• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق صدر پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر جناب آصف علی زرداری کو راولپنڈی کی خصوصی عدالت نمبر ایک نے 19برس بعد اثاثہ جات ریفرنس کے آخری کیس میں بھی باعزت بری کر دیا۔ احتساب عدالت نمبر ایک کے جج خالد محمود رانجھا کے سنائے گئے فیصلے کی رو سے :’’نیب نے جو ریفرنس دائر کیا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، نیب کوئی شہادت پیش نہیں کر سکا، ریفرنس فوٹو اسٹیٹ نقول پر مشتمل تھا جس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ سابق صدر ایسے الزامات پر مبنی 5ریفرنسز سے پہلے ہی باعزت بری کئے جا چکے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کے جہنم کا شاید مظلوم ترین زندہ کردار پاکستان کی تاریخ سازی کے مزید ناقابل فراموش عظیم ابواب رقم کرنے جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں اپنی ذات اور پارٹی کی بھینٹ چڑھا کر پاکستان کو منتخب حکومتوں کی آئینی مدت پوری کرنے کا معجزاتی باب مکمل کیا جس کے نتیجے میں ملک جمہوری تسلسل کے اس راستے پر گامزن ہو چکا جس کے باعث ملک کا ایک منتخب وزیراعظم ’’نا اہل‘‘ تو قرار دیا جا سکا لیکن جمہوری نظام، جیسا کہ روایت رہی، ختم نہیں کیا جا سکا، ختم ان شاء اللہ کیا بھی نہیں جا سکے گا، آصف علی زرداری کے مقدر میں پہلی بار منتخب آئینی مدت مکمل کرنے کی سعادت لکھی گئی تھی، وہ پاکستان کے ایک بار پھر سعادت مند فرزند تسلیم کئے جائیں گے، بالکل اس لمحے کی مانند جب بی بی شہید کے غم شہادت کے سمندر سے سر اٹھا کر انہوں نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے سے حب الوطنی کے عقیدے کو سرفراز کیا۔ آیئے سابق صدر پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر جناب آصف علی زرداری کا ’’سی وی‘‘ ایک بار پھر دہرا لیتے ہیں، وہ جو وطن اور قوم کی وفا، آبرو، دانش اور عظمت ہوں ان کے حالات زندگی یاد کرتے رہنا چاہئے، یہ ہماری آئندہ نسلوں کے سرمایہ کاروں میں ایک انمول اثاثہ ہیں۔
جناب آصف علی زرداری 26جولائی 1955ء کو نواب شاہ میں پیدا ہوئے۔ حاکم علی زرداری کے اس فرزند اصیل نے 1972ء تک کیڈٹ کالج پٹارو (دادو) میں گریجوایشن تک اپنی تعلیم مکمل کی، 1976ء میں لندن کے پیڈ منٹن اسکول سے تجارت و معاشیات کا خصوصی کورس پاس کیا۔ 18دسمبر 1987ء کو ان کی شادی عالم اسلام کی مایہ ناز بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو (بی بی شہید) کے ساتھ انجام پائی۔ 1990میں وہ پہلی بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1993سے 1996تک وفاقی وزیر برائے ماحولیات رہے، سرمایہ کاری کی وزارت بھی ان کے پاس رہی، دو سال پاکستان سینیٹ کی رکنیت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 4نومبر 1996ء کو انہیں بی بی شہید کی منتخب حکومت برطرف کرنے کے موقع پر گورنر ہائوس لاہور سے حراست میں لے لیا گیا۔ ’’ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا‘‘ جیسی خبر یا افواہ کی نہ اس وقت تردید کی گئی، نہ آج تک ایسی کوئی وضاحت سامنے آئی۔
وہ مختلف مقدمات میں گیارہ برس پابند سلاسل رہے جس کے بعد وہ بیرون ملک چلے گئے۔ 27دسمبر 2007جب بی بی شہید عازم سفر شہادت ہوئیں انہیں الوداع کہنے اور مستقبل کے پاکستان میں قومی خدمات کے محافظ خانوادے کی قومی اور سیاسی وراثت سنبھالنے کے لئے وطن واپس آ گئے۔ بی بی شہید کو پاکستانی مٹی کی چادر اوڑھانے کے بعد ان کی وصیت کے مطابق اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اتفاق رائے کے بعد پیپلز پارٹی کا چیئرمین تسلیم کیا اور خود اسی اتفاق رائے کے دوسرے حصے کے مطابق شریک چیئرمین قرار پائے۔ 18؍فروری 2008کے قومی انتخابات کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں تشکیل دینے کے بعد 9؍ ستمبر 2008کو پاکستان کے مقبول عام منتخب سویلین صدر کے منصب جلیلہ کا حلف اٹھایا۔
جناب آصف علی زرداری کو بی بی شہید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد تشدد، تعذیب، الزامات مبالغ آراء پیش گوئیوں، تہمت تراشی اور انسانیت کش اقدامات کے تمام جہنموں سے گزرنا پڑا۔ ان انسانیت کش اقدامات کا انتخاب اس خانوادے کے تمام روشن چہرہ افراد نے پاکستان اور پاکستانیوں کی ایک آزاد، باعزت اور جمہوری زندگی کے لئے ہمیشہ اپنے لئے خود چنا اور اپنے لئے دنیا کی اس عارضی مسافرت کے بجائے ابدیت کے نور کا حصے بننے کا راستہ پسند کیا، چنانچہ جناب آصف علی زرداری کو بی بی شہید کے ساتھ یعنی 18؍ دسمبر 1987سے لے کر 9؍ ستمبر 2008ء کو صدر پاکستان کی حلعت فاخرہ نصیب ہونے تک آگ اور خون کے ان تمام دریائوں کو پار کرنا پڑا جس کے دوران میں وہ کبھی اپنی آبلہ پائی پر شکوے کا ایک لفظ تک زبان پر نہیں لائے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ راسخ العقیدہ اس باحمیت اور صابر بلوچ کو محترم مجید نظامی نے کلی نظریاتی اختلاف کے باوجود ’’مرد حُر‘‘ کا خطاب دیا، بالفاظ دیگر اس تاریخی سچائی کو یوں بیان کرنا بھی قلمکار کا اخلاقی فریضہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری نے خاندان شہیداں کی نسبت کے تسلسل میں رتی بھر فرق نہیں آنے دیا۔
18؍ دسمبر 1987سے لے کر 9ستمبر 2008ء تک ریاستی طاقت، خود ساختہ مذہب پرستی، سادہ لوح پاکستانی عوام کی لا علمی، رجعت پسند قلمکاروں کی یلغار، خاکی اور غیر خاکی خفیہ ایجنسیوں کے دانستہ یا نادانستہ آلہ کار و دانشور، بین الاقوامی سامراجیت کے واحد حقیقی سرخیل امریکہ کی حد درجہ منظم اور مسلسل شاطر کاری کے باوجود پُر استقامت مزاج کے حامل آصف علی زرداری کو قدرت نے بالآخر صدر پاکستان کا حساس ترین تاج پہنا دیا۔ ’’خدا اپنا کام مکمل کر کے رہتا ہے!‘‘
خانوادہ شہیداں کے اس فرد جلیل پر بیتے ہوئے ان برسوں کی تند اور ہمہ گیر تپش کی داستان کرب و بلا کو ایک طرف رکھتے ہیں، 18؍ فروری 2008سے لے کر صدر پاکستان کی مقتدر نشست سنبھالنے تک جناب آصف علی زرداری کے حوصلہ افزاء رویئے اور متوازن دانش کی بعض فیصلہ کن جھلکیوں کا تذکرہ ہو جائے۔ انہوں نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کے بلوچوں سے بیتے ہوئے ساٹھ برسوں میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، کسی ذہنی تحفظ کے بغیر ان سے معافی مانگی (پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا)۔ جواباً نوجوان بلوچ نسل کی باغی علامتوں، جو مسلح تنظیموں کی شکل میں طویل مدتوں سے برسرپیکار تھیں، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور لبریشن ری پبلکن آرمی نے غیر مشروط طور پر غیر معینہ عرصے کے لئے اپنی سرگرمیاں معطل کر دیں۔
جناب آصف علی زرداری کا پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ اکثریتی ووٹوں سے صدر پاکستان بنایا جانا تاریخ کے ایک نیا موڑ مڑنے کی پیشگی اطلاع تھی۔ وہ بی بی شہید کے ازدواجی اور سیاسی ساتھ کے بعد ’’ساکھ کے بحران‘‘ سے دوچار کر دیئے گئے تھے، ان کے اعلان صدارت سے ایک روز پہلے تک اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کو ’’اقدامات‘‘ کے مشورے دیئے گئے لیکن اس وقت ’’صدر پاکستان‘‘ جناب آصف علی زرداری نے واقعتاً عظیم نیلسن منڈیلا جیسے گہرے صبر اور مثالی وسیع النظری کے ساتھ مخالفین کا مقابلہ کیا، یقین رکھیں آصف علی زرداری کے ’’میڈیا ٹرائل علمبرداروں‘‘ کی تاریخ کے ہاتھوں شکست کے بعد تاریخ ہی کے ہاتھوں موت بھی ہو گی بلکہ ہو چکی، آج پاکستان پیپلز پارٹی قومی سیاست کا ’’مرکزثقل‘‘ ہے، جس کے ذہنی اور فکری رہبر بہرحال آصف علی زرداری ہیں۔
جناب آصف علی زرداری کی تمام مقدمات میں کلی طور پر باعزت بریت ہرزہ سرائیوں یاوہ گوئیوں اور خود ساختہ قانونی تعبیروں کی شکست ہے۔ یہ پاکستانی قومی میڈیا کے مخالف حصے کی عبرتناک پسپائی ہے جس نے ان کی کردار کشی میں اپنی صناعی و فنکاری کی نفس پرستانہ جہت کا بے دردی اور بدلحاظی کے ساتھ برہنہ استعمال کیا، یہ وقت کی صبر آزما گردشوں کی فتح ہے۔ یہ ان تمام ریاستی و غیر ریاستی حکمرانوں، افرادی گروہوں اور اہلکاروں کی زندہ تدفین ہے جنہوں نے آصف زرداری کے متعلق دشنام طرازی اور بدگوئی میں دسترس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا،جنہوں نے اپنے دنیاوی اقتدار کے منہ زور ریلوں اور عیاشیوں کے حصار میں قوم کو ذہنی پراگندگی کا شکار کئے رکھا مگر سامنے آیا کہ ’’ابھی عقل سلیم کی موت واقع نہیں ہوئی، کھیت سے چڑیاں اڑی نہیں نہ ہی کھیل بند ہوا ہے، ثابت ہوا کسی کے خلاف انفرادی یا اجتماعی ہنگامہ آرائی اور دیوانگی سے اکثر بات نہیں بنا کرتی۔ 4یا 5؍ نومبر 1996ء کی شب گورنر ہائوس لاہور سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ 6؍ نومبر 1996کی صبح ان کے کھاتے میں 72من سونے کے ٹرک ڈالے گئے یا جس کے بریف کیسوں میں 50کروڑ روپوں کی موجودگی کو ’’آنکھوں دیکھا واقعہ‘‘ بتایا گیا تھا۔
جناب آصف علی زرداری کی کلی طور پر باعزت بریت ظالم درانتی بازوں اور تجربے کار دھوکہ بازوں کا تاریخی اختتام ہے، سوال یہ ہے مغلوب الغضب اور عدم توازن سے بلاک شدہ دانش کے فرمودات سے کیونکر اتفاق کیا جائے؟ جنہیں آپ آصف علی زرداری کی کلی بریت پر انکے نقارچی قرار دیتے ہیں ہو سکتا ہے وہ ایسے خود دار ہوں جن کے نزدیک لاپرواہ لفظ فروشوں کی مزاحمت انسانیت کے احترام کا تقاضا اور وہ آصف کی عزت کر کے اسی احترام کا صدقہ اتار رہے ہوں۔

تازہ ترین