جس طرح ہمارے کرکٹ بورڈ کے بدنصیب سربراہ اعجاز بٹ کے مقدر میں عزت نہیں ہے بالکل اسی طرح بے چارے شعیب اختر کی قسمت میں کامیابی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ جس طرح بعض پسو نما سیاسی، سرکاری و کاروباری شخصیات ملکی خزانے پر بوجھ ہیں بالکل اسی طرح اب شعیب اختر بھی قومی کرکٹ ٹیم پر بار گراں ہی دکھائی دیتا ہے۔بھارت کے ہاتھوں پرسوں ہماری جو دلخراش لتریشن ہوئی ہے اس کی جملہ وجوہات میں سے ایک شعیب اختر بھی ہے جس نے نہ صرف بھارتی پسندہر بجن# سنگھ سے عبرتناک شاٹیں کھائیں بلکہ اگر ایمپائر بیچ بچاؤ نہ کروادیتا تو یہ اپنی روایتی بدزبانی کے سبب اس سے اچھی خاصی پھینٹی بھی کھا لیتا کیونکہ ایک تو ہربجن مسلح تھا(ایسے موقعوں پر بیٹ بھی ایک مہلک ہتھیار ہوتاہے)اور دوسرا وہ ایک ایسا سکھ ہے جس کے بارہ ہمہ وقت بجے رہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شعیب نے اپنی تمام تر توانائی باڈی بلڈنگ ،پھڈے بازی و دیگر مشاغل میں برباد کرڈالی ہے کیونکہ وہ بھاگتے ہوئے پہلوان نماکوئی چیز تو لگتا ہے فاسٹ باؤلر ہرگز نہیں۔ اس جیسے ڈیل ڈول کے پینڈو ٹائپ آدمیوں کو ہم نے ریلوے سٹیشن اوکاڑہ کے آس پاس بارہا تماشہ کرتے، تنگ کڑے میں سے گزرتے ،کانچ کے ٹکڑے چباتے اور ایک لمبی تلوار حلق سے نیچے اتارتے دیکھ رکھا ہے۔ اسی بے ہنگم سے ڈیل ڈول ہی کی وجہ سے اس نے آخری اوور میں مس فیلڈنگ کا ارتکاب کیاجس کے باعث ہم شکست کے اور قریب ہوگئے۔ زیر نظر سطور کامقصد شعیب کی دل آزاری ہرگز نہیں بلکہ اسے مشورہ دینا ہے کہ کرکٹ کا خیال چھوڑ کر ریلوے سٹیشن اوکاڑہ کا رخ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں بھی گنجائش نہ رہے۔
شہباز شریف کے ہاں دعوت
شہباز شریف سے مل کر ہمیشہ یوں لگتا ہے جیسے کسی سرکاری ورکشاپ میں آپ ایک انتہائی محنتی ،سخت کوش اور بے آرام قسم کے مزدور نما مکینک سے ملاقات کررہے ہیں۔ ابھی چند ہی روز پیچھے انہوں نے آٹھ دس ٹی وی اینکر کھانے پر اکٹھے کر رکھے تھے۔ موصوف نے حالیہ بجٹ سے متعلق اپنی کارکردگی بیان کرتے ہوئے نصف گھنٹہ میں اپنے درجن بھر پراجیکٹس کا انجن کھول کر ہمارے آگے رکھ دیا۔ سستی روٹی سکیم بارے آپ نے کہا کہ اس میں بے شمار مسائل موجود ہیں مگر یہ ناگزیر نوعیت کا پراجیکٹ ہے اور ابھی کل ہم نے انہیں ا یک تقریرمیں یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ”میرا نام شہباز شریف نہیں اگر میں اس پراجیکٹ کو کامیاب کرکے نہ کھاؤں“۔
جنوبی پنجاب بارے ان کا انکشاف کافی حیران کن تھا کہ” گزشتہ حکومت پنجاب نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس پسماندہ اور دور افتادہ علاقے کو فقط66ارب روپے پر ہی ٹرخائے رکھا جبکہ ہم نے آدھی سے بھی کم مدت میں اب تک یہاں سوا سوا ارب کے لگ بھگ رقم خرچ کرڈالی ہے“تاہم ذاتی طور پر ہم جنوبی پنجاب میں نواز لیگ کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں دیکھتے مگر وقت بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔
وزیر اعلیٰ نے آئی ٹی لیبز کے اس جال کا بھی تذکرہ کیا جو حاصل پور سے لے کر اٹک تک پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے زرعی تعلیم کے حوالے سے گریجوایٹس کو مفت زمین الاٹ کرنے کا عندیہ بھی دیا اور چھبیس عدد موبائل ہسپتالوں کے عنقریب فنکشنل ہونے کی نوید مسرت بھی سنائی۔ حارث سٹیل ملز فراڈ کیس سے متعلق انکشاف بھی خاصا لرزہ خیز تھا کہ خبروں میں تو یہ فراڈ فقط نو دس ارب کا ہے مگر درحقیقت اس ذلت کا دائرہ تقریباًپچاس ارب تک پھیلا ہوا ہے اور حارث سٹیل کے علاوہ بھی درجنوں کمپنیاں پنجاب بنک کا پیسہ ڈکار کر ہرن ہوچکی ہیں، کیونکہ سٹیٹ بنک کی واضح ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے بنک کے ڈائریکٹر حضرات نے اپنے عزیز و اقارب کو اربوں کے قرضے دلوا کر سرکار کو” تھک“ لگا رکھی تھی۔ہم لوگ گئے تو کھانا کھانے تھے مگر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دردناک انکشافات سن کر اینکرز کی اکثریت کھانا کم اور رحم زیادہ کھاتی رہی۔ ہوسکتا ہے کہ ون ڈش کی طرح یہ بھی موصوف کے بچت پروگرام کا حصہ ہی ہو ورنہ ہماری حیرت کا سامان کھانے کے بعد بھی کیا جاسکتا تھا۔ بہرحال ہمارے ہاتھوں کے طوطے اس وقت اڑے جب وزیر اعلیٰ نے دکھی دل کے ساتھ یہ کہا کہ بجٹ کا نصف تو ڈیلپمنٹ پر لگتا ہے مگر باقی کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے ۔ کرپشن کا ناسور واقعی ہمارے جسد قومی میں ہر طرف پھیل چکا ہے جس کی روک تھام کے حوالے سے سرکارفی الحال تو بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ نے محض ہمارے دیکھنے کے لئے دو عدد پراجیکٹس یعنی لاہور قصور روڈ اور باب پاکستان کا تذکرہ کیا جن میں کرپشن کروڑوں کی نہیں بلکہ اربوں کی بتائی جاتی ہے۔اس مقام پر ہمیں اپنے برابر بیٹھے بعض حساس قسم کے اینکرز باقاعدہ غش کھاتے بھی محسوس ہوئے مگر بغور دیکھنے سے پتہ چلا کہ اداکاری کررہے ہیں، ان کی اکثریت اپنے پروگراموں میں بھی یہی کچھ کرتی ہے۔
کسی نئے سیٹ اپ کی بشارت
دنیائے سیاست کا ایک خوش خیال مگر انتہائی باخبر طبقہ اس بات پر ادھار کھائے بیٹھا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کی آخری رسومات جولائی کے اواخر میں شروع ہوجائیں گی اور ان کا نقطہ آغاز ہوگا وہ وقت جب یہ احباب جنرل کیانی کی ایکسٹیشن والے معاملے کو اپنی روایتی مس ہینڈلنگ کا شکار بنائیں گے، عین اس وقت سپریم کورٹ کے معاملات برادرم بابر اعوان کو بر ادرم بابر حیران کر ڈالیں گے۔ امید ہے آپ نے اب تک حیران کرنے والا دلخراش لطیفہ سن لیا ہوگا۔
چند جذباتی قسم کے محب وطن دوستوں کا خیال یہ بھی ہے کہ کرپشن کے سرطان نے ہماری قوم کو جس حال تک پہنچا دیا ہے اس کے پیش نظر اب یہ لازم ہوچکا ہے مو جودہ نظام بھی کتے کی موت مرجائے اور اندھے احتساب کا آغاز بھی ہو۔ کرپشن کی لعنت سے تو خیر پورا ملک ہی بہت تنگ ہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے مطابق ہم دنیا کا بیالسیواں کرپٹ ترین ملک ہیں۔ اس سے بڑی ذلت بھلا اور کیا ہوگی کہ ہم ہر سال1500ارب روپے کرپشن کی مد میں پھونک ڈالتے ہیں یعنی اگر ہم صرف دوسال ہی کرپشن سے پرہیز کرلیں تو ہمارے تمام بیرونی قرضے اتر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس بات کی گارنٹی کون کرے گا کہ احتساب کے جال میں فقط سیاسی لوگ ہی نہیں پھنسیں گے چند دیگر پردہ نشینوں اور مقدس گائیوں کو بھی اس میں پھنسایا جائے گا۔ آپ نے دو روز قبل اسی اخبار میں رؤف کلاسرہ کی شوریٰ دیکھ لی ہوگی جس میں چار جرنیلوں کی مبینہ کرپشن اور بدعنوانی سے متعلق ایک رپورٹ کا تذکرہ ہے۔ اس سانحے نے اس غریب مملکت خدادا کو چارارب سے زائد کا ٹیکہ لگایا ۔ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ چودھری نثار علی خان پچھلے کئی ماہ سے اس رپورٹ پر شاید یہ سوچ کر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں کہ ان سترہ کروڑ گو بھٹیوں کوتو کانوں کا ن خبر نہیں ہوگی ،میں ان دوستوں کو ناراض کیوں کروں جن کا دست شفقت ہمیشہ میرے سر پر موجود رہا ہے!!۔
بہرحال نیا سیٹ اپ کل کا آتا آج، ابھی اور اسی وقت آجائے مگر اس مرتبہ چھری تلے فقط چھوٹی موٹی سیاسی بھیڑ بکریاں ہی نہیں موٹی موٹی مقدس گائیں، جنگلی بھینسے، سرکاری سانڈ اور درباری بھیڈو بھی آنے چاہئیں اگر صرف اسی ایک بات کو یقینی بنادیا جائے تو بخد ا یہ ملک فقط تیس دن میں پٹڑی پر چڑھ سکتا ہے فقط تیس دن میں۔اتنی خواری برداشت کرنے کے باوجود اس میں اب بھی بڑا پوٹینشل ہے اب بھی بڑا دم خم ہے اس میں ۔