وزیر اعظم نواز شریف کی عدالت سے نااہلی کے بعد اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب نے کئی ہفتے تک قومی ذرائع ابلاغ اور عوام کی توجہ ایک ہی نکتہ پر مرکوز کردی۔ بظاہر یہ ضمنی انتخاب تھا۔ بہت سے دوسرے انتخاب کی طرح اگرچہ دوسرے بڑے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے ہمنوائوں نے اسے اپنے اپنے زاویہ نظر سے دیکھا۔ نااہل ہونے والوں نے عوامی رائے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے مترادف قرار دیا اور عمران خان نے اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید پر ابھارا لیکن انتخابی نتائج میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف یا اس کے حق میں ہونے کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ انتخاب دوسرے ضمنی انتخاب کی طرح کا ایک الیکشن تھا، اس سے پہلے لاہور کے حلقہ 122میں اسپیکر ایاز صادق کی سیٹ پر بھی انتخاب ہو چکا ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ ضمنی الیکشن بالعموم وہیپارٹی جیتی ہے جو صوبے میں حکمران ہو اور اگر اسے الیکشن کمیشن پر اختیار اورمبینہ طور پر دھاندلی کی سہولت بھی میسر ہو تو وہ بڑی آسانی اور زیادہ اکثریت کے ساتھ اپنا لوہا منوا لیتی ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج کے کچھ فوری اثرات ہیں اور دوررس بھی۔ فوری اثرات حکمران جماعت کیلئے زیادہ پریشانی اور اضطراب کا باعث ہونگے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن لاہور کو اپنا گڑھ سمجھتی ہے لیکن یہ اس کی زمین رفتہ رفتہ ان کے ہاتھوں سرکتی جارہی ہے اور عمران خان قدم بہ قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ حلقہ 122کے الیکشن میں ایاز صادق حلقے سے 23ہزار ووٹ باہر بھیجنے اور باہر سے اتنے ہی ووٹ درآمد کرنے کے باوجود بمشکل دو ہزار ووٹوں سے جیت سکے جس کا مقدمہ کبھی نہ سنے جانے کیلئے سرد خانے یا طاق نسیاں میں دھرا ہے۔ عام انتخابات میں اسی حلقے سے میاں نواز شریف نے90ہزار اور یاسمین راشد نے50ہزار ووٹ حاصل کئے۔ دونوں کے ووٹوں میں چالیس ہزار کا فرق تھا۔ تب مرکز یا صوبے میں براہ راست مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں تھی۔ اب چار سال کی حکومت کے ساتھ یونین کونسل اور شہری حکومت بھی مسلم لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ شریف خاندان کا سب سے تعلیم یافتہ اور اچھی شہرت کا فرد میدان میں اتارا گیا۔ مرکز شہری حکومت اور پنجاب کے تمام وسائل استعمال ہوئے۔ حکومت کی کارکردگی اور نواز شریف کی مقبولیت کو انتخاب میں بنیاد بنانے کی بجائے ہمدردی‘ جذبہ رحم‘ گریہ زاری اور منت ریزی کے ذریعے عوام کے جذبات کے استحصال کی کوشش کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ ان نتائج میں عوام کا والہانہ پن ہے نہ انقلاب کی دھمک نہ بہتر مستقبل کی نوید بلکہ حکمران جماعت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی گئی ہے۔ ضمنی الیکشن میں عموماً عام انتخابات کے مقابلے میں کم ووٹ ڈالے جاتے ہیں، سو اس ضمنی الیکشن میں بھی یہی رجحان قائم رہا لیکن قدرے مختلف انداز میں۔ یاسمین راشد نے عام انتخابات میں جو ووٹ حاصل کئے تھے ضمنی الیکشن میں انہیں اس سے پانچ ہزار ووٹ کم ملے ہیں۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف کے حاصل کردہ ووٹوں کے مقابلے میں کلثوم نواز کو30ہزار ووٹ کم ڈالے گئے ہیں جو یاسمین راشد کے مقابلے میں چھ گنا کمی کو ظاہر کرتے ہیں، اگر نواز شریف کے ساتھ لوگوں کی محبت جاگ گئی ہوتی اور وہ ایک خیالی انقلاب کی آرزو میں نکلتے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف یہ ریفرنڈم ہوتا تو30ہزار ووٹوں کی کمی کی بجائے اس میں کئی گنا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ یاسمین راشد کی مقبولیت میں2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں اضافہ ہو گیا ہے جو ان کے سیاسی مستقبل کو زیادہ امید افزاء اور محفوظ بنا دیتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی فتح مسلم لیگ ن کیلئے فائدے کی بجائے فوری اضطراب کا باعث بننے جارہی ہے۔ اولین پریشانی تو یہی ہے کہ مقبول ترین امیدوار کو میدان میں اتارنے کے باوجود سب سے زیادہ قابل اعتماد حلقے میں بھی30ہزار ووٹ کی کمی واقع ہوگئی جبکہ حکومت اور پارٹی کے تمام وسائل اس کی حمایت میں جھونک دئیے گئے تھے، یہ نتیجہ اسٹیبلشمنٹ کو کوئی پیغام دے سکا نہ ہی عدالتی فیصلے پر ناگواری کا کوئی تاثر قائم کر سکا، لیکن کلثوم نواز کی پارلیمنٹ میں موجودگی گوناگوں مسائل پیدا کرے گی اور خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اور رسہ کشی کو زیادہ نمایاں اور تیز کردے گی۔ پارلیمنٹ میں بیگم صاحبہ کے آنے سے وزیر اعظم دبائو کا شکار ہوجائیں گے اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا۔ شہباز شریف کی پارٹی صدارت اور شاہد خاقان کی وزارت عظمیٰ ہر لمحہ خطرے میں رہیں گے، بعض بااثر وزراء اور ممبران پارلیمنٹ شہباز شریف کو مسلم لیگ کا صدر دیکھنا نہیں چاہتے، ان کی کوشش ہوگی کہ نواز شریف کے کان بھریں اور کلثوم نواز کو آمادہ کریں کہ وہ اپنے ’’شریک‘‘ کی بجائے یہ منصب خود سنبھالیں، اگرچہ اس میں کان بھرنے والوں کی خود غرضی شامل ہے لیکن یہ بیانیہ ان کے گھرانے کی آرزوئوں کے عین مطابق ہوگا۔ بیٹی مریم نواز کو میاں صاحب کے حالیہ دور اقتدار میں حکم چلانے اور’’اتھارٹی ایکسرسائز ‘‘ کرنیکی عادت ہوگئی ہے جسکا ضمنی الیکشن میں انہوں نے چچا اور چچا زاد کی غیر موجودگی میں بے دریغ استعمال کیا ہے، اب وہ اس سے محروم ہونے والی ہیں، کیونکہ شہباز شریف لندن سے براستہ انقرہ لاہور اترنے والے ہیں اور ان کے عقب میں حمزہ شہباز بھی چلے آئیں گے، چنانچہ ساری بساط نئے سرے سے بچھائی جائے گی۔ گزشتہ فیصلے فوری کالعدم نہ بھی ہوں تو انہیں موخر کیا جاتا رہے گا۔ اس اضطراب اور کشمکش کی آنچ ہر کوئی لاہور سے اسلام آباد تک اور جاتی امرا سے لندن تک محسوس کریگا۔
بہرحال حالیہ ضمنی انتخاب پاکستان میں ہر ضمنی انتخاب کے مقابلے میں زیادہ اثرات مرتب کرنے والا ہے۔ اس نے کئی ایک کے دل میں امید ومسرت کے دیے روشن کر دئیے اور کئی ایک کی آرزوئیں خون ہو کر بہہ گئیں۔ ’’85کا غیر جماعتی انتخاب نواز شریف کے عروج کی ابتداء تھا تو حلقہ 120کا انتخاب انجام کا آغاز ہے‘‘۔ چھ ہفتوں کے انتخابی ہنگامے نے یہ ثابت کر دیا کہ عوامی طاقت سے عدالتی فیصلوں کو بدل دینے کا دعویٰ’’ایں خیال است ‘ محال است و جنوں‘‘ مسلم لیگ ن کی گرتی دیوار کے عقب سے ایک اور قد آدم دیوار مضبوط بنیادوں پر اٹھ رہی ہے۔ وہ بھی مسلم لیگ ہی ہوگی مگر کوئی متحدہ مسلم لیگ ۔
تحریک انصاف کو جلد قومی انتخابات کیلئے تحریک کا ڈول ڈالنا ہے کہ انتخاب کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے یہی انکی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ حالیہ انتخاب نے مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کا بھرم کھول دیا اور جماعت اسلامی کے مستقبل پر سوالیہ نشان اور پیپلز پارٹی کے سفر آخرت کی خبر سنائی۔ پیپلز پارٹی توانائیاں خرچ کرکے چودہ سو ووٹ حاصل کرسکی اور جماعت اسلامی پانچ سو میں رہ گئی۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں قومی جماعتوںکےبےتحاشا اخراجات پر اعتراض اور تحفظات ہیں وہ دیانتداری سے حساب کرکے بتائیں کہ انہوں نے کتنی دولت خرچ کی۔ اتنا مہنگا ووٹ کسی دولت مند نے کبھی نہیں خریدا ہوگا۔ جماعت اسلامی کو ایک دفعہ نئے سرے سے ماچھی گوٹھ میں اپنا اجلاس منعقد کرکے اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔امین احسن اصلاحی اور دیگر مخلص قائدین جماعت کے موقف کو سامنے رکھ کر پھر سے غور کرے کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ ہر انتخابی حلقے میں جماعت اسلامی کا دس ہزار ووٹ ہوا کرتا تھا اب وہ پانچ سو تک آکر’’غربت کی لکیر‘‘ کو بھی شرما رہا ہے۔ براہ کرم غور کریں ازسرنو۔