• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Mishal Murder Case 57 Accused Indicted

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشال خان قتل کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کردی، جبکہ 17 ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردیں۔

ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج جسٹس فضل سبحان نے کیس کی سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد 17 ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردیں جب کہ ہری پور سینٹرل جیل میں قید 57 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

مشال خان قتل کیس کی باقاعدہ سماعت کل سے شروع ہوگی۔

سماعت کے موقع پر مشال خان کے والد اقبال خان اور مردان کے لوگوں کی بڑی تعداد بھی عدالت میں موجود تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 13اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو طلباء کے مشعتل ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر تشددکرکے قتل کردیا تھا۔

کیس کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میںانکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، جس میں یونیورسٹی ملازمین بھی ملوث تھے‘مشال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے شواہد نہیں ملے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ کو مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا جبکہ مشال خان یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف بھی کھل کر بات کرتاتھاجس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ ان سے خوفزدہ تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشال خان کے خلاف اکسایا جبکہ رپورٹ میں مشال خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں رجسٹرار سے لیکر سکیورٹی افسر تک تمام عہدوں پر نااہل سفارشی افراد تعینات ہیں جس کی وجہ سے جامعہ کا نظام درہم برہم ہے‘یونیورسٹی میں منشیات ‘ اسلحہ کا استعمال اورطالبات کا استحصال عام ہے جبکہ یونیورسٹی کے بیشترملازمین کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے اور ان کی چھان بین کی جانی چاہیے۔

تازہ ترین