• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

این اے 120 میں جوبھی فیصلہ ہوگا قبول کریں گے،شیخ رشید

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئےعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ایک نظریات کے تمام لوگوں کو مل جانا چاہئے، ان کی تھوڑی تھوڑی سیٹیں ہیں جوا لیکشن میں ان کو مل جانی چاہئے، حدیبیہ پیپر ملز کیس اصل کیس ہے، حدیبیہ پیپر کیس کے مقابلہ میں پاناما کیس تو مونگ پھلی جیسا ہے، حدیبیہ پیپر کیس میں اسحاق ڈار نے ایک ہزار دو سو بیالیس ملین لندن سے ان کے اکائونٹس میں شفٹ کیے ہیں، حدیبیہ کیس میں دونوں شریف برادران، دونوں کے بچے، بیویاں سب لوگ شامل ہیں، حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی ہیں، نیب صبح سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر کردیتی ہے تو بارہ ایک بجے تک رزلٹ آجائے گا، پاناما میں بھی 62/1Fپر فیصلہ شیخ رشید کی درخواست پرہوا ہے جبکہ باقی لوگوں کے کیس اب لگے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے یہ پانچ جج اتنے عظیم ہیں کہ دنیا تصور نہیں کرسکتی ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنی زندگی میں اتنے عظیم ججوں کے سامنے پیش ہوں گا، ججوں نے انصاف ، قانون اور حق کی بات ہے، نواز شریف کو یہاں تک پہنچانے والی مریم نواز ہے، شریف خاندان میں پھوٹ ڈالنے والی بھی مریم نواز ہے، مریم نواز انتخابی مہم میں ایک بیمار ماں کو کھینچ کر لارہی ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ این اے 120میں لاہوریوں کو قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ووٹ دینا ہوگا، لاہور والوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کا فیصلہ قومی سیاست پر اثرانداز ہوگا، اگر وہ عمران خان اور بلے کو ووٹ دیں تو صورتحال بدل سکتی ہے، این اے 120 میں جوبھی فیصلہ ہوگا قبول کریں گے۔

نواز شریف کی نااہلی کے چوتھے دن ہمارے جلسے میں عوام کا سمندر تھا، ن لیگ والے جی ٹی روڈ مارچ کے دوران پورے راستے شیخ رشید کو گالیاں دیتے رہے، تین دفعہ وزیراعظم رہنے کے باوجود نواز شریف قابل ذکر جلوس نہیں نکال سکے۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ نئے لیڈر آف دی اپوزیشن کیلئے مجھ سے رابطے کیے گئے ہیں، میں نے لیڈرآف دی اپوزیشن بننے سے انکار کردیا ہے، آگے چار مہینے بہت حساس ، پیچیدہ، خمدار ہیں، چار مہینوں میں بہت سے غیرمتوقع فیصلے اور معاملات ہوسکتے ہیں، خورشید شاہ کے مقابلہ میں شاہ محمود قریشی آئے تو عمران خان جسے کہے گا اسے ووٹ دوں گا۔

شیخ رشید نے کہا کہ سڑکوں کی سیاست کو ختم سمجھتا ہوں، آئین قانون اور حقیقت کی سیاست دیکھ رہا ہوں، آئندہ چار مہینے فیصلہ کن ہوں گے اس میں بہت سے فیصلے ہوسکتے ہیں، چار مہینے میں ایک دو مہینے کا اضافہ ہوسکتا ہے، عمران خان، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا مشکور رہوں گا، پارٹی تو پاناما کا کیس لڑنے کیلئے تیار نہیں تھی، حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اکیلا آیا ہوں حالانکہ ان سب لوگوں کو میرے ساتھ آنا چاہئے تھا، نیب والے صبح حدیبیہ پیپرملز کیس عدالت میں لے آئے تو اچھا ہوگا ورنہ ان کے ساتھ جوڈو کراٹے ہوں گے اور انہیں بغداد کی راتیں یاد آجائیں گے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ کیاہونا اور کیا کرنا ہے، یہ وہ مسلم لیگ ہے جنہیں منظور وٹو بارہ ووٹوں سے دو دفعہ بالرضا میریٹ ہوٹل لائے تھے، یہ وہ مسلم لیگی ہیں جب انہیں مری اور چھانگا مانگا لے کر گئے تو اندر سے رابطے میں تھے، عمران خان کی ایمانداری پر شک نہیں کیا جاسکتا او ر نواز شریف کی دیانت کی کوئی شخص قسم نہیں کھاسکتا۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کہہ سکتی ہے کہ ہم نے ابھی تک جو ریمارکس دیئے ٹرائل کورٹ اس کا اثر نہیں لے گااور آزادانہ فیصلہ کرے گا، عدالت چیئرمین نیب کوریفرنس فائل کرنے کیلئے ہدایت نہیں دے سکتی ہے، قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے، سپریم کورٹ نیب ریفرنسز سے مانیٹرنگ جج کو ہٹائے، جج صاحبان کی جمعرات کی آبزرویشنز سے لگتا ہے انہوں نے اپنے فیصلے کے impact کو dilute  کیا ہے لیکن وہ یہ کہنا چاہتے کہ ہم سے کوئی بڑی غلطیاں ہوگئی ہیں، سپریم کورٹ سے اگر قانونی غلطیاں ہوئی ہیں تو انہیں کھل کر اس بات کو ماننا چاہئے، ججز اگر خود کو مشکل میں سمجھتے ہیں تو معاملہ لارجر بنچ کو بھیج سکتے ہیں، چیف جسٹس کو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ دیا تھا لیکن اب ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ماضی کی مثالیں خاص طور پر سوموٹو دائرہ اختیار جو ہم نے ایکسرسائز کیا وہ ہم حد سے آگے چلے گئے تھے اس کو ہمیں ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے، اس صورت میں چیف جسٹس لارجر بنچ بناسکتے ہیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پاناما نظر ثانی اپیل میں اصل فیصلے سے زیادہ سخت فیصلہ نہیں آسکتا ہے، ججوں کو مقبول احساسات کے پیچھے چلتے ہوئے ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جو بعد میں ان کیلئے مشکل بن جائیں، عدالت کو قانون اور آئین سے مطابقت رکھنی چاہئے اس سے مبرا ہو کر فیصلے نہیں دینے چاہئیں، جب بھی ایسے فیصلے آتے ہیں عدالت کڑے امتحان میں پھنس جاتی ہے، سپریم کورٹ جس مشکل میں پھنس گیا ہے اس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے ،حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کو اپیل دائر کرنے کیلئے کہنے کا مطلب ہے ہائیکورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کو تو کچھ نہیں کہا جس کی وجہ سے اس کیس میں مشکلات پیش آئی ہیں، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی ساکھ کو خراب نہیں ہونے دیا اور نیب کو موردِ الزام ٹھہرادیا حالانکہ نیب نے بروقت احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا تھا، سپریم کورٹ نے کوشش کی ہے کہ جو بھی غلطیاں ہوئیں اس کی ذمہ داری عدلیہ کے بجائے نیب پر چلی جائے، عدلیہ کو اس طرح تفتیشی اداروں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ این اے 120لاہور میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے، عمران خان اور مریم نواز اس وقت سڑکوں پرہیں ، دونوں اپنے اپنے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن شریف خاندان کی عدالتی مشکلات ختم نہیں ہورہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں، اب شریف خاندان کے اندر نواز شریف کے خاندان سے نکل کر لگتا ہے شہباز شریف کی طرف بڑھ رہی ہیں، ایک کیس جو بائیس سال سے شریف خاندان کا پیچھا کررہا ہے، اب ایک بار پھرسے یہ کیس عدالت پہنچ رہاہے لیکن اس بار ماضی کے مقابلہ میں حالات بہت مختلف ہیں، مشکلات میں گھرے شریف خاندان کے لئے ایک اور نئی مشکل کھڑی ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اس کیس میں شریف خاندان کے وہ لوگ بھی پھنس سکتے ہیں جو پاناما سے بچ گئے، نیب نے حدیبیہ کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے گیارہ مارچ 2014ء کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نیب کل یعنی پندرہ ستمبر کو باقاعدہ سپریم کورٹ میں یہ اپیل دائر کردے گا، لاہور ہائیکورٹ نے گیارہ مارچ 2014ء کو حدیبیہ پیپر ملز کیس ٹیکنیکل بنیادوں پر ختم کردیا تھا مگر نیب نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کیخلاف اپیل نہیں کی اورجولائی 2016ء میں اس کیس کی فائل بند کردی، مگر یہ کیس پاناما کیس کے دوران ایک بار پھر سے خبروں میں آیا، خاص طور پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ایک نئی بحث نے جنم لے لیا۔

تازہ ترین