خواجہ صالح ماڈل ٹاؤن سے جبکہ میں اور صلو درانی میزبان کی بھیجی ہوئی گاڑی پر ”بیلی پور“ سے روانہ ہوئے۔ موٹر وے کے طے شدہ سپاٹ پر خواجہ صاحب ہم سے چند منٹ پہلے پہنچ چکے تھے سو ہم نے سرکاری سواری چھوڑی اور خواجہ کی گاڑی میں شفٹ ہو گئے جس کے اندر پرانے گیت نئی آوازوں اور سازوں کے ساتھ چل رہے تھے۔ ہمارا ایج گروپ تو ایک ہے لیکن میں بہت قدیم، خواجہ بہت جدید اور صلاح الدین درانی ففٹی ففٹی کا ملا جلا کیس ہے، میوزک کی طرح ”ری مکس“ سمجھ لیں۔ یہ 27 اپریل کی ایک گرم دوپہر تھی جب ہمارا یہ قافلہ گوجرانوالہ روانہ ہوا جو کبھی اپنے پہلوانوں اور کھانوں کے لئے مشہور تھا اور آج کل اس حوالہ سے جانا جاتا ہے کہ جس مجرم نے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا ہو وہ گوجرانوالہ ریجن میں وارداتیں شروع کر دے..... جہنم رسیدگی کا شوق جلد از جلد پورا ہو جائے گا۔
کچھ لوگ اپنے پیشہ کا مان بھی ہوتے ہیں اور پہچان بھی۔ تقریباً سوا سو پولیس سٹیشنز پر مشتمل گوجرانوالہ رینج کا ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ بھی ایسے ہی خال خال اور باکمال پروفیشنلز میں سے ہے جو ”جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے“ کی جیتی جاگتی مثال ہے اور یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ ہمارے درمیان سالوں پر محیط قریبی تعلق ہے ..... وہ اجنبی ہوتا تو شاید میں زیادہ کھل کر بات کر سکتا ۔ ہلکا سا تعارف یہ سمجھیں کہ اس شخص نے اپنی نوجوان ٹیم کے ساتھ پے در پے ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ عمومی طور پر نفرت کا سمبل پولیس اپنے شہر والوں کی اتنی چہیتی ہو گئی کہ دو ڈھائی سال میں چار بار گوجرانوالہ شہر سے پھول ختم ہو گئے کہ لوگوں نے پولیس والوں پر نچھاور کر دیئے کیونکہ دیانت اور دلیری سے سرشار ٹیم نے اپنے کیپٹن کی غیرمعمولی قیادت میں اس شہر کو درندوں اور بھیڑیوں سے اس طرح پاک کر دیا کہ اس حقیقت پر افسانے کا گمان گزرتا ہے۔ قتل و غارت، کروڑوں کا بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی داستان یہاں تک آن پہنچی تھی کہ گوجرانوالہ کے صنعتکار و سرمایہ دار ملک چھوڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے شہر میں صرف ایک ”انڈسٹری“ کو عروج تھا اور یہ انڈسٹری تھی اغوا برائے تاوان کی کہ 50،60،70 لاکھ روپے تاوان فی مغوی معمولی اور معمول بن چکا تھا جب جاسوسی ناولوں اور سسپنس بھری فلموں سے بھی زیادہ ناقابل یقین طریقے سے خوفناک ترین نام اوپر نیچے بدترین انجام سے دوچار کر دیئے گئے اور بے چین شہر شانت ہو گیا۔
ننھو گورایہ، آصف وڈو، کالا گجر اور احمدی نت ایسے چھلا وہ نما مجرم تھے جن کی ایک فون کال سے بھونچال آجاتا۔ عام مجرم تو ٹھکانے بدلتے ہیں یہ تیزی سے ملک بدلتے رہتے تھے لیکن ایک شخص نے آہنی عزم کے ساتھ ایک نئی ٹیم کھڑی کی، انہیں موٹی ویٹ اور موبلائز کیا اور سائنٹفک اپروچ کے ساتھ مافیا در مافیا کے ساتھ پوری قوت سے ٹکرایا اور اسے پاش پاش کر کے رکھ دیا۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہمارا ملک گڈ گورننس کا کیس نہیں رہا کہ حالات بگاڑ کی انتہا پر ہیں اور گڈ گورننس وہاں کام آتی ہے جہاں معاملات نارمل ہوں۔ پاکستان کو ہر شعبہ، محکمہ اور میدان میں گڈ گورننس نہیں، انتہائی CREATIVE یعنی تخلیقی گورننس کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار چیمہ اور ان کی ٹیم کی بریفنگ کے درمیان ”تخلیقی سوچ اور اپروچ“ ہی سب سے ممتاز اور نمایاں تھی۔
افسروں اور جوانوں کے لئے بہترین ورکنگ کنڈیشنز، سزا کے خوف اور عمدہ کارکردگی پر انعامات کی کشش، ایس ایچ اوز کی علماء کے ساتھ انٹرایکشن اور انہیں بتانا کہ جس آقا کے امتی ہو ان کا امتی ہونے کے اصل تقاضے کیا ہیں، روٹین کی کھلی کچہریوں کے ساتھ جمعہ کی نماز کے بعد مساجد کے باہر افسران کا عوام سے رابطہ، مصالحتی کمیٹیوں کا قیام تاکہ چھوٹے موٹے مسائل مقامی طور پر حل ہوں اور پولیس جرائم پیشہ عناصر پر یکسوئی کے ساتھ فوکس کر سکے، اصل سٹیک ہولڈرز یعنی سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر چلنا، جوانوں کی بیرکس سے لے کر خوراک تک کا خیال، سٹیشنری سے لے کر پٹرول تک کا بندوبست تاکہ مدعی پر بوجھ ہو نہ اپنے ضمیر پر، سپیشل برانچ سے اپیل کہ ہمیں سیاسی نہیں کرائم سے متعلق انفارمیشن دیجئے۔ مختصراً یہ کہ ایک کثیر الجہتی جنگ تھی جو پلان کی گئیلڑی گئی اور جیتی گئی۔
27 اپریل کی شام گوجرانوالہ سٹیڈیم میں حسب روایت ایک شاندار تقریب کا اہتمام تھا جس میں آئی جی پنجاب، گوجرانوالہ کے سیشن جج، وائس چانسلر ، سی سی پی او لاہور پرویز راٹھور، عبدالقادر حسن اور ہم بھی شریک تھے۔ اب تک چودہ کروڑ روپے کی ریکوری کر کے مالکان کو ادائیگی ہو چکی۔ اس دن بھی بھاری رقومات کے ساتھ ساتھ گاڑیاں، مال مویشی اور دیگر سامان مالکان کو لوٹانے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو کیش انعامات سے بھی نوازا گیا۔ شہریوں کی موجودگی میں ایسی تقریب یقینا پولیس اور شہریوں میں قربت اور پولیس کی کمٹمنٹ میں اضافہ کا باعث بنتی ہو گی کہ شہریوں کے تعاون کے بغیر پازیٹو پولیسنگ ممکن نہیں۔
تقریب کے دوران میں سوچتا رہا کہ اگر ٹیکنالوجی وہاں پہنچ جائے کہ انسانوں کی فوٹو کاپیاں بن سکیں تو ڈی آئی جی گوجرانوالہ رینج کی فوٹو کاپیاں بنوا کر پورے صوبے میں بانٹ دی جائیں تاکہ لوگ اپنے اپنے ”گورایوں“ سے نجات پا سکیں۔
تقریب کے بعد ”بڑاکھانا“ بھی تھا جو کہنے کی حد تک ہی بڑا ہوتا ہے لیکن ہم اس سے پہلے رخصت ہو لئے کہ کمر کی فنی خرابی زیادہ دیر تک سیدھی کرسی پر بیٹھنے نہیں دیتی اور آرتھو پیڈک چیئر وہاں تھی نہیں۔ سیدھے خواجہ صالح کے نئے خوبصورت گھر پہنچے، غسل اور تھوڑا سستانے کے بعد ہم تھے اور خواجہ صاحب کے دست راست پیاجی کی مہمان نوازی لان میں باربی کیو کے دوران زیادہ تر گفتگو اسی موضوع پر چلتی رہی کہ اگر یہ سب کچھ گوجرانوالہ میں ہو سکتا ہے تو باقی صوبے میں کیوں نہیں؟ لیکن جہاں پولیس ہی مجرموں کی تھامو ہو وہاں جرائم کی روک تھام کون کرے گا؟