• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
واشنگٹن میں ہونے والے دو روزہ پاک امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کے پہلے مرحلے میں ہونے والی اب تک کی پیش رفت پر نظر ڈالی جائے تو اسے غیرمعمولی نہیں تو بڑی حد تک اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں پاکستان کی بعض اہم اور بنیادی ضروریات کو سمجھنے اور ان کو پورا کرنے کے لئے جلد تر اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور ماضی میں ہونے والی اس نوع کی بات چیت میں دونوں ممالک کے تعلقات پر باہمی بداعتمادی کے جن دبیز پردوں کے سائے لہراتے نظر آتے تھے یہ منظر نامہ بھی اب سکرین سے غائب ہو چکا ہے اور لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے روابط میں ایک جوہری تبدیلی آ رہی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو اس پیش رفت سے کچھ زیادہ ہی مطمئن نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ادوار کی نسبت اب حالات 180 درجے تک بدلے ہوئے ہیں۔
گزشتہ باسٹھ برس میں پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کے تفصیلی تذکرے کا تو یہ موقع نہیں لیکن افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو منظم کر کے روس کو عبرتناک شکست تک لے جانے اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں پاکستان نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے اس کی وجہ سے اسے ایسے ہمہ جہت نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے جو اس کے قومی اداروں کو آکٹوپس کی طرح اپنی گرفت میں لے کر نت نئے بحرانوں سے آشنا کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اٹھنے والے بے تحاشا اخراجات اس کے وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور شہری علاقوں میں خودکش حملوں کے تسلسل نے اس کے انفراسٹرکچر کو ہی تباہ نہیں کیا سیاحت، ہوٹلنگ، تجارت اور کھیلوں تک کو بربادی کی ایسی حالت تک پہنچا دیا ہے کہ پاکستان کو اس صورتحال سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ توانائی کا بدترین بحران اس کی صنعتوں اور کارخانوں کو بند کر کے بیروزگاروں کی فوج میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کا جو اضافہ کر رہا ہے وہ اس پر مستزاد ہے اور یہی وہ مسائل ہیں جن کو ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت امریکی حکام کے سامنے پوری تیاری اور ہوم ورک کے ساتھ پیش کر کے یہ بتا رہی ہے کہ اگر پاکستان کی ان سماجی، اقتصادی اور عسکری الجھنوں کو سنجیدگی سے سلجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر یہ صورتحال انتہا پسندی کے خاتمے کی بجائے اس کو بڑھانے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے امریکہ سے جو بڑے بڑے مطالبات ہیں ان میں پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک رسائی دینا، پاک فوج کو ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی سمیت ہر قسم کی ایسی عسکری امداد فراہم کرنا شامل ہے جس سے وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کو زیادہ مربوط اور فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھا کر انہیں نہ صرف اپنے شہری مراکز تک آنے سے روک سکے بلکہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج سے برسر پیکار طالبان کو سرحد کے اس پار سے مدد دینے کا بھی سدباب کر سکے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ پاک آرمی نے پاک افغان سرحد پر نگرانی کے لئے 821 چوکیاں قائم کر رکھی ہیں جبکہ اتحادی افواج نے اپنی جانب صرف 112چیک پوسٹیں قائم کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ڈیڑھ لاکھ جوان ایف سی کے 90 ہزار سپاہیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے قومی وسائل کتنے بڑے پیمانے پر اس جنگ میں صرف ہو رہے ہیں اور اس کی پہلے سے مضمحل معیشت پر اس کے کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ سے اس بات کا بھی طالب ہے کہ وہ اسلام آباد اور نئی دہلی میں مسلسل کشیدگی اور تناؤ کا باعث بننے والے کشمیر ایسے دیرینہ تنازع کے تصفیہ کے لئے بھی جدوجہد کرے اور بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان آنے والے دریاؤں کے منابع پر درجنوں کی تعداد میں ڈیم بنا کر اس کے خلاف جس خوفناک آبی جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اس کا راستہ بھی موثر طور پر روکا جائے۔ پاک امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے حوالے سے اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی ضروریات کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کا آغاز کر دیا ہے اور وہ اس کی مصنوعات کو نہ صرف امریکی منڈیوں تک رسائی دینے پر آمادہ ہے بلکہ پی آئی اے کی پروازوں کو امریکہ کے 5شہروں تک اجازت دینے کے لئے بھی تیار ہے۔ پاک فوج کو دفاعی سازو سامان جلد فراہم کرنے اور اس سے بار بار ڈومور کا تقاضا کرنے پر اصرار بھی ترک کر دیا گیا ہے۔ توانائی کا بحران چونکہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اس لئے اس کو حل کرنا اولین ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ کو بھی اس بات کا گہرا احساس ہے اس لئے اس شعبے میں بہتری لانے کے لئے اس نے پاکستان کو ساڑھے بارہ کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کرنے کے علاوہ یہاں تین نئے تھرمل پاور سٹیشن قائم کرنے اور تین پرانے تھرمل سٹیشنوں کو اپ گریڈ کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے جس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر ہر دو ممالک میں ہونے والی مفاہمت تمام درمیانی مراحل طے کرنے کے بعد عملی شکل اختیار کر گئی تو اس سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں قابل ذکر مدد ملے گی۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور پاکستان و افغانستان کے لئے واشنگٹن کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک اس سے پیشتر یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ اگر پاکستان چاہے تو اسے تاجکستان سے افغانستان کے راستے بجلی کی فراہمی میں بھی مدد دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں متعدد مشکلات حائل ہیں کیونکہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک اس پر عملدرآمد کرنا ممکن ہی نہیں ہو گا۔ اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جاتا ہے تو پھر اس کی تکمیل میں بھی کئی برس لگ جائیں گے جبکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات اس قدر شدید ہیں کہ اتنے لمبے عرصے تک انتظار کرنا اس کے لئے ممکن ہی نہیں اور اس حوالے سے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ تاآب از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ تجویز محض اس لئے دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے ایران سے بجلی کی خریداری کے سمجھوتے کو سبوتاژ کر سکے کیونکہ جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی ایرانی کوششوں پر واشنگٹن جس قدر سیخ پا ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف خود اس پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لئے ہر اقدام کر رہا ہے بلکہ یورپی ممالک اور اقوام متحدہ تک کو اس پر آمادہ کرنے میں بھی کوئی کمی نہیں کر رہا۔ ان حالات میں پاکستان یا کسی دوسرے ملک سے تہران کے وسیع تر تجارتی تعلقات اسے کیسے پسند آ سکتے ہیں پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران سے پاکستان کو ملنے والی بجلی رینٹل پاور سٹیشنوں اور تھرمل یونٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کے مقابلے میں بہت ارزاں ہے اس لئے پاکستان کو اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کو بہرطور ترجیح دینی چاہئے اور جس طرح اس نے ایران سے گیس کی خریداری کے معاملے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور اس معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں اسی طرح اسے ایران سے بجلی کی خریداری میں بھی ملکی مفاد کو کسی طرح نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور امریکہ سمیت ہر ملک سے دو طرفہ بنیادوں پر ایسے تعلقات قائم کرنے چاہئیں جو اس کی آزادی و خودمختاری کے شایان شان ہوں۔ پاکستان اپنے توانائی کے بحران کو دور کرنے کے لئے امریکہ سے سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ایک ایسا ہی معاہدہ کرنے کا خواہشمند بھی ہے جیسا کہ اس نے بھارت کے ساتھ کیا ہے امریکی حکام کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں پاکستان کو کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا اور جس طرح مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بارے میں واشنگٹن کوئی دوٹوک موقف اختیار کرتا نظر نہیں آتا اسی طرح اس شعبے میں بھی پاکستان سے اس کے معاملات کچھ زیادہ واضح نہیں لیکن اگر امریکہ فی الواقع پاکستان سے دہشت گردی سے ہٹ کر اپنے وسیع تر علاقائی و عالمی مفاد میں سٹرٹیجک تعلقات چاہتا ہے تو اسے اس حوالے سے بھی پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں دنیا کے ہر ملک سے زیادہ قربانیاں دینے اور کامیابیاں حاصل کرنے والی مملکت کو نظر انداز کرنے کا تاثر زائل ہو سکے۔ دنیا میں تمام ممالک کے تعلقات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر کھلنے والے عنایات کے یہ در بے وجہ نہیں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اس کے بدلے میں پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔




تازہ ترین