• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

کراچی( تجزیہ / مظہر عباس) نااہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے خلاف نیب عدالتوں میں سنگین مقدمات کا سامنا کرنے وطن واپس آگئے ہیں۔ اب سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف پر مقدمات چلانے کیلئے دبائو بڑھتا جارہا ہے جس میں قتل کے علاوہ آئین کے آرٹیکل ۔ 6 کے تحت انتہائی غداری کا مقدمہ بھی شامل ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ نواز شر یف کی وطن واپسی خاندان کے برخلاف قانونی ٹیم اور قریبی کور کمیٹی کے مشورے پر ہوئی ہے ۔ جن کا  موقف تھا کہ عدم پیشی کے انہیں اور ان کے بچوں کو تباہ کن نتائج بھگتنے پڑتے۔ پیر کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آج نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوگئے۔ اس طرح اب عدالت اور حکومت دونوں پر پرویز مشرف کے خلاف مقدمات کھولنے کیلئے دبائو بڑھ گیا ہے ۔

پیپلز پارٹی نے بھی سابق آمر کے ریڈ وارنٹ کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے سزائے موت کے مطالبے پر جنرل ( ر) پرویز مشرف کے حالیہ ردعمل نے مزید تنازعے کو جنم دیا جس میں انہوں نے بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر آصف علی زرداری کو مورد الزام ٹھہرایا۔ پرویز مشرف جو اپنی ساختہ آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ہیں انہیں اپنے منہ پھٹ انداز پر میڈیا میں بڑی  تشہیر ملتی ہے ، وہ سیاست چھوڑ کر خاموشی سے جلا وطنی میں دن گزار سکتے ہیں، لوگ عام طور پر اس بات کو ناانصافی سمجھتے ہیں کہ سابق سیاسی حکمرانوں پر تو فوری مقدمات چلا دیئے جائیں اور سابق آمر کے معاملے میں اگر مگر سے کام لیا جائے۔

پرویز مشرف کی الجھن خود ان کا اپنا رویہ ہے ۔ انہوں نے پاک فوج کے دو اور آئی ایس آئی کے بھی دو سابق سربراہوں کے مشوروں کو نظر انداز کیا۔ 2013 میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ( ر) اشفاق پرویز کیانی نے جنرل ( ر) پرویز مشرف کو دو وجوہ کے باعث وطن واپسی سے روکا۔ اوّل ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں سیکورٹی فراہم کرنا مشکل ہوگا ۔ دوسرے مسلم لیگ (ن) کے انتخابات جیت لینے کے تمام تر امکانات موجود ہیں اور نواز شریف کی حکومت ان پر مقدمہ بنا دے گی۔ حتیٰ کہ اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ نے دبئی میں پرویز مشرف سے مل کر انہیں پاکستان واپس جانے سے روکا تھا ۔

انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی قسمت آزمانے کا سوچا لیکن نہ صرف ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے بلکہ انہیں تاحیات نااہل قرار دیدیا گیا۔ اکثر کی رائے میں پرویز مشرف کے ساتھ انصاف نہیں ہوا، کیونکہ انہیں تو کسی بھی مقدمے میں کوئی سزا ہی نہیں ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر ان کی پارٹی کے نامزد دو امیدوار جیت گئے۔ نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد پرویز مشرف پر انتہائی غداری کا مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔آئین کا آرٹیکل۔ 6 پہلی بار لاگو کیا گیا ۔ نواز شریف نے یہ کام سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مشورے کے برخلاف کیا۔ اس اقدام نے اس وقت کے نئےآرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مشکل میں ڈال دیا۔ دو پیشیوں کے بعد ہی سیاسی اور عسکری قیادت میں کشیدگی نمایاں ہوگئی۔ آخر کار انہیں ’’ طبی وجوہ‘‘ کی بناء پر پاکستان چھوڑ کر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

ذرائع کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر بیٹھ کر غیر ضروری بیانات دینے سے گریز کا مشورہ دیا گیا۔ سابق آمر نہ صرف آرٹیکل۔ 6 کے تحت ملزم بلکہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کیس میں بھی ماخوذ تھے ۔ اس کے علاوہ بے نظیر قتل کیس اور لال مسجد کیس میں بھی وہ نامزد تھے۔ نواز شریف نے نامساعد حالات کے باوجود وطن واپسی کو ترجیح دی۔ البتہ ان کی واپسی 2007ء سے مختلف رہی، وہ مشرف دور میں اتنے دبائو میں نہ تھے جتنا اپنی ہی پارٹی حکومت کے دور میں ہیں۔ اتوار کو پاکستان واپسی زیادہ مشکل حالات میں ہوئی ہے ۔

تازہ ترین