• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے دئیے گئے چھ ہفتے مکمل ہو گئے ہیں ۔شریف فیملی کے خلاف چار ریفرنس دائر کر دئیے گئے ہیں۔اگر چہ چوتھا ریفرنس وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ہے مگر میں انہیں بھی شریف فیملی کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اسحاق ڈار کے علاوہ ریفرنس میں نامزد کردہ شخصیات نواز شریف ، حسین نواز ، حسن نواز ، کیپٹن صفدر اور مریم نواز ہیں ۔مریم نواز کے خلاف لندن کے فلیٹس کے علاوہ جعل سازی کا معاملہ بھی ریفرنس میں شامل ہے ۔یہ مقدمات لندن فلیٹس ، آف شور کمپنیوں‘ عزیزیہ اسٹیل مل ،آمدن سے زائد اثاثہ جات اور ہل میٹل کمپنی کے معاملات پر بنائے گئے ہیں ۔جس وقت یہ خبر الیکٹرونک میڈیا کی لہریں ہر گھر میں پہنچا رہی تھیں میں قیصر امین بٹ کے ساتھ لاہور جم خانہ کے ایک کمرے میں محو گفتگو تھا۔دور کہیں کچھ اہل ِ زر اور اہل حکم گالف کھیل رہے تھے ہمارا موضوع نون لیگ کا مستقبل تھا ۔
قیصر امین بٹ کٹر قسم کے نون لیگئے ہیں ۔ وہ لاہور کے سابق ایم پی اے بھی ہیں اس کے علاوہ کئی عوامی عہدے ان کے پاس رہے ہیں ۔میں مسلسل انہیں یہی سمجھانے کی کوشش کررہا تھاکہ اب نون لیگ اندھیروں میں ڈوبنے والی ہے ۔کشتی کا ناخدا طوفان کی نذر ہوچکا ہے ۔اب اس میں سوار رہناکوئی عقل مندی نہیں ۔اردگرد کئی کشتیا ں موجود ہیں ۔بہتر یہی ہے کہ ان میں اپنی جگہ بنا لی جائے مگرنون لیگ پر ان کے اعتماد کو دیکھ کر میں حیران و پریشان تھا ۔وہ بار بار میری بات کی تردید کرتے تھے اور کہتے تھے’’جب تک شہباز شریف موجود ہیں یہ کشتی نہیں ڈوب سکتی۔ اس کی بات کی گواہی بس چند دن میں حلقہ ایک سو بیس میں محترمہ کلثوم نواز کی جیت سے ملنےوالی ہے۔‘‘بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حلقہ ایک سوبیس کے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کامیاب ہو گئی تو وہ پرندے جو پرواز کےلئے پر تول چکے ہیں خاموشی سے اپنے پر سمیٹ لیں گے اور نون لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل رک جائے گا ۔ہاں حلقہ ایک سوبیس میں اگر تحریک انصاف فتح یاب ہو گئی تو پی ٹی آئی کی یہ فتح نون لیگ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی ۔جب میں نے یہ خیال قیصر امین بٹ کے سامنے رکھا اور کہا کہ محترمہ کلثوم نواز کی جیت کا کوئی امکان نہیں تو وہ کہنے لگے۔ ’’بے شک اِس وقت تمام مرئی اور غیر مرئی قوتیں محترمہ کلثوم نواز کی شکست کےلئے مصروف عمل ہیں مگرمرا یقین ِمحکم ہے کہ محبت فاتح ِعالم ہے ۔عوام سے محبت کے سبب نون لیگ ضروراس حلقہ سے فتح مند ہوگی ۔یہ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف گزشتہ انتخابات میں پچاس ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے ہیں اب یہ برتری کے ووٹوں کی تعداد کچھ کم ہوجائے مگر اُن کی جیت پر ایمان ہے ۔‘‘
میں نے ان سے سوال کیا کہ ایک طرف آپ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو ایک سازش کے تحت نکالا گیا ہے ۔وہ لوگ جو ایک مضبوط وزیراعظم کو سازش کے ذریعے حکومت سے نکال سکتے ہیں آپ کیسے یہ تصور کررہے ہیں کہ وہ نون لیگ کو دوبارہ اقتدار میں آنے دیں گے ۔تو وہ کہنے لگے ۔’’اللہ جسے چاہتا ہے اسے بادشاہی عطا کرتا ہے اورآوازِ حلق کونقارہِ خدا سمجھو ۔ میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کے دل میں جس کی محبت ڈال دیتا ہے ۔اسے اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔‘‘میں نے حیرت سے پوچھا کہ جس خاندان پر اتنے سفاک جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سزا سنا چکے ہوں آپ کے خیال میں کیا اب بھی لوگ ان کی محبت میں گرفتار ہوسکتے ہیں ۔وہ مسکرائے اور بولے ’’ عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل قرار دے کر پھانسی دی مگر لوگوں نے انہیں مرنے نہیں دیا آج بھی پوری قوم کے دل میں وہ زندہ و جاوید ہیں ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کی سمگلنگ کے مقدمات درج ہوئے محترمہ کے تمام اکائونٹس سیز کر دئیے گئے اور پھر انہیں ایک دھماکے میں دنیا سے رخصت کردیا گیا مگر اِس کے باوجود پاکستان میں ہر شخص ان کا نام عزت و احترام سے لیتا ہے ۔کیوں ۔صرف اس لئے کہ اللہ کے دربار سے انہیں دھتکارا نہیں گیا ۔حکومتوں کے فیصلے زمین پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیر اعظم ہو نگے ۔ہرگز نہیں ۔آسمان والے نے مگرلوح پر یہی کچھ لکھ رہا تھا۔ لکھے ہوئے کو کوئی بدل نہیں سکتا ۔‘‘ پھر میں نے انہی کے ڈومین میں داخل ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ کیا عدالتی فیصلے سے یہ نہیں لگ رہا کہ اللہ تعالیٰ نواز شریف سے ناراض ہوچکا ہے ۔ان کی دراز رسی کھینچ لی گئی ہے ۔انہوں نے عمر بھر جو دولت اکٹھی کی ہے آخری عمر میں انہیں اُس دولت کا حساب دینا پڑگیا ہے اور اس کی واضح ترین وجہ یہی دکھائی دیتی ہے کہ انہوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں غریبوں ، مسکینوں ،بے سہاروں ، دہقانوں ، مزدوروں کےلئے کچھ نہیں کیا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ انہیں کسی غریب کی آہ لگ گئی ہو ۔کسی یتیم کی بددعا انہیں لے ڈوبی ہو ۔ان کے دور میں بے گناہ مرنے والوں کا خون بھی تو انہی کی گردن پر ہے ۔ جو شخص دوائی نہ ہونے سبب سسک سسک کر مرا ہے کیا اس کا جواب حکمران ِ وقت نے نہیں دینا ۔وہ جس ماں نے بھوک سے تنگ آکر بچوں سمیت خود کشی کر لی ہے۔ کیا خیال ہے کہ اُس جرم کا سزاوار کون ہے ۔ ممکن ہےکسی ایسی بات کے سبب خدا نے اقتدار کسی اورکو سونپ دیا ہو ‘‘اب انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’بے شک عمران خان ملک کے مقبول لیڈر ہیں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں ان کےلئے محبت ہے تمہارے خیال میں اِس کی کیا وجہ ہے ۔کونسا ایسا کام کیا ہے انہوں نے کہ لوگ ان کے بارے میں محبت سےسوچنے لگے ہیں۔‘‘ تو میں نے کہا ’’ مجھے لگتا ہے انہیں کسی غریب کی دعا لگی ہے ۔ شوکت خانم اسپتال میں کینسر کا مفت علاج کرانے والے کسی غریب نے کسی ایسے وقت میں ان کےلئے دعا کی ہے جو قبولیت کا لمحہ تھا ۔‘‘وہ مسکرا ئے اور بولے ’’ایسا ہی لگتا ہے وگرنہ عمران خان میں مجھے تو کوئی خوبی نظر نہیں آتی ‘‘میں نے فوراً کہا ’’کیا اس دور میں دیانت دار سے بڑی بھی کوئی خوبی ہوسکتی ہے؟

تازہ ترین