• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایک زمانے سے سوچ رہے ہیں کہ اردو میں انگریزی لفظ ’’کرپشن‘‘ کا متبادل کیا ہے؟ اس کے لئے ہم نے کوئی لغت دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ ہمیں یقین کامل تھا کہ وہاں کوئی بہت ہی مشکل عربی فارسی کا لفظ ہو گا۔ ’’بدعنوانی‘‘ ایک لفظ ملا کہ ہمارے اردو والے اسی سے دال دلیہ کر لیتے ہیں۔ لیکن بہت دماغ سوزی کے بعد بھی کرپشن جیسا نہایت ہی جامع اور مانع اردو لفظ ہمیں نہیں مل سکا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ انگریزی کا یہ لفظ استعمال کر کر کے ہم اس کے ساتھ اتنے مانوس ہو چکے ہیں کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی لفظ جچتا ہی نہیں۔ اصل میں یہ انسیت بھی بڑی خطرناک چیز ہے۔ سب کو کھا جاتی ہے۔
لیجئے، ہم چلے تھے کرپشن کی بات کرنے اور کہاں سے کہاں نکل گئے۔ تو صاحب، کرپشن بہت بری بلکہ بہت ہی موذی بیماری ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ ہو تو ہر شہر کے ہر چوراہے اور ہر بینک کے دروازے پر آپ یہ لکھا دیکھ لیجئے say no to corruption جیسے ہم سب بہت انگریزی جانتے ہیں۔ اور اس نعرے کا اثر صرف انگریزی میں ہی ہو سکتا ہے۔ آج کل سارا ملک کرپشن کرپشن پکار رہا ہے۔ اور ہمارے نیازی خاں نے تو کہہ دیا ہے کہ یہ جو ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا ہے اس کی وجہ کرپشن ہی ہے۔ کرپشن بھی اعلیٰ سطح پر اور سرکاری ایوانوں میں۔ یہ تو خیر، ہر ذی شعور اور ذی ہوش انسان مانتا ہے کہ کرپشن بہت ہی بری بلا ہے۔ یہ کرپشن خواہ روپے دو روپے کی ہو یا اربوں کھربوں کی۔ یہ کرپشن پولیس، تھانوں اور سرکاری دفتروں میں رشوت کے ذریعے ہو یا وزیروں اور حکمرانوں کے بھاری بھاری کمیشنوں اور سرکاری مال میں خورد برد کے ذریعے، ہر معاشرے کے لئے ناسور اور سرطان ہے۔ لیکن کیا اس سے کسی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی واقعی رک جاتی ہے؟ یہ سوال ہے غور کرنے کا۔
کم سے کم ہم تو ایسا ہی سمجھتے تھے بلکہ ہمیں یہی سمجھایا گیا ہے کہ کرپشن ہی ہمارے زوال کی وجہ ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ وہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ لیکن دنیا کے ممتاز اور مشہور جریدے ’’فوربز‘‘ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جو رپورٹ شائع کی ہے وہ کچھ اور ہی کہتی ہے۔ ایمنسٹی نے ایشیا پیسفک کے سولہ ملکوں میں اٹھارہ مہینے سروے کیا۔ بیس ہزار لوگوں سے بات کی اور ایشیا کے پانچ سب سے زیادہ کرپٹ (بدعنوان) ملکوں کا نام پیش کر دیا۔ اب ہمیں تو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ (بدعنوان) ملک ہے۔ کم سے کم ہم ہندوستان سے تو زیادہ ہی کرپٹ ہیں۔ لیکن ایمنسٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان ہم سے کہیں زیادہ کرپٹ یا بدعنوان ملک ہے بلکہ ایشیا کے پانچ ملکوں میں بھی سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہے۔ پھر بھی وہ ترقی کر رہا ہے۔ چلئے، پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ ایمنسٹی کی رپورٹ کیا کہتی ہے۔ اس نے ایشیا کے جن پانچ ملکوں کو زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے ان میں ہندوستان، پاکستان، میانمار، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔ اب رپورٹ کہتی ہے کہ ان پانچ ملکوں میں سب سے زیادہ بدعنوان یا کرپٹ ملک ہندوستان ہے۔ ہندوستان میں کرپشن کی شرح 69 فیصد ہے۔ جی ہاں، انہتر فیصد! اس کے بعد ویت نام ہے۔ جہاں کرپشن کی شرح65 فیصد ہے۔ تھائی لینڈ میں یہ شرح41 فیصد ہے۔ اب رہے پاکستان اور میانمار، ان دونوں ملکوں میں کرپشن کی شرح چالیس فیصد ہے۔ صرف چالیس فی صد۔ یعنی ہم ہندوستان سے خاصے نیچے ہیں۔ گویا ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ کسی معاشی معاملے میں تو ہم ہندوستان سے بہتر ہیں۔ ہندوستان میں ایک لیڈر اربوں روپے کا مویشیوں کا چارہ کھا جاتا ہے۔ اس کی لوک سبھا کے بہت سے ارکان پر فوجداری مقدمے ہیں۔ ہم ان کی فلمیں دیکھتے ہیں تو لگتا ہے جیسے وہاں رشوت خوروں، بدمعاشوں اور بے ایمانوں کا راج ہے۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جتنی وارداتیں وہاں ہوتی ہیں ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ گرمیت رام رحیم سنگھ جیسے گرو بھی وہیں پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہاں ننگ دھڑنگ سادھو اپنے بدن پر بھبوت مل کر جلوس کی شکل میں نکلتے ہیں، اور عورتیں ان کی پوجا کرتی ہیں۔ یوں تو اندھی عقیدت ہمارے ہاں بھی کچھ کم نہیں، مگر اس میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے با وجود وہ ملک برابر ترقی کر رہا ہے۔ وہ دنیا کی دوسری یا تیسری معیشت مانی جاتی ہے۔ ساری دنیا اسکا لوہا مانتی ہے۔ عالمی معیار کی جتنی یونیورسٹیاں وہاں ہیں ہمارے ہاں نہیں ہیں۔ سائنسی اور صنعتی میدان میں وہ ہم سے کہیں آگے ہے۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب آپ ہی سوچئے۔ اور انتظار کیجئے کہ شریف خاندان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

تازہ ترین