• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بقر عید سر پر کھڑی ہے چنانچہ بکرے اور سفید پوش دونوں پریشان ہیں کیونکہ دونوں کے ذبح ہونے کے دن قریب ہیں۔ میں گزشتہ ایک ہفتے سے بکروں کی ’’ونڈو شاپنگ‘‘ کررہا ہوں۔ اس کے کئی فائدے ہیں مثلاً ایک فائدہ تو یہی ہے کہ جب میں ریوڑ کے مالک کے پاس کھڑا اس سے بکروں کی قیمتیں پوچھ رہا ہوتا ہوں قریب سے گزرنے والے مجھے خریدار سمجھتے ہیں حالانکہ بقول شاعر....
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
میرے محلے کا پرچون فروش ان دو چار دنوں سے ادھار بھی دینے لگا ہے کیونکہ اس نے مجھے بکروں کی قیمتیں پوچھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اسے یقین ہوگیا کہ میرے معاشی حالات خاصے مستحکم ہیں۔ اس ونڈو شاپنگ کا دوسرا اور فوری فائدہ مجھے یہ پہنچا ہے کہ میرا بلڈ پریشر جو 100/70سے اوپر نہیں جاتا قیمت سنتے ہی ’’شوٹ‘‘ کر جاتا ہے اور یوں پانی میں نمک ملا کر پینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی!
اس دفعہ میں نے بکروں کے رویے میں تبدیلی بھی محسوس کی ہے۔ اس سے پہلے جوں جوں عید قریب آتی تھی بکرے اورخصوصاً ان کی ماں ہراساں سی نظر آنے لگتی تھی لیکن اس مرتبہ وہ زندگی موت سے کچھ بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ گاہک جس بکرے پر ہاتھ رکھتا تھا یا اس کا مالک اسے کان سے کھینچ کر گاہک کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا تھا تو وہ اپنے اگلے دونوں پائوں مضبوطی سے زمین میں گاڑ دیتا تھا مگر اس دفعہ مزاحمت تو کجا بکرا گاہک کو دیکھ کر منمناتا ہے، اس کے قدموں میں آن گرتا ہے اورآنکھوں ہی آنکھوں میں درخواست گزار ہوتا ہے کہ اسے اس عید پر بہرحال ذبح کر دیا جائے۔ قربانی کے بکروں کی زندگی سے اس قدر مایوسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا رجحان خودکشی کی طرف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خودکشی کے ضمن میں انسانوں کی تقلید کرنے سے شاید ان کا شمار بھی انسانوں میں ہونے لگے گا۔
تاہم میرے ایک دوست کا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان دنوں بکرے گاہک کودیکھ کر پوری قیمت کے ساتھ رسی تڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے پہلے اللہ کی رضا پر جان دینے والوں کے حوالے سے تقدس کا ایک تصور موجود تھا مگر اب یہ تصور مدہم پڑ گیا ہے کیونکہ اب دہشت گرد بھی خود کو جنت کا حقدار سمجھنے لگے ہیں۔
تاہم صورتحال جو بھی ہو بکرے تو ہوتے ہیں ذبح ہونے کے لئے۔ یہاں مجھے ایک محاورہ یاد آگیا ہے جو عموماً ایسے مواقع پر ادا کیا جاتا ہے اور یہ محاورہ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ ہے۔ میں اس محاورے کے حوالے سے ہمیشہ کنفیوژڈ رہا ہوں کیونکہ اگر تو اس سے مراد یہ ہے کہ بکروں کی ماں اپنی جان کی خواہ جتنی خیر مانگے بکروں کے بعد اس کی باری بہرحال آئے گی تو یہ محاورہ غلط ہے کیونکہ بکرے کی ماں بکری ہوتی ہے اور جب بکرے ذبح ہورہے ہوتے ہیں تو بکریاں خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ جانتی ہیںکہ ان کی باری نہیں آنی۔ ان کی باری تو اس وقت آتی ہے جب گوالا دیکھتا ہے کہ ان کے تھنوں میں دودھ نہیں رہا پھر وہ بھی قصائی کے سپرد کردی جاتی ہیں اگر اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ بکرے کی ماں اپنے بچوں کی جانوں کی خیر کب تک منائےگی کیونکہ انہوں نے تو چھرے تلے آنا ہی آنا ہے، تو یہ محاورہ درست ہے لیکن کسی کے خیر منانے سے بلائیں ٹلا نہیں کرتیں۔ قصائی کے ہاتھ سے چھری چھیننا پڑتی ہے اور یہ کام ’’بکریاں‘‘ نہیں کرسکتیں۔
جہاں تک قصائیوں کا تعلق ہے یہ تو ہمارے معاشرے میں اسٹیٹس سمبل بنے ہوتے ہیں، جس گھر میں قصائی آجائے وہ فخر سے سب کو بتاتا پھرتا ہے کہ آئو دیکھو قصائی میرے گھر میں رونق افروز ہے چنانچہ عید کے روز قصائی کی جو آئوبھگت ہوتی ہے اس پر کسی وی وی آئی پی کا گمان گزرتا ہے۔ وہ خون آلود کپڑوں کے ساتھ چھری لہراتے ہوئے بازاروں میں سے گزرتا ہے اور لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بچھاتے چلے جاتے ہیں۔ میری بھی کئی قصائیوں سے رسم و راہ ہے۔ میں اگر قربانی کا کوئی بکرا گھیرنے میں کامیاب ہوگیا تو میرے گھر بھی قصائی آئے گا اور میری بھی ’’ٹوہر‘‘ ہو جائے گی۔ باقی رہی بکرے کی ماں تو اس کا کام تو فقط دعائیں مانگنا ہے۔ وہ مانگتی رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

تازہ ترین