• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم کی بدلتی رُت، صحت پر جتنے اثرات ڈال سکتی ہے وہ ڈال رہی ہے۔ سیاسی موسم تیزہو رہا ہے۔ موسم ِ عدل کی رفتاربہت تیزہونے والی ہے۔ دنیا میں طوفان برپا ہیں۔ امریکی ساحلوں پرآبادیوںکو بربادیوں کا سامنا ہے۔ لگتا ہے حالات کو بھونچال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پتا نہیں کیا سے کیا ہوجائے؟ ایک بات ضرور ہےکہ اس ملک سے کرپشن کا بازار ختم ہوجائے گا۔ بہت سخت احتساب ہونے والا ہے۔ کوئی نہیں بچے گا۔ بچنے والے بہت تھوڑے ہوںگے۔ ملک سدھرجائے گا۔ اگلا موسم چوروں کے لئے خطرناک ہے ان کا بچنا مشکل ہوگا۔
چوہدری نثار علی خان کے ایک حالیہ انٹرویو کا بڑا چرچا ہے۔ ان کی بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ سیاست اور حکومت واحد سبجیکٹ ہے جو ایک ہی وقت میں آرٹ بھی ہے اور سائنس بھی۔ جہاںتک ن لیگ کا تعلق ہے تووہ آرٹ تو بہت سمجھتی ہے، سائنس اس کے بس کی بات نہیں۔ اس میں کئی پیچیدہ موڑ آ جاتے ہیں، پیچیدگی میاں صاحب کو پسندنہیں۔شاید اسی لئے وہ انگلستان سے امریکہ جانے کاسوچ رہے ہیں مگر انہیں سوچ لینا چاہئے کہ امریکہ خود سمندری طوفانوں کی زد میں ہے۔ طوفان تو طوفان ہوتے ہیں وہ کسی کا اتا پتا نہیں پوچھتے۔ ان کی فتوحات کا اندازہ تباہیوں اور بربادیوں ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ نثار علی خان نے مریم نواز کورہنما تسلیم کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کی۔ پھر کہا’’بچے تو بچے ہوتے ہیں اور بچے غیرسیاسی ہوتے ہیں‘‘ اگر اس سارے انٹرویو میں سلیم صافی یہ پوچھ لیتے کہ حامد ناصر چٹھہ نے آپ لوگوں کوکس وجہ سے چھوڑا تھا تو پھر بہت سے چہرے بے نقاب ہو جاتے۔ وہ سب کچھ بھی بے نقاب ہو جاتا جو جے آئی ٹی میں نہیں ہوسکا۔
لاہور میں ایک دن اور ایک رات کا قیام بھی عجیب تھا۔ پہلے شام آئی۔ ہر موسم کے دوست پیپلزپارٹی کے رہنما نوید چوہدری نے عشایئے کااہتمام کر رکھا تھا۔ وہاں کچھ دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ گپ شپ ہوئی۔ ہمارے ہاں گپ شپ کے لئے سب سے اہم اور ضروری موضوع سیاست ہی ہوتاہے۔ قومی سیاست سے شروع ہوکر بحث کا آخری حصہ این اے 120 بن جاتا ہے۔ جہاں پتا نہیں الیکشن ہوگا بھی یا نہیں۔ جہاں سےپتا نہیں دوچار دن پہلے بھی کوئی نااہل ہوسکتا ہے۔ خیر گپ شپ سے فرصت ہوئی تو پھر ایک اور گپ شپ کا سامنا تھا۔شب نصف سے آگے جاچکی تھی مگر طاہر سرور میر، عمار گیلانی اور فہد شہباز کی باتیں، سوئےہوئے تاروں کو جگا رہی تھیں۔ اگر آپ کوایسے میں لقمان کی نصیحت یاد آجائے کہ شب کو نیند بھی کرلینی چاہئے تو پھراجازت لینے کودل چاہتا ہے۔ ویسے بھی اگلی صبح میرے پیارے دوست رانا طاہر نے بڑے پیمانے پر ناشتے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ مجھے وہاں جانا تھا اس لئے کہ وہاں ڈاکٹر اقبال شاہدسمیت کئی اہل دانش آرہے تھے اور پھراپنے چوہدری اشفاق سے بھی توملناتھا۔ اس شاہی ناشتے کے بعد دوپہر میں ایک سیمینار میں شریک ہونا تھا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب نے برما کے مسلمانوں کی محبت میںاہل سیاست اور اہل صحافت کو مدعو کررکھاتھا۔ تقریریں تو بہت سنیں مگر چند ایک تقریروں کو نظرانداز کرنا مشکل تھا۔ میاں منظور وٹو، نوید چوہدری، ن لیگ کی رکن قومی اسمبلی عارفہ خالد پرویز، امیر العظیم، مولانا ربانی، دلاور چوہدری، ڈاکٹر اجمل نیازی، اشرف عاصمی اور سلمان عابد نے جگانے کی بہت کوشش کی، حالات کا درست تجزیہ کیا، ناصراقبال خان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اکٹھ کااہتمام کیا۔
سہ پہر آئی تو یاد آیا کہ لاہور کینٹ میں تحریک ِ انصاف کی رہنما ڈاکٹر زرقا تیمور نے چنیدہ صحافیوں کو چائے پر بلا رکھا ہے۔ اچھا ہوا وہاں عندلیب عباس اور عائشہ چوہدری سے ملاقات ہوئی۔ یہاں کچھ دوستوں سے خیالات کا تبادلہ ہوتا رہا، کچھ بتائیں تو درست پوچھتے ہیں مگر کیسے؟ لاہور کینٹ سے سیدھا اسلام آباد کا رخ کیا۔ سارا رستہ یہی سوال سامنے رہا کہ لوگ پوچھتے ہیں مگر کیسے؟
یاد آیا کہ لوگ تو بہت کچھ ہونے سے پہلے بھی پوچھتے تھے مگر کیسے؟ پھروہ ہو گیا۔ اب جوہونا ہے وہ ہو جائے گا۔ میں تو سفر نصیب ہوں، سوچا کہ کل جشن ِ عید غدیر کے پروگرام میں شریک ہونا ہے۔ پھر راستے میں سوچتارہا کہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمدﷺ نے مقام غدیر پر فرمایا تھا’’جس کا میں مولا، اس کا علیؓ مولا‘‘ پھر فرمایا ’’میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب اور اپنے اہل بیتؓ چھوڑ کے جارہا ہوں۔ ان دونوں کو نہ چھوڑنا، یہ دونوں اکٹھے رہیں گے۔ یہ دونوں اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے‘‘ 14سو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں نے غدیر کے خطبے کو بہت جلد فراموش کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیارے نبیﷺ کے فرمودات کو نظرانداز کرکے خود کو دولت اور اقتدار کے حوالے کر دیا۔ انہو ںنے قرآن اور اہل بیتؓ کے بجائے دولت اور اقتدار کے راستے کو چنا۔ برس ہا برس کی رسوائی اسی لئے توہے۔آج بھی وقت ہے کہ مسلمان ایک ہو جائیں۔ قرآن اور اہل بیتؓ سے محبت اپنالیں۔ یہی راستہ حق کا راستہ ہے۔ اگر انہو ںنے یہ راستہ اپنا لیا تو پھر انہیں برما، کشمیر، شام اور فلسطین کے لئے رونا نہیں پڑے گا۔ سوال پھر وہیں کھڑا ہے مگر کیسے؟
کیونکہ مسلمان حکمرانوں کو دولت سے بہت پیار ہے۔ اقتدار سے انہیں نکلنا پڑے تو وہ کہتے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ دولت مسلمان حکمرانوں کو اتنی عزیز ہے کہ وہ اسے پانے کی آرزو میں حب الوطنی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ بزدلی ان کا شیوہ ہے۔اسحاق خاکوانی کی بات ٹھہر ٹھہر کے یاد آتی ہے کہ ’’چوربہادر کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ بالکل درست کہا۔ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر نے یہ بات چند دوستوں کے سامنے کی۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے میں اور ملک احمد حسین ڈیہڑ قصور گئے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور سے والدہ کی تعزیت کی۔ پھر بلھے شاہؒ کے در پہ حاضری دی اور اگلی صبح اسحاق خاکوانی کے پاس آگئے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے بھائی اس دنیا سے دوسرے جہان چلے گئے تھے۔ گفتگو ہوئی تو سیاست گفتگو میں آگئی۔ گالف کا شوقین وہاڑی کا زمیندار اسحاق خاکوانی بولا ’’سائیں! چور چکر باز ہوسکتا ہے، دھوکے بازہوسکتا ہے مگر بہادری اس کے قریب نہیں آتی۔ اسی لئے تو وہ چور بنتا ہے۔ چور بہادر کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
بات سچ ہے مگر رسوائی کی بات ہے۔ واقعی دنیا میں چوروں کو بھاگتے ہی دیکھا ہے کبھی کھڑے ہو کر حالات کا مقابلہ کرتے نہیں دیکھا۔ مظہر نیازی کی تازہ کتاب حرف ِ تحسین سے محمد محمود احمد کے اشعار؎
بیٹے نے اپنی ماں کو بتائی نہ دل کی بات
ماں نے بھی اپنے درد کا قصہ چھپا لیا
سن کر کسی شکاری کے قدموں کی تیز چاپ
برگد نے ٹہنیوں میں پرندہ چھپا لیا

تازہ ترین