• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطالعہ اور مشاہدہ مل کر ذہنی بلوغت کی تشکیل کرتے ہیں۔ جہاں مطالعہ عنقا اور سارا ا نحصار مشاہدے یا اخبار بینی پر مشتمل ہو وہاں انسان کا ہچکولے کھانا، جذباتی رویوں کو اپنانا اور فکری ناپختگی کو خوبصورت الفاظ کے لبادے پہنا کر قارئین کو متاثر کرنا قابل فہم عمل ہوتا ہے۔ میں ایسے اظہاریے پاکستانی اخبارات میں ہرروز دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ یہ اختلاف رائے، علمی مباحث، سیاسی گروہ بندی اور جذباتی لگائو دراصل اس سفر کا حصہ ہیں جو ان شاءاللہ فکری بلوغت پر منتج ہوگا۔ ہم نے ستر سالہ تاریخ میں طویل سفر طے کیا ہے۔ صحافت، اظہار، عدلیہ، میڈیا اور دوسرے بہت سے قومی ادارے غلامانہ ذہنیت کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔ میری زندگی کا معتدبہ حصہ پاکستانی تاریخ و سیاست پر پڑھتے لکھتے اور چھوٹی موٹی تحقیق کرتے گزارا ہے۔ صحافت اور میڈیا سے بھی گہرا تعلق رہا ہے اور قومی اداروں کو بھی قریب سے دیکھتا رہا ہوں۔ یقین کیجئے آج ہم بدرجہا بہتر اور آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور جمہوریت کے چوتھے ستون صحافت اور تیسرے ستون عدلیہ نے اپنے آپ کو انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی پابندیوں سے خاصی حد تک آزاد کرلیا ہے۔ رہی پارلیمنٹ تو وہ ابھی تک جاگیرداروں، موروثی خاندانوں، گدی نشینوں اور تابع محمل وفاداروں کی مرہون منت ہے۔ پارلیمان پر آئینی پابندیوں کے ذریعے پارٹی وفاداری کا تصور لاگو کرکے اراکین پارلیمنٹ کو آزادانہ اظہار سے روک دیا گیا ہے اور اختلاف رائے کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت ہم جمہوریت کی اس اسٹیج اور منزل سے گزر رہے ہیں جس پر مغرب اور خاص طور پر انگلستان میں پارلیمانی آمریت پر تحقیقی کتابیں لکھی گئیں جن میں سے دو تین مجھے بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ برطانیہ کا تحریری دستور محض چند صفحات پر مشتمل ہے باقی سب روایات ہیں جنہوں نے برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط بنایا ہے۔ برطانیہ میں ایک پولیس کانسٹیبل 10ڈائوننگ ا سٹریٹ(وزیر اعظم ہائوس) میں جاکر وزیر اعظم سے تفتیش کرسکتا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ برطانیہ کا وزیر اعظم یا کابینہ چند سو پونڈ بھی پارلیمنٹ سے منظوری لئے بغیر خرچ نہیں کرسکتے لیکن ہمارے حکمران اربوں روپے ریوڑیوں کی مانند بانٹ دیتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر کے باپ کا نام پاناما میں آئے تو وہ استعفیٰ دے دیتا ہے، کسی وزیر پر دوست نوازی کا الزام لگے تو وہ گھر چلا جاتا ہے، کوئی وزیر اعظم امریکی صدر بش کا پوڈل(کتورہ) بن کر عراق کے حوالے سے جھوٹ بول کر فوجی ایکشن کا ذریعہ بنے تو قوم سے کھلے عام معافی مانگتا ہے اور عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی تحقیق پر مامور انسپکٹر ضمیر کے بوجھ تلے دب کر خود کشی کرلیتا ہے، انگلستان کی آئرن لیڈی مادام تھیچر اپنی بےبسی کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کا فرنیچر اس قدر پرانا تھا کہ اس کی چولیں آواز پیدا کرتی تھیں اور مجھے اسے بدلنے کے لئے چند ہزار پونڈ کی منظوری لینے میں کئی برس بیت گئے۔ کیا پاکستان کے پارلیمانی نظام میں ایسی روایات جنم لے سکتی ہیں؟ یہاں پارلیمان دو اکثریتی لیڈروں کی غلام اور بڑی پارٹیوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ لیڈر ان اور وزراء پارلیمان میں تشریف لاتے ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کریں لیکن اکثریتی پارٹی کی لیڈر شپ نہ اسے درخوراعتنا سمجھتی ہے اور نہ ہی ایسا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد آیا آج کل اسرائیل کے طاقتور وزیراعظم نتین یاہو کی بیوی دس ہزار ڈالر کا فرنیچر وزیر اعظم ہائوس کے لئے خریدنے پر پولیس کی انکوائری کا سامنا کررہی ہے جس دوست کے ذریعے یہ کام کیا گیا وہ جیل میں ہے۔ دعوتوں پر خرچے کا حساب زیر تفتیش ہے۔کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ کوریا کی صدر الزامات کا بوجھ اٹھائے جیل میں ہے۔ وہاں عدلیہ پر کسی کو اعتراض نہیں، ہندوستان کی عدالتوں نے وزرائے اعلیٰ برطرف کردیئے۔ کسی نے نہیں کہا یہ اختیار صرف اسمبلی کا تھا۔ آئین پاکستان پر لیکچر دیتے وقت ہمارے دانشور بار بار بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کو صرف دو طریقوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے، اول عدم اعتماد کی تحریک پارلیمنٹ سے منظور کروا کر اور دوم وہ خود استعفیٰ دے دے۔ بلاشبہ ایسا نہیں ہے اور سیاسی معاملات میں سارا دائرہ کار پارلیمان کی ملکیت ہے لیکن اگر کوئی وزیر اعظم اخلاقی، مالی اور غیر آئینی حرکات میں ملوث پایا جائے، اس پر ملکی وسائل لوٹنے، منی لانڈرنگ کرنے، جھوٹ بولنے اور آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثے بنانے اور چھپانے کا الزام ہو تو آئین میں کہاں لکھا ہے کہ خلاف قانون حرکات عدلیہ کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور ان کا نوٹس صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی لے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا اختیار اور دائرہ آئین میں وسیع رکھا گیا ہے اور یہی ایک قدغن ہے حکمرانوں پر، اسے محدود کردیجئے تو ان شاء اللہ ملک میں وہ غدر برپا ہوگا جس کی مثال نہیں ملے گی۔ دراصل ہماری پارلیمانی جمہوریت جاگیردارانہ جمہوریت ہے اس کا مزاج بدلنے اور اسے صحیح معنوں میں احتسابی ادارہ بنانے میں دہائیاں لگیں گی۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اراکین پارلیمنٹ کس طرح پولیس، محکمہ مال، ایف آئی اے، نیب ا ور دوسرے قومی اداروں پر حاوی ہیں اور انہیں قانون و ضوابط کے مطابق کام ہی نہیں کرنے دیتے۔
میں جن دنوں اپنی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت پر ریسرچ کررہا تھا تو بہت سے سیاستدانوں سے ملنے اور انہیں انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے ایک عینی مشاہدہ سنا کر میرے رونگٹے کھڑے دئیے۔ پس منظر یہ تھا کہ فالج زدہ گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954میں دستور ساز اسمبلی منسوخ کردی تھی اس وقت محمد علی بوگرہ وزیر اعظم تھے۔ اس فیصلے کے خلاف اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کی جس نے گورنر جنرل کے اقدام کو معطل کردیا۔ گورنر جنرل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جس نے ٹیکنیکل بنیادوں پر گورنر جنرل کے حکم کو درست قرار دے دیا اور جمہوری عمل کی طرف لوٹنے کی ہدایت کی۔ وہ ٹیکنیکل گرائونڈ یہ تھی کہ آئین کے مطابق قانون ساز اسمبلی یا دستور ساز اسمبلی کے کسی بھی منظور کردہ قانون یا آئینی ترمیم پر گورنر جنرل کے دستخط ضروری تھے، جس ترمیم کے تحت گورنر جنرل کو اس اختیار سے محروم کیا گیا تھااس ترمیم پر گورنر جنرل نے دستخط نہیں کئے تھے اس لئے اسمبلی کی منسوخی کا اختیار فی الحال گورنر جنرل کے پاس تھا۔دستور ساز اسمبلی کو منسوخ کرنے کے بعد گورنر جنرل نے سابق وزیر اعظم بوگرہ کو بلایا اور اسے بحیثیت وزیر اعظم دوبارہ حلف اٹھانے اور کام جاری رکھنے کا حکم دیا لیکن بوگرہ یہ ذمہ داری لینے سے انکاری تھے۔ غلام محمد نے چوہدری محمد علی کو بلایا اور انہیں بوگرہ کو آمادہ کرنے کا کام سونپا۔ بقول چوہدری صاحب جب وہ گورنر جنرل کے بیڈ روم میں گئے تو ماحول سخت کشیدہ تھا، بوگرہ ملزم کی مانند کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور گورنر جنرل سرہانے کے نیچے پستول رکھے اسے ٹوٹی پھوٹی زبان میں’’مغلظات‘‘ بک رہا تھا۔چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کسی کام سے بیڈ روم کا پردہ ہٹا کر ساتھ والے کمرے میں گئے تو یہ دیکھ کر صدمے سے چور ہوگئے کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف ا یوب خان رائفل پکڑے پردے کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ وہی ایوب خان بوگرہ کی دوسری کابینہ میں و زیر دفاع، اسکندر مرزا وزیر داخلہ اور چوہدری محمد علی وزیر خزانہ بنائے گئے جسے مورخین مکمل بیوروکریٹک کو (نوکر شاہی انقلاب) کا نام دیتے ہیں۔ یہیں سے نظریہ ضرورت نے جنم لیا جس کا طوق قوم کی گردن میں چار دہائیوں سے زیادہ تک سجا رہا۔ اس کی گواہی جسٹس منیر کی کتاب بھی دیتی ہے اور ہر مارشل لاء کو سپریم کورٹ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہونے سے بھی ملتی ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ تاریک اور بیوروکریسی، فوج، عدلیہ، جاگیرداروں اور ملا کے گٹھ جوڑ کا دور تھا اور یہ گٹھ جوڑ پاکستانی عوام کے خلاف تھا۔ خدا خدا کرکے یہ کفر ٹوٹا ہے یا کم سے کم زنجیریں ڈھیلی ہوئی ہیں لیکن مقام فکر یہ ہے کہ بیوروکریسی کو ذاتی ماتحت بنا کر حکمرانوں اور اکثریتی پارٹیوں نے اپنے وفاداروں میں تقسیم کرلیا ہے اور ذہنی مزارع بنالیا ہے۔ ہم آج تک شام غریباں سجا کر ماتم کرتے رہے کہ قوم کو نظریہ ضرورت نے غلام بنا رکھا ہے۔ غریب کو انصاف نہیں ملتا اور طاقتور مرضی کا انصاف حاصل کرتا ہے۔ اب اگر عدلیہ آزاد اور طاقتور ہو کر طاقتوروں کے خلاف فیصلے کرنے لگی ہے تو ہم اسے طعنوں کا تختہ مشق بنا کر ان فیصلوں کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ڈھونڈنے لگے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج اس کارروائی سے الگ تھلگ ہے اور موجودہ جج صاحبان ہر لحاظ سے انصاف کے حلف کی پاسداری کررہے ہیں جو جمہوری عمل کی پختگی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ آئین کے حوالے دینے والے ذرا قوم کو یہ بھی بتادیں کہ آئین کی کس شق کے مطابق سپریم کورٹ پر لوٹ مار، قومی وسائل کا ناجائز استعمال، بلاجواز اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ جیسے کرائمز کا نوٹس لینے پر قدغن ہے؟ احتساب جمہوریت کی رو ح ہے، جب سرکاری ادارے اس روح کو کچل رہے ہیں تو میرے نزدیک سپریم کورٹ کا احتسابی کارروائی کرنا نہ صرف جمہوریت کو مضبوط بنائے گا بلکہ عوام کو بھی امید کا پیغام دے گا۔

تازہ ترین