہل قرار دے کر گھر نہیں بھیج سکتی۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو 2007 ء کی وکلا تحریک نے طاقت دی۔یہ اُس تحریک کی طاقت تھی جس نے معزول شدہ سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری اور دیگر پچپن جج صاحبان کو بحال کرایا اور فوجی حکمران، جنرل پرویز مشرف کو کمزور کردیا یہاں تک کہ وہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم سیاسی اور آئینی نوعیت کے کیسز میں فاضل عدالت کے فیصلوں نے جہاں تنازعات کو جنم دیا وہاں ان سے جج صاحبان کی قوت ِ فیصلہ اور ترجیحات کا سوال بھی اٹھا۔ وزیراعظم کو متفقہ طور پر نااہل قرار دینے والے حالیہ فیصلے پر تنقید بھی کی گئی اور اسے سراہا بھی گیا۔ اس کا تعلق کسی کی سیاسی وابستگی سے ہے۔ ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ مذکورہ فیصلے کی بنیادبہت کمزور ہے کیونکہ اس نے ایسی تنخواہ کو اثاثہ تسلیم کیا ہے جو وصول ہی نہیں کی گئی۔ وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن یہ موقف اُن دھڑوں کا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس فیصلے پر مثبت رویے بھی دکھائی دیئے۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی نے سنجیدہ تحفظات کے باوجود فیصلے کو تسلیم کیا اور فورا ً ہی اس کا نفاذ یقینی بنایا۔ اب وہ عدالت کے اندر قانونی جنگ لڑنے کے لئے نظر ِ ثانی کی درخواست دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ عدالت کے اندر ہونے والی لڑائی بیرونی صورتحال کو بھی متاثر کرتی رہے گی۔ نواز شریف اور اُن کے دو بیٹے، حسین اور حسن اور بیٹی مریم صفدر، داماد کیپٹن صفدر اور سابق فنانس منسٹر اسحاق ڈار کو آنے والے ہفتوں میں احتساب عدالت میں نیب ریفرنسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُنہیں اپنا کاروبار، سیاسی کیرئیر اور ساکھ بچانے کے لئے وہاں سے خود کو بری کرانا ہوگا۔
ایک اور مثبت پیش رفت نواز شریف کی نااہلی کے بعد منظم اور جمہوری انداز میں انتقالِ اقتدار کی کارروائی تھی۔ اس نے سیاسی عدم استحکام، جو پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا، کے تمام خدشات ختم کر دیئے۔ ملک میں کوئی بڑا سیاسی بحران پیدا نہ ہوا، فوج نے خلا پورا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور جمہوری اور آئینی ادارے معمول کےمطابق کام کرتے رہے اور نہایت خوش اسلوبی سے ایک وزیراعظم کی جگہ دوسرے وزیراعظم نے عہدہ سنبھال لیا۔لیکن ایک سوال ہنوز باقی ہے۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کے شروع کردہ احتساب کا عمل جاری رہے گااور اُن تمام افراد اور کمپنیوں کا بھی احتساب ہوگا جن کے نام پاناما پیپرز میں موجودہیں، یا پھر یہ نواز شریف اور اُن کے خاندان کو ہدف بنانے اور ان کی سیاسی قوت توڑنے کے لئے کی گئی ’’ون ٹائم ‘‘ کارروائی تھی ؟پاکستانی عوام احتساب کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ملک کو بدعنوانی سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ کارروائی صرف من پسند اہداف کے لئے ثابت ہوئی تو اُنہیں سخت مایوسی ہوگی۔