• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبضہ مافیا کی سرکوبی پورے ملک میں ہونی چاہئے

لینڈ مافیا کے ہاتھوں سرکاری و غیر سرکاری زمینوں اور املاک پر قبضے اگرچہ پورے ملک کا مسئلہ ہیں مگر پاکستان کا اقتصادی انجن کہلانے والے صوبے سندھ میں اس کی سنگینی زیادہ شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کیونکہ ایک طرف لوگوں کو ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی اور سر چھپانے کے آسرے سے محروم کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی کشیدگی کے ذریعے عدم تحفظ اور بے یقینی کی فضاء پیدا کی جارہی ہے۔ زر، زن اور زمین کو ہمیشہ سے فساد کی جڑ کہا جاتا رہا ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی طلب اور تصرف و ملکیت کی خواہش صاحبان اختیار کی ایسی کمزوری ہے جس پر قابو پانا ہمارے جیسے جاگیرداری اور سرداری نظام پر مبنی معاشرے میں بہت مشکل نظر آتا ہے۔ بااثر افراد کی نجی جیلوں، کمزوروں کو بے گناہی ثابت کرنے کے لئے آگ پر چلانے، لڑکیوں کی قرآن سے شادی کرنے، کاروکاری کی آڑ میں زمینوں کے ممکنہ مدعیوں کو راستے سے ہٹانے، تعلیم اور علاج و معالجے سے صاحبان اقتدار کی غفلت جیسے افسوسناک معاملات کے پس پردہ صدیوں سے فساد کی وجہ قرار دیئے جانے والے مذکورہ تینوں عناصر یا ان میں کوئی ایک یا دو عموماً کارفرما ہوتے ہیں۔ سندھ میں گورنر اور وزیراعلیٰ کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں قبضہ مافیا کے خلاف جس آپریشن کی منظوری دی گئی، اس پر بھرپور عملدرآمد سے دوسرے صوبوں میں سرکاری و نجی املاک پر قبضہ کرنے والوں، بالخصوص ریلوے کی زمینیں ہتھیانے والوں کے خلاف کارروائی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ مگر تلخ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں کئے گئے اس نوع کے متعدد اعلانات، فیصلوں اور آپریشنوں کے نتائج وہی نکلے جو نیم دلی سے کئے گئے کسی بھی کام کے ہوسکتے ہیں۔ جن مقامات سے لینڈ مافیا کے کارندوں کو ہٹایا گیا، وہاں پولیس یا رینجرز کی واپسی کے چند گھنٹوں کے بعد قابضین اسی طرح واپس آگئے جیسے تفریحی پکنک پر جانے والے لوگ گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ یوں متعلقہ علاقے عام لوگوں، بالخصوص زمینوں کے الاٹیوں کے لئے ’’نو گو ایریا‘‘ بنے رہے ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ سرکاری و نجی زمینوں کو واگزار کرانے کے فیصلے جو لوگ کرتے رہے ہیں، انہی کی سرپرستی میں قبضے کرائے جانے کی کہانیاں زباں زد عام ہیں۔ ابتداء میں زمینیں ہتھیانے اور فروخت کرنے یا ان کے عوض تاوان وصول کرنے کا دھندا مقامی سطح پر ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر اور پھر ریلوے کی اراضی پر قبضوں کے زیادہ تر واقعات مقامی نوعیت کے تھے۔ مگر اب چینی، آٹے، گھی اور سیمنٹ کی طرح ایسے گٹھ جوڑ بن چکے ہیں جن میں بااثر افراد اپنی اپنی عملداری میں دوسرے علاقوں کے زمین چوروں کے منافع کے حصہ دار اور ان کی سرگرمیوں کو تحفظ دینے کا ذریعہ ہیں۔ ان سب نے مل کر مذکورہ کاروبار کو ایسی ایسی جہتیں دی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ماضی میں یہ سب کچھ پولیس اور متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے ہوتا تھا۔ اب بعض فروخت کنندگان اور بلڈرز بھی شامل ہوگئے ہیں جو ناجائز قابضین کی آمد کو عذر بنا کر اصل خریداروں کو قبضے دینے میں بے چارگی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ان میں ایسے عناصر کی موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں جن کے پاس وہ زمین موجود ہی نہیں ہوتی جس کے پیسے کھرے کئے جاچکے ہیں۔ اس لئے ہائوسنگ سوسائیٹیوں، زمینوں کا کاروبار کرنے والوں اور بلڈرز کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ جو زمینیں فروخت کریں ان پر نہ صرف عملی قبضہ رکھتے ہوں بلکہ انہوں نے اس قبضے کو برقرار رکھنے کے فول پروف انتظامات بھی کر رکھے ہوں، فلیٹوں اور پلاٹوں کا قبضہ الاٹیوں کو دینے کے کم از کم دس سال بعد تک ان فروخت کنندگان کو متعلقہ حدود کی حفاظت اور دیکھ بھال کا ذمہ دار قرار دینے اور بصورت دیگر سخت سزائیں دینے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔
زمینوں کا انتظام، حفاظت اور دیکھ بھال ایک جانب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے تو دوسری جانب یہ زمینیں صوبوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اور مستقبل کی ضروریات کی ایک ٹھوس ضمانت بھی ہیں۔ اس لئے صوبوں کو اس بات کا قانونی اور انتظامی طور پر اہتمام کرنا ہوگا کہ سٹلائٹ نقشوں کے موجودہ دور میں ماضی کی طرح ریونیو افسران کی ملی بھگت سے کھاتے تبدیل کر کے عوام اور حکومت کو نقصان پہنچایا جاسکے نہ سرکاری دفاتر میں آگ لگا کر ریکارڈ کو ضائع کرنا ممکن ہو۔ سندھ میں اگرچہ ایک قانونی سقم کوآرڈی ننس کے ذریعے دور کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر زمینوں پر قبضوں اور فراڈ کی روک تھام کیلئے زیادہ سخت سزائوں کا، بلکہ ایک خاص حد سے زیادہ زمینوں کے معاملے میں سزائے موت کا قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضے کے ذریعے انہیں برائے نام قیمت پر یا کسی قیمت کے بغیر قانونی طور پر اپنی ملکیت قرار دینے والوں کی روک تھام میں ناکامی ڈاکو کلچر اور اغوا برائے تاوان کے فروغ کا ذریعہ بنی ہے۔ اس کے علاوہ اسلحے کی بڑی کھیپوں کو چھپانے میں بھی معاون ثابت ہوئی ہے۔ شہروں میں پرانے گوٹھوں کی دریافت اور کچی آبادیوں کے قیام کی بھی کوئی ایسی تاریخ ضرور متعین ہونی چاہئے جس کے بعد کسی بھی زمین کو قدیم گائوں کہنے یا کچی آبادی قرار دے کر ریگولرائز کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ حکومت کی جاری کردہ ہائوسنگ اسکیموں میں الاٹیوں کی زمینوں پر جھونپڑیاں ڈال کر اور کچے پکے مکانات بنا کر سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے لہرا دیئے جاتے ہیں۔وہاں جانے والوں کو تشدد اور فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان زمینوں پر قابض افراد کو لیز سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے مطالبات سیاسی سطح سے آنے لگتے ہیں۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کا خاتمہ ایک افسوسناک سازش کا شاخسانہ تھا مگر حکومتی کوششوں اور خطیر اخراجات کے باوجود اس کی بحالی اس بنا پر اب تک ممکن نہیں ہوسکی کہ ریلوے لائن اور متعلقہ تنصیبات پر تجاوزات قائم کرنے والے انہیں قدیم دیہات اور کچی آبادیاں قرار دیتے ہوئے انخلاء کے لئے آنے والے اہلکاروں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسرے دہشت گرد عناصر کی طرح قبضہ گروپوں نے بھی مذہب کی آڑ لیتے ہوئے قبرستانوں کے اندر اور ندی نالوں پر بنے ہوئے پلوں کے آس پاس زمینوں پر کارخانے یا گودام بنا کر راستوں یا پلوں کے دائیں بائیں چھوٹی چھوٹی مساجد بنا دی ہیں تاکہ زمین واگزار کرانے کی کسی بھی کوشش کو مسجد کی بے حرمتی کا نام دیا جاسکے۔ ان سب پہلوئوں پر سندھ سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو توجہ دینی ہوگی۔ عدلیہ کو بھی ان خاندانوں کی دادرسی کے لئے خصوصی تدابیر کرنی چاہئیں جن کی زندگی بھر کی کمائی ہائوسنگ سوسائیٹیوں، فروخت کنندگان، بلڈرز یا قابضین کے ہاتھوں ڈوب جاتی ہیں۔ عدالتوں میں عشروںبلکہ نسلوں تک چلنے والے مقدمات مرے پر سو درّے کا کام کرتے ہیں اور زمین کی قیمت سے کئی گنا رقم وکیلوں اور رشوتوں پر خرچ ہونے کے باوجود بے گھری و بے دری لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ سندھ سمیت تمام صوبائی حکومتیں اگر عوام کو ان بے انصافیوں سے نجات دلا سکیں تو یہ ایک بڑا کام ہوگا مگر اس کے لئے سیاسی عزم کے ساتھ مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایسی سستی اسکمیں بڑے پیمانے پر بنائی جانی چاہئیں جن کے ذریعے لوگوں کو کم سے کم وقت میں سر چھپانے کی جگہ فراہم کی جاسکے۔

فٹ بال ورلڈکپ اور لوڈشیڈنگ کا شیڈول
آج کے دور میں اہم شہری خدمات کے اداروں کو معمول کے حالات میں نہ سہی مخصوص نوعیت کی صورت حال میں کیسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے، یہ ایک ایسی ظاہر و باہر حقیقت ہے جس کی تشریح و وضاحت کی ضرورت نہیں۔ مہذب معاشروں میں ایسی باتوں کا ازخود خیال رکھا جاتا ہے، لیکن ہمارے اداروں کے ارباب اختیار بار بار توجہ دلائے جانے کے بعد بھی عوامی جذبات و احساسات کا خیال رکھنے کی بجائے حیران کن بے حسی اور لا تعلقی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دنوں فٹ بال کا ورلڈکپ ہو رہا ہے۔ اس سے کراچی کے شہریوں بالخصوص نوجوانوں میں نہ صرف یہ کہ فٹ بال سے دلچسپی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور شہر کے گلی کوچوں میں بچے کرکٹ کے ساتھ ساتھ فٹ بال کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ فٹبال کے میچ ٹی وی پر دیکھنے کی بھی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن کے ای ایس سی میں لوڈشیڈنگ کا شیڈول بنانے والوں کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہ عین ان دونوں اوقات میں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کیلئے بجلی بند کر دیتے ہیں جب میچ آ رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسی سامنے کی چیزوں کے لئے بھی کے ای ایس سی جیسے بڑے اور با وقار ادارے کو بتانے کی ضرورت ہونی چاہیے کہ کم از کم جو میچ باقی رہ گئے ہیں، ان کے اوقات میں شہر کے کسی علاقے میں بجلی کی فراہمی معطل نہ کریں اور یہ لوڈشیڈنگ دوسرے اوقات میں منتقل کر دی جائے۔ کیا یہ اتنا مشکل کام ہے جسے کے ای ایس سی انتظامیہ انجام نہیں دے سکتی؟

تازہ ترین