• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارانیا آئینی پیکیج آنیوالی منتخب حکومت کیلئے چارٹر کا کام دیگا،سعدرفیق

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہےکہ ہم ایک نئے آئینی پیکیج کی تیاری کی طرف بڑھ رہے ہیں جو 2018ء کے قریب سامنے آئے گا، اگلی منتخب حکومت کیلئے یہ پیکیج ایک چارٹر کا کام کرے گا۔

میثاق جمہوریت کی کمزوریاں نئے آئینی پیکیج میں دور کی جائیں گی، ریاست کے تمام طبقات کیلئے یکساں قانون بنایا جائے گا، سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے کہا کہ نوازشریف جب خود مصیبت کو دعوت دیتے ہیں تو اسے برداشت بھی کریں، پیپلز پارٹی کا کسی کے ساتھ کوئی این آر او نہیں ہےسینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ن لیگ کے ووٹ بینک میں ابھی تک دراڑ نہیں پڑی ، پیپلز پارٹی پنجاب میں چند نشستیں بھی حاصل کرلے تو حوصلہ افزا بات ہوگی۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں گفتگو کر رہے تھے۔

کواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف کے پاس سازشیوں کے نام اور کام دونوں ہیں لیکن نام لینے کا ابھی وقت نہیں ہے، ہم ملک میں ایک نئی لڑائی چھیڑنا نہیں چاہتے ہیں، نواز شریف وزیراعظم نہیں رہے لیکن ن لیگ کی مرکز، پنجاب، گلگت بلتستان اورا ٓزاد کشمیر میں حکومتیں ہیں، ہم حکومتیں بچاتے نہیں لیکن حکومتیں چلانا بھی ہماری ذمہ داری ہے، عوام نے ووٹ دیا ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے حکومت چلانا بھی ہمارا کام ہے، حکومتیں چلانے کیلئے بسا اوقات حکمت اور تدبر سے کام لینا پڑتا ہے، کسی بھی تصادم سے بچتے ہوئے لوگوں تک اپنی بات پہنچارہے ہیں، 2018ء میں پاکستان میں الیکشن ہوناچاہئیں اور تبدیلی ووٹ سے ہی آنی چاہئے، 2018ء کے الیکشن تک پاکستان کو لے کر جانا مسلم لیگ ن اور تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو بات پڑھے لکھے دانشوروں کو سمجھ نہیں آتی وہ ملک کے غریبوں کو سمجھ آرہی ہے، اسلام آباد سے لاہور کے سفر میں لاکھوں لوگ موجود تھے جنہیں اس کہانی کی سمجھ تھی، ہم اداروں کی بات نہیں کرتے لیکن کچھ کردار موجود ہیں، کچھ کردار چلے جاتے ہیں تو کچھ کردار آجاتے ہیں یہاں کرداروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق کیا گیا تھا، فوج مردم شماری، آفات یا گھوسٹ اسکول ختم کرنے میں مدد کرے توکوئی مضائقہ نہیں ہے، فوج ایک قومی ادارہ ہے کسی بھی حکومت کو حق حاصل ہے کہ زمانہ امن میں فوج کو ایسے کام کیلئے استعمال کرے جو کوئی نہیں کرپارہا ہوں۔ وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن صرف ہم ہی غلطیاں نہیں کرتے ہیں، بعض اوقات حکومت بچاتے ہوئے آدھی سے زیادہ مدت گزر جاتی ہے، دھرنا ون، دھرنا ٹو اور نیوزلیکس کے پیچھے کیا کردار تھے، لوگوں کی کیا خواہشات تھیں، کس کس سائیڈ کی کون کون سی خواہش پوری نہیں ہوئی، جس کی خواہش پوری نہ ہو وہ ناراض ہو کر اپنی آفیشل پوزیشن کوا ستعمال کرتا ہے، چار سال میں کچھ خواہشیں پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی، جتنا بچ کر چلنے کی کوشش کریں اس کے باوجود فوج سے نہ بننے کا الزام لگ جاتا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت دینے پر پارٹی میں تقسیم تھی، میں نے کہا تھا اگر پرویز مشرف کو جانے دیا تو قوم کو کیا جواب دیں گے، اکثریت مشرف کو باہر جانے نہ دینے کے حق میں تھی، کچھ لوگ کہتے تھے اگر مشرف کو جانے نہ دیا تو بھگتو گے اور جمہوری نظام خطرے میں پڑجائے گا، اکثریتی فیصلے پر پرویز مشرف کا باہر جانا رُک گیا ، مشرف کو روکنے کے جو نتائج آئے پھر مشرف کو روک نہیں سکے، پاکستان میں جمہوریت اتنی طاقتور نہیں جتنی نظر آتی ہے، مشرف کو باہر بھجوانے والے زیادہ طاقتور تھے، ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا کہ جمہوریت پھر پٹری سے اتر جائے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے مسائل کا تعلق مشرف کی بدروح سے ہے جو مرتی نہیں ہے، دھرنا ون میں جو کروایا جارہا تھا اس کا گواہ ہوں، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو نہیں ہونے دے رہے تھے، ایسے غیرسیاسی لوگ موجود ہیں جو جمہوریت کو پسند کرتے اور خرابی کو روکتے ہیں، جب تک سول بیوروکریسی، ملٹری بیوروکریسی، سیاستدان اور میڈیا کا مکالمہ نہیں ہوگا یہ خرابی بار بار واپس آئے گی۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمارے خلاف صرف سازش نہیں ہوئی، ہمیں نفرت ، تعصب، انتقام اور سازش کا نشانہ بنایا گیا ہے، کچھ سازش والے ہیں ،کچھ نفرت کرتے ہیں ، کچھ تعصب کا شکار ہیں اور کچھ ہمیں واقعی برا سمجھتے ہیں، کچھ لوگ جن کا آپ کام نہیں کرتے اور انہیں مزید موقع فراہم نہیں کرتے وہ اپنے رابطوں کے ذریعے انتقام بھی لیتے ہیں۔

انتقامی کوششیں ہماری حکومت کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ انہیں اصل پرابلم نواز شریف کے ساتھ ہیں، یہ بات تکلیف سے کہہ رہا ہوں کہ اب عمران خان کی باری ہے، یوسف رضا گیلانی کو نکالا گیا میں نے تب بھی کہا تھا کہ وزیراعظم کو نکالنا اب آسان ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ میرا لیڈر ہو یا کسی اور کا لیڈر ہو جس نے کبھی بھی فوجی آمریت کو سپورٹ کیا تو اس نے ٹھیک نہیں کیا، ایک بار کی غلطی سب نے کی ہے، جو غلطی کر کے تلافی کرتے ہیں انہیں معاف کردیں، جو بار بار غلطی کرتے ہیں ان کو معاف نہیں ہونا چاہئے ،اس وقت سیاسی جماعتوں سے گفتگو کا فائدہ نہیں ہوگا، تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کیلئے لائن اپ ہوچکی ہیں، میرے خیال میں نیا مکالمہ الیکشن کے بعد ہی ہوگا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پہلے آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا اس بار اپنے لیڈر کو ایسا نہیں کرنے دیں گے،یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمیں گاڈ فادر اور مافیا قرار دیدیا جائے، ہم نے عدلیہ بحالی کیلئے جیلیں کاٹی ہیں، ریویو پٹیشن میں فل بنچ سے معاملہ سننے کی درخواست کی ہے، ہمارا دل بہت دکھا ہوا ہے، ہماری وہ تضحیک کی گئی جس کا اختیار قانون اور آئین کسی کو نہیں دیتا ہے، ہم گونگے نہیں ہیں نہ کبھی گونگے تھے، جن کی سیاست ختم ہوتی ہے وہ ایک فاتح کی طرح گھر نہیں جاتے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم ایک نئے آئینی پیکیج کی تیاری کی طرف بڑھ رہے ہیں جو 2018ء کے قریب سامنے آئے گا، اگلی منتخب حکومت کیلئے یہ پیکیج ایک چارٹر کا کام کرے گا، میثاق جمہوریت کی کمزوریاں نئے آئینی پیکیج میں دور کی جائیں گی، ریاست کے تمام طبقات کیلئے یکساں قانون بنایا جائے گا، عام آدمی کو انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے، حکومت نے چار سال میں آٹھ دس سال کا کام کیا ہے، نواز شریف کو گھر بھیجنے کے بعد لوگ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا کر بیٹھے، حکومت پہلے ہی نواز شریف کے پاس تھی اب اپوزیشن بھی ان کے پاس آگئی ہے، اگر کوئی نواز شریف کو جیل بھیجنا چاہتا ہے تو وہ بھی کر دیکھے، نواز شریف پہلے بھی ڈیڑھ سال جیل کاٹ چکے ہیں۔ سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے کہا کہ نوازشریف جب خود مصیبت کو دعوت دیتے ہیں تو اسے برداشت بھی کریں، آصف زرداری کا مو ڈ اس لئے اچھا ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہے، آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، پیپلز پارٹی کیخلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پربنائے گئے۔

ن لیگ کیخلاف ریفرنسز سپریم کورٹ کے کہنے پر بنائے جارہے ہیں، پیپلز پارٹی کا کسی کے ساتھ کوئی این آر او نہیں ہے، اگر بینظیر بھٹو مذاکرات نہ کرتیں تو آج نواز شریف اور شہباز شریف بینفیشری نہ ہوتے۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک آسانی سے ختم نہیں ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک کم ہوا ہے ، پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کا اکثر حصہ بٹور لیا ہے، آصف زرداری پنجاب میں کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں رکھتے ہیں، پیپلز پارٹی پنجاب میں چند نشستیں بھی حاصل کرلے تو حوصلہ افزا بات ہوگی، ن لیگ کے ووٹ بینک میں ابھی تک دراڑ نہیں پڑی ہے۔

تازہ ترین