کنجوسی، خساست اور حرص ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں جو شخص کنجوس ہوتا ہے اس کو ہی مال و دولت کی ناقابل تسکین حرص و تمنا ہوتی ہے۔ وہ ہر طریقہ سے جائز یا ناجائز، زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ حرص کبھی بھی پوری نہیں ہوتی ۔ آپ کو علم ہے کہ کس طرح فلپائن کے مرحوم صدر مارکوس نے ہو س و حرص سے اندھا ہوکر کئی بلین ڈالر قومی خزانہ سے چرا کرسوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع کرائے ، ذلیل وخوار ہو کر ملک سے فرار ہو کر غیر ملک میں مر گیا اور وہ کثیر رقم کچھ کام نہیں آئی ، سوچئے کہ متوسط طبقہ کے انسان کو اپنے لئے ، اپنے اہل و عیال کے لئے زیادہ سے زیادہ کیا چاہئے ۔ ایک اچھا سا گھر اور زیادہ سے زیادہ ایک ملین ڈالر ۔ اگر یہ اس پر قناعت کرتا تو غالباًََ باعزت زندگی گزار کر اپنے ملک میں ہی مرتا ۔ دوسری مثال نائیجیریا کے مرحوم ڈکٹیٹر جنرل سینی اباچاکی ہے ۔ اس نے تقریباََ تین بلین ڈالر اپنے ملک کی تیل کی فروخت میں سے چرائے اور سوئٹزرلینڈ میں رکھ دیئے ۔ ایک دن اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ مر گیا اور وہ رقم اس کے کچھ کام نہ آسکی۔ فلپائن اور نائیجیریا کی حکومتوں نے سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا اور وہ رقم واپس ان ممالک کو مل گئی۔ اگر اباچا چند لاکھ ڈالر کی پونچی چھوڑ کر مرتا تو لوگ اب تک اس کی عزت کرتے مگر آج اس پر لعنت بھیجی جاتی ہے کیونکہ عوام ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ ہیں اور ان کے قصے روز ہی اخبارات اور ٹی وی کی خبروں اور مباحثوں کی زینت بنتے ہیں اس لئے اس بارے میں لب کشائی نہیں کروں گا۔
آئیں پہلے خساست وکنجوسی کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں۔ خساست انسان کے اندر ایک گہری و بنیادی اخلاقی بیماری ہے۔ یہ بیماری ایک طرح کی انا اور مکمل خود غرضی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس بیماری کا شکار ہوکر انسان بالکل اپنے آس پاس کے حالات سے بے خبر اور اندھا ہوجاتا ہے اور خود کو دنیا کا محور تصور کرنے لگتاہے۔ جب انسان کو خود اور دولت سے اس قدر زیادہ محبت ہوجاتی ہے تو پھر وہ کسی بھی ضرورت و حاجتمند کی مدد کے قابل نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے سخت پھٹکار کی ہے (سورة الماعون، سورة تکاثر ) ۔ کنجوسی اور بخل کی وجہ سے انسان نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ پورے طبقہ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پھر ایسے اشخا ص کی دولت جمع کرنے کی حرص و طمع کی کوئی حد نہیں رہتی ، ایک بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ مال و دولت ، جائیداد حاصل کرنا ایسے شخص کی زندگی کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔ دوستی ، مراسم حسن سلوک وغیرہ کا مقصد صرف اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں اس طرح مال ودولت جمع کرنے کی سخت مذمت فرمائی ہے(سورة ہمزہ) ۔ یہ لوگ دولت کی پوجا کرتے ہیں مگر عموماً اس مال و دولت سے مستفید ہونے سے پہلے ہی مر کر اللہ کے عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ زندگی بھر سخت ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور ان کو سکون نصیب نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس قرآن کریم ہمیں خرچ کی ترغیب دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اپنی دولت نیک کاموں پر خرچ کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کریں ۔ سورة البقرہ کی ابتدائی آیات میں بتایا گیا ہے کہ فلاحی کاموں پر دولت خر چ کرنے والوں کے لئے بڑا انعام ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ خساست سے اجتنا ب کرو کہ اس نے اس سے پہلے کئی قوموں کو تباہ کیا تھا۔ وہ لوگوں کو جھوٹ بولنے پر اکساتی ہے ، دوسروں پر جبر و ظلم کی ترغیب دیتی ہے یہاں تک کہ خونی رشتہ ختم کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ،” ایے اللہ میں خساست سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ خساست اور ایمان کبھی مومن کے دل میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
عربی زبان میں ایک کہاوت ہے، ”جو شخص بخیل ہوتا ہے اور اپنی دولت غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کرتا تو اس کی دولت حکومت کی غلام بن جاتی ہے اور وہ اس کو بے یار و مددگار بنا دیتے ہیں۔ “
کلام مجید میں اللہ ر ب العزت نے اس لعنت پر سورة القصص میں قارون کا عبرتناک قصہ بیان فرمایا ہے ۔ قارون حضرت موسیٰ کا چچا زاد بھائی تھا۔ ”یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا پھر وہ اپنی قوم سے سرکش ہو گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا کہ پھول مت ، اللہ پھولنے والوں اور تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر ، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ تو اس نے کہا کہ یہ سب کچھ تو مجھے اپنے علم (عقلمندی)کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے ۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور تھے؟ مجرموں(اور گنہگاروں) سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے ۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے تنگ کردیتا ہے۔ کافر فلاح نہیں پایا کرتے۔“ کلام مجید میں یہ بھی بتایا گیا ے کہ یہ شخص یعنی قارون بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورة فاطر میں فرمایا ہے۔ ” جو لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں تو یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ان کو ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔“
13جنوری2010کے روزنامہ نیوز میں ہمارے محترم سینئر کالم نگا ر اور تجزیہ نگار جناب میر جمیل الرحمن صاحب نے حر ص و طمع پر ایک مختصر مگر نہایت اہم مضمون شائع کیا تھا جس میں آپ نے اس لعنت کا ملکی سیاست اور قومی لیڈروں میں سرایت ہونے کا تفصیلی ذکر کیا تھا مگر کہا جاتا ہے کہ مگر مچھ کے پیٹ پر پانی نہیں ٹھہرتا ۔ جب لوگ ایمان و غیرت سے مُبرّا ہو جائیں تو پھر ہر چیز جائز نظر آتی ہے اور حر ص و طمع کی کوئی حد نہیں رہتی۔ خساست ، کنجوسی ، حرص و طمع کے بارے میں کچھ تاثرات بیان کرنے کے بعد اب آپ کی خدمت میں چند معروضات اس کا متضاد یعنی سخاوت اور فراخدلی کے بارے میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کلام مجید میں اللہ رب العزت نے کئی جگہ اپنا مال و دولت نیک، فلاحی کاموں اور غریبوں ، یتیموں اور بیوہ عورتوں کی مدد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ جہاں ہم قارون کی کنجوسی اور انجام کے بارے میں سوچتے ہیں تو فوراًَ ہی ہمیں حاتم طائی (سخی حاتم ) کی سخاوت اور فراخدلی یا دآ جاتی ہے۔
حاتم طائی کوئی افسانوی یا فرضی شخصیت نہیں ہیں ۔ یہ ایک عیسائی عرب تھے اور رسول اکرم ﷺ کی آمد مبارک سے پہلے پید ا ہوئے تھے ۔ ایک غزوہ میں ان کی بیٹی قیدی کی حیثیت سے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں ۔ جب رسول اکرم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے فوراًَ ہی ان کو بلوا لیا ، نہایت عزت و احترام سے اپنے پاس بٹھایا اور اس کے والد کی سخاوت کی تعریف فرمائی اور دو صحابیوں کے ساتھ باعزت ان کو اپنے قبیلہ میں واپس بھجوا دیا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کے والد یعنی حاتم طائی اعلیٰ کردا ر کے مالک تھے۔ حاتم طائی ایک اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے ۔ ان کا یہ شعر بے حد مشہور ہے جو انہوں نے اپنی بیوی ماویہ کو مخاطب کر کے کہا تھا۔
اے ماویہ دولت صبح آتی ہے اور شام کو غائب ہو جاتی ہے
کچھ بھی باقی نہیں رہتا سوائے مبہم یادداشتوں کے
اسلام کے علاو ہ کسی اور مذہب نے سخاوت پر اتنا زور نہیں دیا۔ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھی سخاوت اور فراخدلی کا بہترین نمونہ تھے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کر چکا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں سور ة تکاثر، سورة ماعون اور سورة ہمزہ میں خساست اور مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی پر لعنت بھیجی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سماجی اور معاشی برائیوں کی سب سے بڑی وجہ حرص و طمع اور کنجوسی و بخیلی ہے ۔ جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ ہر گناہ کرنے میں نہیں جھجھکتے ۔ منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی ، چوری سب جائز نظر آتے ہیں۔ ان کی ان مذموم حرکات کی وجہ سے عوام اور ملک کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام کے اخلاق و کردار پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اسی ذلالت کا شکار ہوجاتی ہے۔ غیر اخلاقی اور غیر قانونی دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ فوراًََغیر ممالک کی نظر میں آ جاتے ہیں اور وہ باآسانی ان کو اپنے دام میں پھنسا لیتے ہیں ا ور ان کے ذریعے اپنے مفاد کے لئے پالیسیاں بنواتے ہیں اور ان پر عمل کراتے ہیں اور یہ مفاد پرست اپنے ملک کونقصان پہنچانے میں نہ ہی جھجھکتے ہیں اور نہ ہی ان کو شرم و حیا آتی ہے۔ بد قسمتی سے یہ مملکت خداداد پاکستان شروع سے ہی اس لعنت اور ایسے غدّاروں کا شکار رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کردار اور اخلاق سے اس لعنت کو دور کرے اور سخاوت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی سعادت نصیب کرے۔ (آمین)
جہاں ہمارے ملک میں لاتعداد کنجوس، حرص ، طمع سے لبریز لوگ موجود ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے لاکھوں فراخدل ، سخی ، مخیر حضرات بھی پیدا کئے ہیں جو غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، لاتعداد مدارس اور دوا خانے چلا رہے ہیں جہاں غریب طلبہ و عوام تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مفت علاج حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ (آمین)