• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبق آموز واقعات ....سحر ہونے تک…ڈاکٹر عبدالقدیرخان

دسمبر 1975کے اواخر میں جب ہم ہالینڈ سے پاکستان چھٹی پر آئے اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر ایک لمحہ سوچے بغیر سب کچھ خیر باد کہہ کر پاکستا ن میں مستقل طور پر ٹھہر گئے اور ایٹم بم بنانے کا چیلنج قبول کر لیا تو ہم ایف ایٹ ون میں ایک کرا ئے کے مکان میں رہنے لگے۔ چونکہ ہماری دونوں بیٹیاں صرف سات اور پانچ سال کی تھیں اس لئے ہم نے ایک سری لنکن نہایت نرم مزاج خاتون فاضلہ کو بچیوں کی دیکھ بھال کے لئے ملازم رکھ لیا۔ اس کی وجہ سے سری لنکن ہائی کمیشن کے عہدیداروں سے مراسم بھی بڑھ گئے اور میں نے اکثر ہائی کمیشن کی کئی معاملا ت میں مدد کی۔ وہاں کے سفارتکاروں میں ایک چھوٹے قد کے نوجوان محمد صادق سے اچھے مراسم ہو گئے تھے۔ یہ کئی سال سے پاکستان میں کام کرنے کے بعد کولمبو چلے گئے مگر ہمارا رابطہ قائم رہا۔ بعد میں کام کے سلسلہ میں مجھے کولمبو جانا پڑا تو ان سے ملاقاتیں جاری رہیں ۔چند سال بعدصاد ق سعودی عر ب میں سفیر مقر ر ہو گئے تھے۔ ان سے ای میل کے ذریعے ابھی بھی رابطہ ہے۔ میرے کالم پڑھ کر اکثر تبصرہ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نے ایک ای میل بھیجی جس میں کئی اہم اور دلچسپ واقعات کا تذکرہ کیا ہے کیونکہ یہ واقعات نہایت منفرد اور نصیحت آمیز ہیں اس لئے ان کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
(۱)”اپنے کالج کے دوسرے سال کی تعلیم کے دوران پروفیسر صاحب نے ہمیں عام سمجھ بوجھ کے سوالات حل کرنے کو دیئے۔ میں نے تمام سوالات بہت جلدی حل کر لئے مگر آخری سوال پر آ کر رک گیا۔ سوال یہ تھا کہ اس عورت کا کیا نام ہے جوا سکول کو صاف ستھرا رکھتی ہے۔ ایک مذاق سا لگا مگر پروفیسر سنجیدہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سوال کے جواب کے نمبر اہمیت کے حامل ہوں گے۔ میں نے جواب خالی چھوڑ دیا کہ مجھے نام معلوم نہیں تھا۔ پروفیسر نے کہا کہ زندگی میں تمھیں بہت سے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ ضرور کسی نہ سکی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انہیں تمھاری محبت اور توجہ کی ضرورت ہے، ان کو دیکھ کر مسکرانا اور صرف ہیلو ہی کہہ دینا ان کے لئے بہت خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ میں کبھی وہ نصیحت نہیں بھولا ۔ اس خاتون کا نام ڈوروتھی تھا۔“
مجھے بھی وہ خاتون یاد آ رہی ہے جو خاتون برلن میں پچاس سال پہلے ہمارے ہاسٹل کو صاف ستھرا رکھتی تھی اس کا نام مسز گرائیت تھا۔ اور میں روز اس کو ایک کپ کافی اور بسکٹ دیتا تھا اور کرسمس اور نئے سال پر چاکلیٹ کا ایک پیکٹ۔ برلن چھوڑے کے بعد بھی ہالینڈ سے میں اس کو چاکلیٹ بھیجتا تھا۔ پھر اچانک ایک دن خط ملا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے، میری بیگم اور مجھے بہت افسوس ہوا، بہت نفیس خاتو ن تھی۔
(۲)”ایک رات ساڑھے گیا رہ بجے ایک سیاہ فام افریقی نثراد خاتون الاباما ہائی وے کے کنارے کھڑی تھی، بہت سخت بارش ہو رہی تھی ، وہ ہاتھ ہلا ہلا کر گاڑیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر کوئی رکنے کی زحمت گوارا نہیں کر رہا تھا۔ اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور وہ بہت جلد ی میں تھی۔ آخر کار ایک نوجوان سفید فام نے گاڑی روکی اور اسکو بٹھا کر آگے جہاں ٹیکسیاں کھڑی تھیں پہنچا دیا۔ اترنے سے پہلے خاتون نے اس کا نام اور پتہ لے لیا۔سات روز بعد اس نوجوان کے دروازے پر دستک ہوئی، اس نے دروازہ کھولا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ڈلیوری والے آدمی نے ایک بڑا رنگین ٹی وی اور ایک خط دیا اور چلا گیا۔ جب نوجوان نے خط کھولا تو لکھا تھا،”مجھے ہائی وے پر امداد دینے کا بہت بہت شکریہ ۔ بارش نے نہ صرف میرے کپڑے بالکل گیلے کر دیے تھے بلکہ میری روح کو بھی بالکل مرجھا دیا تھا۔ صرف تمھاری بروقت امداد کی وجہ سے میں اپنے قریب المرگ شوہر کے پاس وقت پر پہنچ سکی تھی اور اسنے مجھے دیکھ لیا تھا۔ خد ا تم پر رحم کرے میری مدد کرنے پر اور دوسروں کی بے لوث مدد کرنے پر۔تمھاری مخلص مسز نیٹ کنگ کول۔“ یہ بین الاقوامی شہرت یافتہ امریکن سیاہ فام گلوکار کی بیگم تھیں۔
(۳)پرانے زمانے میں جب آئس کریم بہت سستا تھا تو ایک د س سالہ لڑکا ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک خاتون نے ایک گلا س پانی لا کر سامنے رکھا اور پوچھا کہ اس کو کیا چاہئے۔ اس نے پوچھا کہ خشک میوے والی آئس کریم کی کیا قیمت ہے۔ خاتون نے جواب دیا پچاس سینٹ، اس نے پھر پوچھا سادہ آئس کریم کی کیا قیمت ہے ، خاتون بے چین ہو رہی تھی کہ اور کئی لوگ اس کے منتظر تھے اس لئے اس نے ذرا غیر دوستانہ لہجے میں جواب دیا پینتیس سینٹ۔ لڑکے نے اپنے سکے شمار کئے اور کہا کہ مجھے سادہ آئس کریم دے دیں۔ خاتون نے آئس کریم اور بل سامنے رکھ دیا اور چلی گئی ۔ لڑکا آئس کریم کھا کر کاؤنٹر پر گیا ، رقم ادا کی اور چلا گیا۔ جب وہ خاتون خالی پیالہ اُٹھانے اور میز صاف کرنے آئی تو وہاں خالی پیالے کے پاس پچاس سینٹ کا ٹِپ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔ دیکھئے اس نے خشک میوہ والا آئس کریم اس لئے نہیں کھایا کہ وہ اس خاتون کو پچاس سینٹ ٹِپ دے سکے۔
(۴)پرانے زمانے میں ایک بادشاہ نے ایک راستہ میں ایک وزنی پتھر رکھ دیا اور ایک جگہ چھپ کر دیکھنے لگا کہ آیا کیا کوئی راہگیر اس بڑے پتھر کو ہٹانے کی زحمت گوارا کرے گا۔ بڑے بڑے مالدار تاجراور بادشاہ کے درباری وہاں سے گذرے مگر کسی نے اس کو ہٹانے یا ہٹوانے کی زحمت نہیں کی۔ بعض لوگ بادشاہ کر برا بھلا کہہ کر گزر گئے کہ وہ راستوں کو صاف نہیں رکھتا۔کچھ وقفہ کے بعد ایک کسان وہاں سے گذرا ، اس کے سر پر ایک سبزیوں کا بنڈل تھا۔ پتھر کے پاس پہنچ کر اس نے سبزیوں کے بنڈل کو احتیاط سے زمین پر رکھا اور بہت محنت اور کوشش سے اس بڑے پتھر کو راستہ سے ہٹادیا۔ سبزی کے بنڈل کو اٹھانے سے پیشتر اس نے دیکھا کہ وہاں ایک پرس پڑا ہوا تھا، اس پرس کو کھول کر دیکھا تو اس میں کئی طلائی سکے تھے ، ساتھ میں بادشاہ کا خط تھا کہ جو شخص اس بڑے پتھر کو اٹھائے گا وہ طلائی سکے اس کا انعام ہوں گے۔ کسان نے جو سبق اس پر عمل سے سیکھا وہ بہت سے لوگ نہیں سیکھ سکتے اور سمجھتے یعنی ہر مشکل رکاوٹ ہمیں ایک موقع مہیا کرتی ہے کہ ہم اپنے خیالات بہتر بنا لیں۔ اس واقعہ نے مجھے 1976کا واقعہ یا د دلا دیا۔ اگست کے ماہ میں ہم نے فیصلہ کیا کہ کہوٹہ ہمارے پلانٹ کے لئے بہت مناسب جگہ ہو گی۔ میری درخواست پر اور بھٹو صاحب کی ہدایت پر جنرل ضیاء الحق نے جنرل زاہد علی اکبر خان (جو اس وقت برگیڈئر تھے) ہمارے ساتھ منسلک کر دیا کہ عمارتوں کی تما م تعمیر کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔ جنرل زاہد دراز قد ، نہایت خوبصورت ، قابل اور بہانہ بازی سے نفرت کرنے والے افسر تھے، ہم دونوں ان کی جیپ میں ہر دوسرے روز کہوٹہ جاتے اور وہاں عمارتوں کی جگہ کا تعین کرتے۔
اس وقت وہاں چند کھیت تھے اور اگر بارش ہو جاتی تو ہر طر ف کیچڑ ہی کیچڑ ہوتی۔ ہم جیپ باہرسڑک کے کنارے دوسری جنگ عظیم کے نہایت بہادر تمغہ یافتہ صوبیدار صاحب کی دوکان کے پاس کھڑی کرکے پیدل دو کلو میٹر اندر پہاڑ کے دامن تک جاتے تھے ۔ ایک روز میں نے ایک وزنی پتھر ایک جانب سے اٹھا کر اس پگڈنڈی پر رکھ دیا ۔ جنرل زاہد کے دریافت کرنے پر میں نے کہا میں آپ کو ایک تجربہ دکھانا چاہتاہوں کہ میں ان لوگوں کی مدد سے ایٹم بم بنانے کا بیٹرا اٹھا رہا ہوں جن کی غفلت اس طرح کی ہے۔ ہم دونوں چند ہفتوں تک دیکھتے رہے کہ کسی راہگیر نے وہ پتھر راستے سے اٹھا کر علیحدہ نہیں کیا بلکہ گھوم کر اس سے بچ کر نئی پگڈنڈی بنا لی۔آخر کار میں نے خود ہی وہ پتھر اٹھا کر نئی پگ ڈنڈی پر رکھ دیا اور لوگ پرانا راستہ استعمال کرنے لگے۔ ہمارے عوام میں بد قسمتی سے خود سے کوئی کام کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ بد قسمتی سے میں اوپر بیان کردہ واقعات سے ناواقف تھا ورنہ میں بھی اس پتھر کے نیچے پلاسٹک کی تھیلی میں دو تین ہزار روپیہ رکھ دیتا۔
(۵)”کئی برس پیشتر میں ایک ہسپتال میں رضا کار کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہاں ایک چھوٹی بچی جس کا نام لِز تھا وہ داخل تھی اور یہ بچی ایک مہلک بیماری کا شکار تھی۔ اس کی صحت یابی کے لئے صرف اس کے اپنے پانچ سالہ بھائی کے خون کا عطیہ ضروری تھا۔ یہ بچہ خود معجزانہ طور پر اس بیماری سے صحت یاب ہو گیا تھا اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کے خون میں اس بیماری سے لڑنے کی صلاحیت تھی۔ ڈاکٹر نے اس چھوٹے بچے کو تمام حالا ت سے آگاہ کیا اور پو چھا کہ کیا وہ اپنی بہن کی جان بچانے کے لئے اپنا خون کا عطیہ دے گا۔ بچہ چند لمحے ہچکچایا اور پھر بہادری سے کہا کہ اگر اس کا خون دینے سے اس کی بہن کی جان بچ سکتی ہے تو وہ اپنا پورا خون دینے کو تیار ہے۔ جوں جوں بہن کو خون ملا اس کی گالوں پر سرخی آ گئی اور وہ مسکرانے لگی ۔مگر بچے کی رنگت تھوڑی زرد ہو گئی اور اسکی مسکر اہٹ غائب ہو گئی ۔ اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا کہ کیا وہ فوراََ مرنا شروع ہو جائے گا ۔ کم سنی کی وجہ سے بچہ اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ اس کا تمام خون بہن کو دے دیا جائے گا تا کہ بہن کی جان بچائی جا سکے۔ ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا، نہیں تم دونوں زندہ رہو گے۔“
آگے چل کر برادرم محمدصاد ق نے لکھا ہے کہ جس طرح میرے ایک دوست نے کہا ہے اور ہم میں سے اکثریت بھی یہ کہتی ہے ہر دن اچھا دن ہوتا ہے اور بعض دوسرے دن دوسرے سے بہتر ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ ہمارے اپنے رویے اور سوچ پر منحصر ہوتا ہے۔ اپنی سوچ اور رویہ ہی سب کچھ ہے ، ہمیں ضرورت سے زیادہ نرم مزاجی اور رحمدلی کا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ ہر فرد کسی نہ کسی پریشان کا شکار ہے۔ ہمیں سادہ زندگی گزارنا چاہئے۔ دل کھول کر خلوص محبت کا اظہار کرنا چاہئے ، دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرنا چاہئے اور بہت نرم گفتگو کرنی چاہئے کہ جیسے ہمیں ان سے کبھی کوئی دکھ نہیں پہنچا اور اس طرح ناچو اور گاؤ جیسے تم کو کوئی نہیں دیکھ رہا ہو۔ “
مجھے امید ہے ہمارے قارئین ان نہایت سادہ مگر نہایت قیمتی ، ناقابل فراموش واقعات سے کچھ مفید سبق حاصل کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ عزیز دوست و بھائی محمد صادق کو تندرست و خوش و خرم رکھے اور ان کی عمر دراز کرے۔ (آمین)
تازہ ترین