میانوالی کے ان پانچ بچوں کی کہانی لکھنے سے پہلے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اسے کون پڑھے گا۔ کیا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پڑھیں گے جن کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ کیوبا کے اس سفیر کو ملاقات کیلئے دس منٹ دیتے جس نے 2005ء کے زلزلے میں اپنے ملک سے 2500 ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ٹیمیں منگوائیں اور 1000 پاکستانی طالبعلموں کو کیوبا میں ڈاکٹر بننے کیلئے اسکالر شپس لیکر دیئے۔ جس وزیر اعظم کے پاس کیوبا کے پاکستان دوست سفیر کیلئے وقت نہ ہو بھلا وہ کیونکر میانوالی کے ان پانچ بچوں کی کہانی کو پڑھے گا۔ کیا پھر یہ کہانی شہباز شریف پڑھیں گے جو اس وقت تک امداد نہیں کرتے جب تک کوئی بچوں کو زہر نہ دے ڈالے تاکہ ان کی دریا دلی کی بڑی بڑی خبریں لگ سکیں۔ چلیں پہلے یہ کہانی لکھتے ہیں۔
میانوالی کے یہ پانچ معصوم بچے جن میں سے بڑے کی عمر گیارہ سال ہے ایک چار پائی پر بیٹھے ہیں انہیں شاید بتایا گیا ہے کہ کسی اخبار کیلئے ان کا فوٹو کھینچنا ہے۔ کاش میں یہ تصویر اپنے اس کالم کے ساتھ چھاپ سکتا کیونکہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے ان بچوں کی آنکھوں میں چھپے انجانے خوف اور درد کو لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ ان بچوں کی بڑی بہن پہلے ہی بارہ سال کی عمر میں فوت ہو چکی ہے۔ سہیل کی عمر گیارہ سال، شعیب سات سال، سمیعہ نو سال اور باقی دو بچے چار سے پانچ سال کی عمر کے ہیں ۔اب مجھے نہیں پتہ کہ جب ان کی بہن مری ہوگی تو ان کے اندر کیا احساسات ہوں گے کہ ان کی بہن اچانک کہاں چلی گئی تھی۔ سہیل کیمرے کی طرف نہیں دیکھ رہا وہ دور کہیں فضا میں اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے قریب بیٹھا اس کا چھوٹا بھائی اپنے ہاتھوں پر ہاتھ رکھے دوسری سمت دیکھ رہا ہے۔ چارپائی پر درمیان میں بیٹھا بچہ سب سے زیادہ ایکٹیو اور کیمرے کو دیکھ رہا ہے لیکن آپ اتنی دور سے بھی اس کی آنکھوں میں موجود اداسی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کی بہن بیٹھی ہے۔ وہ بھی اپنے اس چھوٹے بھائی کی طرح کیمرے کی طرف الجھی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور آخر پر ایک اور بھائی بیٹھا ہے جس نے اپنے بازو پر سے آستین اوپر کی ہوئی ہے اور آپ کو واضح طور پر وہاں ایک بڑا زخم کا نشان نظر آ رہا ہے۔ یہ پانچوں بچے اگلے چند برسوں میں ایک ایک کر کے موت کی وادی میں چلے جائیں گے۔ یہ بچے ایک کانسٹیبل رزاق کے بچے ہیں جسے 1999ء میں پنجاب کا محکمہ پولیس اس وجہ سے نوکری سے برخاست کر چکا ہے کہ وہ اپنے بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے چھٹیاں بہت کرتا تھا۔ پچھلے گیارہ سال سے وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپنی بحالی کیلئے جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک طرف وہ پانچ بچے جو ایک ایسی خاندانی بیماری میں مبتلا ہیں جو ان کے اعصاب پر حملہ آور ہوتی ہے اور بارہ سال کی عمر سے پہلے ہی وہ بغیر کسی علاج کے مر جاتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب پولیس اور ہماری عدالتوں کا انصاف کہ وہ شخص جسے اس معاشرے اور اس کے اداروں کی مدد چاہیے تھی اسے ہم نے بیروزگار کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ بہتر ہوگا کہ وہ بھی اپنے بچوں کو یا زہر کے ٹیکے لگائے یا ٹرین کے آگے پھینک دے۔ ڈاکٹروں نے عبدالرزاق کو بتایا ہے کہ اس کے بچے Muscular dystrophy یعنی پٹھوں کی کمزوری کی بیماری میں مبتلا تھے جو خاندان میں شادی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بیماری میں بچے اپنے جسمانی اعضاء ہلا جلا نہیں سکتے اور ہر وقت بستر پر پڑے رہتے ہیں۔
برطرف کانسٹیبل رزاق کو پہلا صدمہ اس وقت ہوا جب اس کی بیٹی چھ سال کی ہوئی اور اس بیماری کا شکار ہوئی۔ اس وقت اس کی پوسٹنگ ڈیرہ غازی خان میں تھی۔ وہ چھ سال تک اپنی بچی بچانے کے لئیے لڑتا رہا۔ کسی کو اس کی حالت پر ترس نہیں آیا۔ پڑھے لکھے سی ایس ایس کرنے والے پولیس آفیسروں نے اس کانسٹیبل کو جبری ریٹائرڈ کر دیا۔ ایک طرف موت کی طرف بڑھتی بیٹی تو دوسری طرف اپنی نوکری چھن جانے کا دکھ۔ میانوالی کے اس غیور سپاہی نے دونوں محاذوں پر بیک وقت لڑنے کی کوشش کی مگر دونوں محاذ ہار گیا۔ بیٹی بھی جان سے گئی اور نوکری بھی۔ 24 جولائی 1999ء کو اپنی نوکری سے برطرفی کے خلاف اس نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرائی۔ دس سال بعد عدالت نے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو 23 اکتوبر 2009ء کو کہا گیا کہ وہ اس کا فیصلہ کریں۔ ایک سال گزر گیا ہے آئی جی کو اپنے پانچ بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کیلئے لڑنے والے اس سپاہی کی اپیل کو پڑھنے کا وقت نہیں ملا۔ شاید رزاق اگر اپنے بچوں کو زہر کا ٹیکہ لگا دے تو خادم اعلیٰ بھاگ کر اس کے گھر والوں کو دس لاکھ روپیہ دے آئیں گے۔ طارق سلیم ڈوگر سے اتنا نہیں ہوگا کہ وہ اس کی اپیل پر اس کی نوکری بحال کریں۔ یہ وہ بے حس معاشرہ ہے جس کی بنیاد میرے جیسے پڑھے لکھے لوگوں نے رکھی ہے۔ شہباز شریف کے آئی جی کے پاس ایک سال سے وقت نہیں ہے کہ وہ ان پانچ بچوں کے بیروزگار باپ کی نوکری بحال کرے اور اس کی مدد کرے۔
ان بچوں کی کہانی پڑھ کر میں حیران ہو رہا ہوں کہ دس سال سے رزاق اور اس کی بیوی کیسے اپنے ان بچوں کی پرورش کر رہے تھے جن کے بارے میں انہیں پتہ ہے کہ اگر ان کا اچھا علاج نہ ہوا تو یہ مر جائیں گے۔ کسی نے ان سے کہا کہ انہیں اسلام آباد میں واقع معذوروں کے ہسپتال لے جائیں وہاں تھراپی سے ان کا کچھ علاج ممکن تھا۔ ایک بیروزگار باپ کیسے یہ سب کچھ کرے۔ میانوالی جیسے دور دراز علاقے میں بھلا اس طرح کی بیماریوں کے علاج کیلئے کہاں سے سہولتیں آئیں گی۔ جس ملک میں 1.4 بلین ڈالر کے ایف سولہ طیارے خریدنے پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں گے وہاں رزاق جیسے لوگ نوکریوں سے برطرف اور ان کے بچے علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں ہی جائیں گے۔
یہ ہمارے اس دکھی معاشرے کی وہ کہانیاں ہیں جنہیں پڑھ کر ہم کچھ دیر کیلئے افسردہ ہوتے ہیں اور پھر زندگی کے ان جھمیلوں میں اپنے آپ کو یہ سمجھا کر بھول جاتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی مرضی تھی۔ یہ پانچ بچے اگر کسی مغربی معاشرے میں ہوتے تو ان کے والدین کو ان بچوں کی دیکھ بھال کیلئے مستقل ایک وظیفہ ملتا ۔ ہر روز ایک فزیو تھراپسٹ ان بچوں کی جا کر تھراپی کرتا۔ رزاق اور ان کے خاندان کو یہ محسوس ہوتا کہ یہ بچے ان کے نہیں ریاست کے تھے۔ یہ ہمیں مغربی معاشروں کی اس طرح کی کہانیاں عجیب کیوں لگتی ہیں۔ یہ کونسا اتنا بڑا کام ہے جو ہم نہیں کر سکتے۔ یوسف رضا گیلانی یا شہباز شریف کو کتنی دیر لگے گی اگر یہ نوٹیفیکیشن جاری کریں کہ ان پانچ بچوں کے ماں باپ کو آج سے یہ ریاست ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے کیلئے ماہوار پیسے دے گی اور ان بچوں کا علاج بھی ریاست کرائے گی۔ یہ پیسے گیلانی صاحب اور شہباز شریف نے جیب سے نہیں دینے۔ یہ پیسے میرے جیسے لوگوں کی جیبوں سے جائیں گے جو ہر سال اچھی خاصی تگڑی رقم ٹیکس کے نام پر اس معاشرے کے رزاق جیسے کچلے ہوئے کرداروں کیلئے دیتے ہیں جو راستے میں ان حکمرانوں کے پروٹوکول، مہنگی گاڑیاں اور یار دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ میں میانوالی کے اس برطرف کانسٹیبل اور اس کی بیوی کا ذاتی طور پر اس وجہ سے شکر گزار ہوں کہ پچھلے دس سال سے بیروزگار ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے بچوں کو اذیت میں دیکھ کر انہیں مارنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس ملک میں امداد اس وقت تک نہیں ملتی جب تک آپ اپنے بچوں کو زہر کے ٹیکے نہ لگائیں۔
میانوالی کے اس ڈوبتے ہوئے خاندان اور اس کے ان پانچ معصوم بچوں کی کہانی سامنے لانے میں خورشید انور نیازی نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے پسماندہ علاقوں میں پھیلی غربت، پسماندگی اور دکھوں کی یہ کہانیاں شہروں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اگر آج میانوالی کے ان پانچ بچوں کی کہانی خورشید انور نیازی کی بدولت ہم تک پہنچ بھی گئی ہے تو پتہ نہیں اسے کون پڑھے گا کیونکہ شہباز شریف میڈیا سے ناراض ہیں، گیلانی صاحب کے پاس کیوبا کے اس سفیر کے لیئے الوداعی ملاقات کا وقت تک نہیں جس نے ہمارے لئیے اتنا کچھ کیا، جب کہ میرے کالم پڑھنے والوں کو پہلے ہی مجھ سے یہ شکایتیں ہیں کہ میں اس طرح کی عام لوگوں کی کہانیاں سن کر ان کی زندگیوں میں ڈیپریشن، دکھ اور اذیت کے الاؤ روشن کر رہا تھا !