• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کے بعد لوگوں کاہجوم تھا، لیکن ویسا نہیں جیسا 2013ء کے عام انتخابات کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔ لوگوں کے پُرجوش نعروں کا جواب دینے کو وہاں نواز شریف تھے نہ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دوسرے سینئر لیڈر۔ اظہارِ تشکر کے لئے اگر بالکنی پہ کوئی تھا تو وہ تھیں مریم نواز اور اُن کے واحد انکل پرویز رشید یا پھر اُن کی نئی ٹیم کے خواتین و حضرات جنہوں نے تنِ تنہا یہ انتخابی معرکہ سر کیا۔ ضمنی انتخاب کی پُرشور مہم میں اور بالکنی پہ بالکل مختلف لوگ نظر آئے۔ جبکہ چچا شہباز شریف اور ولی عہد حمزہ شہباز شریف، دُختر اوّل کی جارحانہ مہم کی گرد سے آلودہ ہونے سے اپنا دامن بچا نکلے۔ یہ ضمنی انتخاب گزشتہ انتخابی کامیابی اور عوامی مینڈیٹ کی توثیق یا تنسیخ کا چیلنج لئے تھا۔ یا پھر ہر دو بڑے حریفوں نے اسے سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نااہلی کی عوامی عدالت سے نفی یا اثبات کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ مریم نواز کی طوفانی مہم اور عمران خان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے دفاع میں جوابی مہم نے اس ضمنی انتخاب کو نواز شریف کی سیاسی حیات یا موت کا مسئلہ بنا دیا۔ اوپر سے ہماری زبردست پرانی مہم جُو ڈاکٹر یاسمین راشد نے گھر گھر دستک دے کر مسلم لیگیوں کو چھٹی کا دودھ ایسا یاد دلایا کہ یہ تاریخ کا سب سے کانٹے دار مقابلہ بنتا نظر آیا۔ نتیجتاً، گزشتہ انتخابات میں نواز شریف کی 91,666کے ووٹوں سے یاسمین راشد کے 52,321 ووٹوں کے مقابلے میں اس بار جیت 39,345 ووٹوں کی بھاری اکثریت (60فیصد) سے کم ہو کر اس ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کے 61,745 ووٹوں کے مقابلے میں یاسمین راشد کے 47,099 ووٹوں (48فیصد) سے کامیابی کا فرق 14,646 (37فیصد) ووٹوں تک کم رہ گیا۔
گو کہ مریم نواز کے لئے چچا اور کزن کی دانستہ عدم موجودگی، والدہ کی علالت کے باعث والد کی غیرحاضری میں یہ بڑا امتحان تھا اور شاید پہلا بھی، وہ اُس میں تنِ تنہا کامیاب رہیں۔ لیکن جیت کے تناسب میں کمی نے (اور وہ بھی 35 برس سے بنے لاہور کے اس لیگی گڑھ میں) بہت سے سوالات اُٹھا دیئے۔ لیکن یہ گتھی سمجھنی ایسی مشکل بھی نہیں۔ کلثوم نواز کے ووٹوں کا تناسب یاسمین راشد کے ووٹوں کے تناسب سے 11فیصد زیادہ رہا، جو نواز شریف کے گزشتہ انتخابات میں جیت کے 26.2فیصدکے تناسب سے 14.3فیصد کم ہے۔ یوں اگر یاسمین راشد کے ووٹوں کا تناسب 2.6فیصدبڑھا بھی تو مجلس وحدت مسلمین کی مدد سے۔ لیکن مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں کمی کا تناسب گزشتہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے مقابلے میں کمی کی شرح کے تقریباً مساوی ہے۔ متحارب قوتوں نے بساط بھی کیا زبردست بچھائی تھی کہ قومی اتحاد کے زمانے سے بنا نواز شریف کا وسیع تر قدامت پسند حلقہ انتخاب تقسیم ہو گیا۔ پہلی بار میدان میں بظاہر سیاسی ’’قلبِ ماہیت‘‘ کے لئے ہی سہی کالعدم لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ یا فلاحِ انسانیت کا ایک نیا سیاسی محاذ ملی مسلم لیگ کے نام سے تشکیل دیا گیا جس نے عالمی طور پر ’’بہت چاہت والی‘‘ شخصیت حافظ سعید کی تصویر لہرا کر ’’مودی کے یار‘‘ کو شکست دینے کا نعرہ بلند کیا اور اس غیرمنظور شدہ اور کالعدم جماعت کے اُمیدوار کو 5,822ووٹ ملے۔ اِسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ اور حضور پُرنورﷺ کے نام پر بنے لبیک یارسول اللہ (جی ہاں! لبیک) کے جانثار بھی ممتاز قادری کی عدالتِ عظمیٰ کے ہاتھوں سلمان تاثیر کے قتل میں پھانسی کے خلاف عوامی حمایت لینے کے لئے میدان میں اُترے یا اتارے گئے۔ اس جماعت کے اُمیدوار نے تیسری پوزیشن لیتے ہوئے 7,130 ووٹ لئے۔ مجموعی طور پر ان دو اُمیدواروں نے 12,952 ووٹ لئے۔ دلچسپ بات ہے مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں کمی کا تناسب ان دو گروہوں کے ووٹوں کے تقریباً برابر ہے۔ کارکرتاؤں کو مایوسی یہ ہوئی کہ ان غیرقانونی جماعتوں کو ووٹ ان کی توقع سے کم ملے، ورنہ مسلم لیگی نان چھولے اور سری پائے کھاتے رہ جاتے اور نواز شریف اور اُن کے نام کے لاحقے سے نتھی مسلم لیگ نواز کو وہ جھٹکا لگنا تھا کہ یہ کئی گروہوں میں بٹ جاتی اور اگلے انتخابات میں بُری طرح پٹ جاتی۔ (گو کہ یہ امکان اور بڑھ گیا ہے)۔ اس انتخاب کا سب سے مایوس کُن پہلو یہ ہے کہ اس انتخابی مقابلے میں دائیں بازو کے مختلف رنگ جہادیوں، تفرقہ پرست انتہاپسندوں، میانہ رو قدامت پسندوں اور فسطائیوں کے سبھی روپ تھے، جو نہیں تھا وہ سیاسی اسلام کی نمائندہ جماعتِ اسلامی اور آزاد خیال اور نسبتاً ترقی پسند پیپلز پارٹی تھی۔ جماعتِ اسلامی کو 500 سے کم ووٹ پڑے اور پیپلز پارٹی 1500 سے بھی کم ووٹوں پر آکھڑی ہوئی۔ یقیناًپیپلز پارٹی کی پنجاب بدری کا کام ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہو کر، غلام اسحاق خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل مشرف تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن یہ جناب آصف علی زرداری ہی کا کارنامہ ہے کہ اُنھوں نے لاہور اور وسطی پنجاب کو تحریکِ انصاف کے حوالے کر دیا۔ اب نواز شریف کی پنجاب بدری کی باری ہے، دیکھتے ہیں اس سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ نواز شریف نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ انہیں اگر سیاست سے باہر کیا گیا تو اُن کی جگہ مذہبی انتہاپسند لیں گے۔ گو کہ اس کی شروعات حلقہ 120 سے دکھائی دی ہیں لیکن بیل منڈھے چڑھتی مشکل لگتی ہے۔
درحقیقت، مسلم لیگ نواز پہلے ہی اوپر اور درمیان سے بٹی دکھائی پڑتی ہے اور شریف خاندان پہلی بار تقسیم ہوا صاف نظر آتا ہے۔ پانامہ اور ڈان لیکس کے وقت ہم یہ صاف دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب کے طاقتور وزیراعلیٰ اور اُن کے ہر جانب برسرِ عمل ولی عہد حمزہ شہباز نے خود کو نواز شریف اور اُن کی اولاد کے خلاف جاری احتساب کے شفاف طور پر جاری غیرشفاف احتساب کی آنچ سے دور رکھا ہے۔ حلقہ 120 کے سیاسی طور پر فیصلہ کُن معرکے میں بھی وہ دُور دُور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ بلکہ نظر آیا بھی تو اُن کا عدم تعاون۔ بادشاہوں اور مغل شہزادوں کی تخت یا تختہ کی داستانیں ایسے وقت میں لوگوں کو خوب یاد آئیں اور وہ اکیلی بچی کہ میدان میں اُتر کر ’’سازشی عناصر اور نادیدہ قوتوں‘‘ کو ناکام بنانے کی معرکہ آرائی میں شامل ہو گئے۔ نواز شریف سے تو لیگی کارکنوں اور حلقے کے روایتی ووٹروں میں ہمدردی تھی ہی اور وہ مریم نواز کو کارزار میں اکیلا چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ ویسے بھی ریاستی ادارے بشمول عدلیہ جسے زمین پر گراتے ہیں، عوام اُسے باغی سمجھ کر سر پر اُٹھا لیتے ہیں، بھلے وہ کیسا ہی قصوروار کیوں نہ ہو؟ یوں ایک ممکنہ شکست ایک اچھی خاصی بڑی کامیابی میں بدل گئی۔ لیکن ضمنی انتخاب میں پھر سے عوامی مینڈیٹ کیا ملا کہ جہاں مسلم لیگ کی عوامی بنیاد متحرک ہو گئی، وہاں مسلم لیگ کی ٹوڈی سیاست کے پرانے جغادریوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اور میدان میں اُترے شہباز شریف کے پرانے رفیقِ کار چوہدری نثار جو اپنے عسکری شجرۂ نسب کو عامیوں کے مقابلے میں بطور سند پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پہلے تو اُنھوں نے مریم نواز پہ سیاسی بچپنے اور اُس کی سیاسی عدم بلوغت پہ پھبتیاں کسیں اور اب وہ حملہ آور ہوئے ہیں وزیراعظم خاقان عباسی اور اُن کی کابینہ کے سرکردہ وزراء کے خلاف۔ قومی سلامتی اور سفراء کے پےدر پے اجلاسوں کے بعد جو خارجہ و سلامتی کی پالیسی بنی اور ’’اپنے گھر کو صاف کرنے‘‘ کا جو عندیہ دیا گیا (جانے کتنا سچ ہے؟) اُسے ہمارے مہا قوم پرست راجپوت نے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے دشمن کو کمک پہنچانے کے مترادف قرار دے دیا۔ ایسا کرنے سے اپنی ہی پارٹی کی وہی سبکی کی گئی جو ماضی میں بھی راج سنگھاسن کے مالکوں کی خوشنودی کے لئے کی جاتی رہی۔ اور چھوٹے بھائی خفیہ سفارت کاری میں مصروف رہے کہ بھائی جان مسلم لیگ نواز کی باگ ڈور اُن کے ’’صادق و امین‘‘ ہاتھوں میں تھما کر گوشہ نشین ہوں کہ شاید اُن کی عافیت کی کوئی راہ نکل سکے۔ ابھی شہباز شریف کی یہ بیک ڈور پھرتیاں جاری ہی تھیں کہ حدیبیہ پیپر ملز کا پُرانا پنڈوراکھل گیا اور اب ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل و غارت گری پر عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو ظاہر کرنے کا عدالتِ عالیہ کا حکم نازل ہو گیا۔ اب جائے رفتن نہ پائے رفتن کی حالت ہے اور شہباز شریف کے قیادت سنبھالنے کی حسرت کی نارسائی!
نواز لیگ میں جھگڑا تو ہونا ہی ہے۔ ایک طرف نواز شریف اور مریم نواز عوام کے حقِ حکمرانی کے لئے مزاحمتی سیاست کی راہ لینے پہ مائل ہیں اور جن کی حمایت میں وہ تمام لیگی ہیں جنہیں کم ہوتی ہوئی عوامی حمایت سے بچنے کے لئے نواز شریف سے ہمدردی کی لہر درکار ہے۔ دوسری طرف وہ روایتی لیگی ہیں جو ہر دور میں مقتدر حلقوں کی سرپرستی کے طلبگار رہتے ہیں۔ ان ٹوڈی لیگیوں کی زیادہ تر تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں روایتی حلقوں میں اپنی خاندانی برتری کے سوا کچھ عزیز نہیں۔ کل وہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ساتھ مل گئے اور آج بس ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ یقین مانیے انہیں جنرل باجوہ کے اس بیان کہ فوج کا پانامہ کیس اور سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ سے کوئی تعلق نہیں ہے، خاصی حیرانی ہوئی۔ اس لئے بھی کہ خفیہ ہاتھوں کے اشارے کچھ اور ہیں۔
حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں سُرخرو ہونے کے باوجود، اب بحث چل نکلی ہے کہ نواز شریف آئیں گے یا نہیں؟ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو ناموافقت کے خلاف کھڑا ہو گیا وہ عوام کے دلوں میں بس گیا۔ نواز شریف جو پیدا تو ضیاء الحق کے انتہائی رجعتی اور آمرانہ بطن سے ہوئے، لیکن جب اُنہیں عوام کے ہوا میں لہراتے ہاتھوں کی ہوا لگی تو ایک بار نہیں کئی طالع آزماؤں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ وہ بھٹوز کی شہادت والی روایت کے بھی قائل نہیں اور نہ ہی عوامی جمہوریت کے ایسے بڑے علمبردار کہ زندگی کو جان جوکھوں میں ڈال دیں۔ لیکن تاریخ کے تقاضے اور حالات کا جبر یا تو آپ کو میدان میں کھڑا کر دیتا ہے یا پھر بھگوڑا بنا دیتا ہے۔ دیکھتے ہیں نواز شریف اور مریم نواز تاریخ میں سُرخرو ہوتے ہیں یا پھر بھگوڑے؟

تازہ ترین